"KMK" (space) message & send to 7575

پانچ روز نیپال میں …آخری قسط

نیپال میں سب سے اچھی بات لوگوں کی انکساری تھی۔ ہمارے ہاں جیسی پھنے خانی‘ تکبر‘ احساس ِتفاخر اور ''پھوں پھاں‘‘ نام کو نہیں۔ جس کو ملے منکسر المزاج پایا۔ نیپال اکیڈمی کے ممبران اور لائف ممبران کی اکثریت نہایت اعلیٰ افسران‘ ریٹائرڈ افسران‘ محققین‘ ادیبوں اور نیپالی معاشرے کے سرکردہ افراد پر مشتمل تھی‘ لیکن کسی کو پروٹوکول کا مسئلہ درپیش نہ تھا۔ خود چانسلر گنگا پرشاد تمام مہمانوں کو ٹرانسپورٹ پر روانہ کرنے کے بعد آخری بس یا ویگن پر سوار ہوتا تھا۔ دورانِ کانفرنس درجن بھر افراد تو ایسے ملے جو نیپال کی جانب سے کسی نہ کسی ملک میں سفیر رہ چکے تھے۔ ایک صاحب پاکستان میں نیپال کے سفیر کے فرائض انجام دے چکے تھے۔ کئی ایسے لوگ ملے‘ جو کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر‘ کسی محکمے کے سیکرٹری‘ کسی کارپوریشن کے چیئرمین یا کسی تعلیمی ادارے کے سربراہ رہ چکے تھے۔ سب کے سب بالکل عام اور نارمل انسان کی مانند اس سارے پروگرام کا حصہ تھے اور پروگرام کے منتظمین کے انتظامات کے مطابق ‘مہمانوں کے بعد دوسرے درجے کے شرکا کے طور پر اس کانفرنس کا حصہ تھے۔ مہمانوں کے برعکس تمام نیپالی مندوبین قطار میں لگ کر کھانا لیتے تھے اور عقبی نشستوں پر تشریف رکھتے تھے۔ ایک صاحب بار بار پوچھ رہے تھے کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو میں کھانے کی میز سے آپ کو لا دوں۔ ہمارے انکار پر وہ صاحب بمشکل آرام سے بیٹھے۔ تعارف ہوا تو پتا چلا کہ موصوف ابھی بنگلہ دیش کی سفارت سے فارغ ہو کر نیپال واپس آئے ہیں۔ بڑی حیرانی ہوئی۔ ہمارے ہاں کوئی بندہ ایک بار سفیر بن جائے تو پھر ساری عمر اس کی گردن سے سفارت کا سریا نہیں نکلتا۔ ریٹائرڈ بیورو کریٹ مرتے دم تک گریڈ بائیس کے خمار سے باہر نہیں نکلتا اور کوئی اور انتظامی افسر اپنی بقیہ ساری عمر ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر بن کر گزار دیتا ہے۔
اس کانفرنس میں چین اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے مندوبین شریک تھے۔ چین سے چار عدد ادیب اور ایک عدد مترجم‘ یعنی کل پانچ لوگ اس میں شریک تھے۔ یہ شرکا کے اعتبار سے سب سے بڑا وفد تھا‘ لیکن عددی اعتبار سے بنگلہ دیش کا گروپ سب سے بڑا تھا۔ دو خواتین اور دو مرد حضرات تو اس کانفرنس کے شرکا کے حساب میں آئے تھے تاہم دونوں خواتین کے شوہر حضرات ''بمعہ جنج نال‘‘ کی تصویر کشی کرتے ہوئے ہمراہ تھے۔ ایک خاتون اپنے شوہر کو اس لئے ساتھ لائی تھی کہ وہ اپنے دو سالہ بچے کو اکیلی نہیں سنبھال سکتی تھی۔ اس گروپ نے منتظمین کے ناک میں دم کیے رکھا۔ سری لنکا‘ مالدیپ اور پاکستان سے دو دو لوگوں نے شرکت کی۔ میرے ساتھ سکردو سے بلتی زبان کے ادیب اور محقق محمد حسن حسرت تھے ‘جن کے مکالے کا موضوع تھا:
Cultural Heritage of Trans-Himalayan zone with referance of Gilgit-Baltistan۔
حسن حسرت دورانِ قیام سارا وقت کسی نیپالی ''شرپا‘‘ سے ملنے کی جستجو کرتے رہے اور بالآخر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو گئے اور دو عدد ''شرپا‘‘ لوگوں کو تلاش کرلیا جو ان کی مرضی کے بھی تھے یعنی ادب اور زبان کے حوالے سے وہ شرپا زبان کے دوسری زبانوں سے تعلق اور مشترکہ الفاظ سے کسی حد تک آگاہ تھے۔ حسن حسرت ان سے شرپا زبان اور بلتی زبان کے درمیان مشترکہ کڑیاں تلاش کرتے رہے اور ایک عدد ضخیم شرپا زبان کی لغت لیکر واپس آئے۔ شرپا نیپالی ہیں لیکن ان کا آبائی وطن شاید تبت تھا۔ میری ''شرپا‘‘ کے لفظ یا کسی شخص سے منسوب نام کے حوالے سے پہلا تعارف ''شرپا تن سنگھ‘‘ سے ہوا۔ یہ سرایڈمنڈہلاری کا سامان اٹھانے والا پورٹر تھا۔ سرایڈمنڈ ہلاری کا تعلق نیوزی لینڈ سے تھا اور یہ پہلا شخص تھا جس نے 1953ء میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا۔ بلند و بالا چوٹیوںکو سر کرنے والی مہماتی ٹیم خاصی لمبی چوڑی ہوتی ہے اور اس میں سب سے اہم کردار ''پورٹروں‘‘ کا ‘یعنی ٹیم کا سارا سامان کمر پر لاد کر پہلے بیس کیمپ اور پھر اوپر چوٹی تک ساتھ لے کر جانا ہوتا ہے۔ کم آکسیجن میں جبکہ از خود چلنا اور اونچائی چڑھنا ایک نہایت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ وزن اٹھا کر یہ مشقت طلب اور نہایت مشکل کام سرانجام دینا کسی عام تام آدمی کا کام نہیں۔ نیپال میں یہ فریضہ ''شرپا‘‘ لوگ سرانجام دیتے ہیں۔ 29مئی 1953ء کو جب سرایڈمنڈ ہلاری نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کیاتو اس کے ساتھ سامان اٹھانے والا پورٹر ''شرپا تن سنگھ‘‘ تھا۔ شرپا لوگ بلند پہاڑوں کے مکین ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی حساب سے سائز میں بڑے پھیپھڑے عطا کیے ہیں جو سانس لینے اور خون کیلئے درکار آکسیجن کی فراہمی کیلئے عام آدمی کی نسبت کہیں زیادہ مددگار اور موزوں ہیں۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت بلتی لوگوں کو عطا کی ہے۔ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے والے پہلے پاکستانی کو ہ پیما حسن سدپارہ کا تعلق بھی گلگت بلتستان کے شہر سکردو سے تھا۔ حسن سدپارہ واحد پاکستانی کوہ پیما تھا جس نے دنیا کی آٹھ ہزار میٹر سے بلند چودہ میں سے چھ چوٹیاں سر کیں۔ ان میں ماؤنٹ ایورسٹ کے علاوہ کے ٹو‘ گیشربروم۔I‘گیشر روم۔II‘ براڈپیک اور کلر ماؤنٹین نانگا پربت شامل تھے۔ نانگا پربت بلندی میں دنیا میں نویں نمبر کا پہاڑ ہونے کے باوجود اپنی مشکل جغرافیائی ہیئت کے باعث کوہ پیماؤں میں ''قاتل پہاڑ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسے سر کرنے کی پہلی باقاعدہ کوشش 1895 ء میں ہوئی جب ایک یورپین کوہ پیما البرٹ ممری اپنی ٹیم کے ہمراہ اسے سر کرنے آیا لیکن ممری اور اس کے دو گورکھا مددگار راکھیوٹ فیس کی جانب سے اسے سر کرنے کی کوشش میں ہلاک ہو گئے۔ یہ پہاڑ سردیوں میں پہلی بار 2016ء میں سر ہوا۔
میں تین سال قبل بچوں کے ہمراہ استور سے تریشنگ پہنچا تو وہاں موجود ہوٹل میں ایک یورپی کوہ پیما کی تصویر لگی ہوئی تھی‘ یہ نوجوان کوہ پیما اس طرف سے نانگا پرست کو سر کرنے کی غرض سے اکیلا ہی چل پڑا اور پھر اس کا کوئی پتا نہ چلا۔ اس نوجوان کی تصویر دیکھ کر دل بڑا دکھی ہوا۔ اسی طرح 2017ء میں پولینڈ اور فرانس کے دو کوہ پیما بھی دیامیر کی جانب سے اس کو سر کرنے کی مہم میں شدید زخمی ہوئے۔ ایک اپنی بینائی سے محروم ہو گیا جبکہ دوسرے کا چہرہ‘ ہاتھ اور پاؤں ''فراسٹ بائیٹ‘‘ کا شکار ہو گئے اور کاٹنے پڑے۔ 2018ء میں بھی دو کوہ پیما اس مہم میں جان سے گئے۔ دونوں کی لاشیں مارچ 2019ء میں بمشکل بازیاب کی گئیں۔ اس پہاڑ کی یہی ہلاکت خیزی اور خون آشامی ہے جو دنیا کے کوہ پیماؤں کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ تاہم طالبان والے حملے نے‘ جس میں دس غیر ملکی کوہ پیما ہلاک ہوئے‘ پاکستان میں کوہ پیمائی کا دروازہ تقریباً بند ہی کر دیا‘ جو اَب بمشکل تھوڑا سا کھلا ہے۔ پورے نیپال میں نانگا پربت جیسا ایک بھی پہاڑ نہیں جو اپنی مشکل پسندی کی وجہ سے کوہ پیماؤں کو اس طرح دعوتِ مبارزت دے سکتا ہو۔ کوہ پیما تو کے ٹو کو بھی ماؤنٹ ایورسٹ سے زیادہ مشکل پہاڑ قرار دیتے ہیں۔ 
نیپال میں اس کانفرنس کے دوران سب سے اہم بات یہ رہی کہ بھارت کا وفد ٹیلی فون پر دی جانے والی یقین دہانیوں کے باوجود شریک نہ ہوا۔ ساؤتھ ایشیا کے سب سے بڑے ملک کی اس کانفرنس میں عدم شرکت کا سب نے نوٹس لیا۔ نیپالی منتظمین اور خاص طور پر چانسلر گنگا پرشاد آخری دم تک بھارتی وفد کی آمد کا مژدہ سناتے رہے مگر کانفرنس کے اختتام تک نہ بھارتی وفد آیا اور نہ ہی نیپالی منتظمین نے ان کے نہ آنے کی کوئی وجہ بتائی۔ وجہ انہیں یقینا معلوم تھی اور یہ چانسلر کا رویہ ظاہر کرتا تھا‘ لیکن تین اطراف سے بھارت کے نرغے میں پھنسے ہوئے نیپال کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ یہی وہ بے چارگی ہے جو بھارت کے سب چھوٹے ا ور کمزور ہمسایوں پر طاری ہے۔ بھارت یہی تابعداری اور اپنی چودھراہٹ کی مکمل تائید پاکستان سے بھی چاہتا ہے۔ سارا جھگڑا مکمل سپردگی اور مزاحمت کا ہے جو بھارت چاہتا ہے اور پاکستان جواباً دے رہا ہے۔سنا ہے بھوٹان کا حال اس سے بھی برا ہے۔ نیپال اور بھوٹان کے درمیان ایک چھوٹی سی آزاد ریاست ''سکم‘‘ بھی ہوا کرتی تھی۔ جو اب بھارت اور تاریخ کا حصہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں