"KMK" (space) message & send to 7575

ویل ڈن طاہر احد!

عمران خان کا لاک ڈائون اور دیہاڑی داروں کی متوقع مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے گومگو کی کیفیت اور شش و پنج میں رہنا ایک حوالے سے سمجھ تو آتا ہے لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ میرا ذاتی خیال ہے یہ سو جوتے اور سو پیاز کھانے والا معاملہ ہے۔ ہم کو آخر کار لاک ڈائون‘ میرا مطلب ہے مکمل لاک ڈائون کرنا ہی پڑے گا‘ مگر شاید اس وقت کافی دیر ہو چکی ہو گی اور ہم اس کے وہ فوائد بالکل حاصل نہ کر سکیں گے جو بروقت لاک ڈائون سے حاصل ہو سکتے ہیں۔
جمیکا سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ ریحانہ نے کورونا متاثرین کے لیے پچاس لاکھ امریکی ڈالر یعنی تقریباً پچاسی کروڑ روپے کا عطیہ دیا ہے۔ دور نہ جائیں ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے مکیش امبانی‘ رتن ٹاٹا ‘ آنند مہندرا اور کئی دیگر صنعتکاروں نے فی کس ایک ارب روپے (بھارتی) سے زائد رقم عطیہ کی ہے۔ اگر اس سوسائٹی کے مراعات یافتہ لوگ اس مرحلے پر اپنی ذمہ داری محسوس کرتے اور باہر نکل آتے تو لاک ڈائون کا مرحلہ بروقت بھی لاگو ہو سکتا تھا اور اس ملک کے پسے ہوئے دیہاڑی دار طبقے کی مشکلات کسی حد تک کم بھی ہو سکتی تھیں۔ مگر یہ تبھی ممکن تھا اگر اس ملک کی وہ کلاس جو ہمہ وقت کمائی کے چھکے لگا کر ایک ایک شاٹ میں اربوں روپے کا جیک پاٹ لگاتی ہے کم از کم اس موقع پر تو اپنی ایسی ہی اخلاقی ذمہ داری پوری کرتی۔ ہمارے وہ عوامی نمائندے جو الیکشن کے دنوں میں اپنے اشتہاروں اور پینا فلیکسز پر کروڑوں‘ اپنے انتخابی ڈیروں پر لاکھوں اور انتخابی مہم میں استعمال ہونے والی گاڑیوں پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں اگر اس موقع پر اپنے اپنے حلقے کے دیہاڑی داروں کو بھلے انسانیت کے نام پر نہ سہی‘ اپنے ووٹر سمجھ کر ہی ان کی مدد کے لیے باہر نکل آتے تو شاید حکومت کو دیہاڑی داروں کی متوقع مشکل کے پیش نظر لاک ڈائون کے سلسلے میں اتنے کنفیوژن کا شکار نہ ہونا پڑتا‘ لیکن اس سخت فیصلے میں تاخیر ہو رہی ہے اور اس کا جو نقصان ہوگا وہ سب بھگتیں گے۔ جی ہاں! سب۔ دیہاڑی دار مزدور سے لے کر ملک کی نامور اور دولتمند فیشن ڈیزائنر کے شوہر تک۔ اس سے کوئی علیحدہ سے محفوظ نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم برطانیہ کے ولی عہد پرنس چارلس کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو نہ آتا۔
مجھے باقی شہروں کے بارے میں کوئی خاص علم نہیں لیکن‘ ملتان میں جن سے توقع کی جا سکتی تھی وہ ہماری اس توقع پر کسی طور پورے نہیں اترے۔ کوئی عوامی نمائندہ عوام کی آگاہی مہم یا ریلیف سرگرمیوں کے حساب سے کہیں نظر نہیں آ رہا۔ ہاں بیانات کی بات البتہ مختلف ہے۔ ملتان سے ایک عوامی نمائندہ ایسا ہے جو فی الوقت معطل ہے۔ اس نے شاہ محمود قریشی کو صوبائی حلقہ پی پی 217 پر شکست کیا دی اپنے لیے رکاوٹوں کا طومار خرید لیا ہے۔ اس کے خلاف الیکشن پٹیشن سے لے کر کم عمر ہونے تک کے معاملے کو اس حد تک گھسیٹا گیا ہے کہ اس حلقے کے عوام ابھی تک اپنے نمائندے سے محروم ہیں۔ سلمان نعیم قریشی گزشتہ پونے دو سال سے معطل ایم پی اے ہے اور وہ واحد سیاسی شخصیت ہے جو معطل ہونے کے باوجود اپنے حلقے کے عوام کے لیے اس مشکل گھڑی میں اپنی حد تک آسانیوں کی کوششوں میں مصروف ہے اور ماہانہ گھریلو ضروریات پر مشتمل ریلیف پیکیج بنا کر اپنے حلقے کے پسے ہوئے طبقے کو ہزاروں کی تعداد میں گھر پہنچا رہا ہے۔
جماعت اسلامی کو گزشتہ الیکشن میں ملتان میں شاید ہی کسی حلقے میں چار ہزار ووٹ ملے ہوں۔ اس کے ایک قومی سطح کے لیڈر اور پارلیمانی سیاست میں بڑا نام رکھنے والے امیدوار کو قومی اسمبلی کی شہر کی نشست سے اٹھائیس سو ووٹ ملے اور گمان غالب ہے کہ ملتان والے آئندہ الیکشن میں بھی اس جماعت کے مخلص اور نیک نام امیدواروں سے یہی سلوک کریں گے‘ لیکن عالم یہ ہے کہ اس جماعت کے شعبہ خدمتِ خلق پر مامور تنظیم الخدمت فائونڈیشن اپنے کارکنوں کی مدد سے دیہاڑی داروں کو ضروریاتِ زندگی پر مشتمل ریلیف پیکیج کے تیرہ سو سے زیادہ راشن پیک پہنچا چکی ہے۔ ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کو دو سو حفاظتی گائون‘ سینی ٹائزر اور تیس ہزار سے زائد ماسک دینے کے علاوہ ملتان میں قائم قرنطینہ سنٹر میں پانی‘ کراکری اور دیگر ضروریات کی چیزیں پہنچا چکی ہے۔
ملتان میں دو تین غیر سیاسی لوگ ہیں جو اس وقت جزوی لاک ڈائون سے متاثرہ‘ بے روزگار ہو جانے والے طبقے کی مدد کر رہے ہیں۔ ہمارے دوست احسن رشید ہمیشہ کی طرح میدانِ عمل میں ہیں۔ خواجہ جلال الدین رومی راشن کے پیک بنا کر ضرورتمندوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ ملتان شہر میں وہ ان جگہوں پر جا کر ‘جہاں دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور صبح اس آس میں آ کھڑے ہوتے کہ کوئی ان کو اشارہ کر کے ساتھ لے جائے‘ لیکن ہر طرف کام بند ہونے کے باعث یہ مایوس ہو کر گھر لوٹ جاتے ہیں۔ ایسی جگہوں پر خواجہ جلال الدین رومی کام کے منتظر دیہاڑی داروں کو مزدوری نہیں‘ مہینے بھر کا راشن اور ضروریاتِ زندگی پر مشتمل پیک فراہم کر رہا ہے۔ ملتان کے سارے اشتہاری لیڈر اس موقع پر دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے سال 1979ء اور 1985ء کے درمیان ایم بی اے کرنے والے دوستوں نے ''ایم بی اے ایلومینائی‘‘ کے نام سے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا ہوا ہے۔ طاہر احد‘ طارق محمود‘ حیدر بخاری‘ ارسلان‘ ڈاکٹر سہیل ظفر‘ خالد لطیف‘ راشد سہیل اور کوثر اللہ اس کے نسبتاً زیادہ سرگرم Participants ہیں۔ میں اس گروپ کے شاید چند سب سے کم سرگرم ارکان میں سے ایک ہوں۔ طاہر احد نے اس گروپ پر ایک بہت اچھا آغاز کرتے ہوئے یہ تجویز دی کہ گروپ کے سب ارکان اپنے قریب موجود دیہاڑی داروں کو اس مشکل مرحلے پر اپنی حد تک مدد فراہم کریں۔ اس کے لیے اس نے خود یہ کیا کہ اپنے گھر کام کرنے والے ملازموں کے توسط سے ایسے لوگ تلاش کیے اور ان کے لیے کراچی کے ایک بڑے نامور سپر سٹور سے ضروریات زندگی کی ایک طے شدہ مقدار اور اشیا کی فراہمی کا اہتمام کیا ہے اور اس موقع پر اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔ اس کے اس عمل سے تحریک لے کر گروپ کے دیگر ارکان بھی اپنے اپنے طریقے سے یہی کام کرنے میں مصروف ہیں۔ اس نیک کام کے آغاز کا سہرا بہر حال طاہر احد کو جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اس موقع پر جب ملتان میں پاکستان کا سب سے بڑا قرنطینہ سنٹر مصروف ِعمل ہے‘ ملتان کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو خراجِ تحسین پیش نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی۔ انتہائی کم وسائل اور انتہائی مختصر وقت میں کمشنر شان الحق اور ڈپٹی کمشنر عامر خٹک نے بھاگ دوڑ کر کے سرکاری وسائل اور ذاتی حوالوں سے مخیر حضرات کی مدد حاصل کر کے اس بے سرو سامانی کے عالم میں اس قرنطینہ سنٹر کو فعال بھی کیا اور شروع شروع کی مشکلات کے باوجود آہستہ آہستہ اسے بہت بہتر کر لیا ہے‘ تاہم اس قرنطینہ سنٹر کے حوالے سے میرا اصولی مؤقف اب بھی وہی ہے جو پہلے دن تھا۔ یعنی اسے شہر کے وسط میں واقع انڈسٹریل اسٹیٹ میں نہیں ہونا چاہیے تھا اور یہی حال ایک اور مجوزہ قرنطینہ سنٹر کا ہے‘ جو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے طلبہ کے خالی ہوسٹلوں میں قائم ہونے جارہا ہے۔ ان ہاسٹلز کے عین پیچھے ٹیچرز اور سٹاف کالونی ہے جہاں ہمہ وقت بچوں اور بزرگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور یہ دونوں گروپ اس وائرس کے کیریئر اور متاثرہ ہونے کے حوالے سے بہت زیادہ شرح فیصد کے حامل ہیں۔ 
یاد آیا۔ طاہر احد میرا یونیورسٹی میں پہلے جونیئر تھا پھر سینئر ہو گیا۔ یہ کیسے ہوا؟ یہ ایک علیحدہ قصہ ہے ‘لیکن فی الوقت تو یہ بتانا مقصود ہے کہ جھنگ سے تعلق رکھنے والا طاہر احد تعلیم مکمل کر کے امریکہ چلا گیا۔ وہ وہاں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں Educational consultancy سے وابستہ ہو گیا۔ میں نے اسے وہاں قریب تیس سال بعد کسی طرح ڈھونڈ لیا۔ پھر ہمارا ایک دوسرے سے فون پر رابطہ مستقل صورت اختیار کر گیا۔ گزشہ ایک سال سے وہ پاکستان میں ہے اور حکومت کے ساتھ کسی پراجیکٹ پر کام کر رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میری اس سے گزشتہ چھتیس سالوں سے بالمشافہ ملاقات ہی نہیں ہو پائی۔ لیکن اس گروپ کے طفیل لگتا ہے کہ ہم روزانہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔صدقہ اور خیرات کی تشہیر بارے لوگوں کے مختلف خیالات ہیں ‘لیکن خود مالکِ کائنات ظاہر اور پوشیدہ دونوں صورتوں میں اس کی اجازت فرماتا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت 271 اور 274 اسی سلسلے میں ہے۔ جب میرے آقاﷺنے اعلان کیا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ اپنے اپنے گھر کا پورا اور آدھا سامان اٹھا کر صحابہ کے درمیان لے آئے۔ یہ دوسروں کو تحریک دینے کا باعث ہے۔ صدقے اور خیرات کی نیکی میں مصروف اہلِ خیر کا ذکر بھی خیر ہے۔ اس فارغ وقت میں واٹس ایپ پر فضول اور بے فائدہ پوسٹیں دھڑا دھڑ آگے بھیجنے کی بجائے کوئی مثبت کام کریں اور اپنے اپنے گروپ کو ایسے کام پر مائل کریں ‘جیسا طاہر احد نے کیا ہے۔ گروپ کو نیا آئیڈیا دینے پر تعریف و توصیف تو بنتی ہی ہے۔ ویل ڈن طاہر احد!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں