"KMK" (space) message & send to 7575

حکومتی چیک، پیف کے اساتذہ اور ریاست مدینہ

لاک ڈائون کھلے چھ دن ہو چکے ہیں اور ان چھ دنوں میں حیرانی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ سمجھ نہیں آرہا کہ قوم کر کیا رہی ہے؟ احساس ذمہ داری نامی شے ویسے تو ہمارے ہاں عرصے سے دیکھنے میں نہیں آرہی تاہم ایک خوش گمانی تھی کہ شاید اس مہلک وبا کے طفیل ہی قوم تھوڑی سی ذمہ داری محسوس کرلے مگر یہ خوش گمانی بھی ان چھ دنوں میں رخصت ہو گئی ہے۔ کسی کو رتی برابر فکر نہیں کہ حالات بگڑ کر کہاں تک جا سکتے ہیں۔ ملتان شہر کی کوئی سڑک نہیں جہاں ٹریفک جام نہ ہو۔ کوئی دکان نہیں جہاں ایس او پیز کی پابندی کی جارہی ہو۔ کوئی دکاندار نہیں جس نے فیس ماسک پہنا ہو۔ کوئی گلی محلہ، دکان، مارکیٹ یا ریڑھی چھابڑی نہیں جہاں سماجی فاصلے کی پابندی کی جارہی ہو۔ ڈیڑھ پونے دوماہ کے لنگڑے لولے لاک ڈائون کے جو بھی تھوڑے بہت مثبت اثرات تھے وہ ان چھ دنوں میں مکمل طور پر ملیامیٹ ہوچکے ہیں۔ دکانیں اور کاروبار کھلوانے کے درپے وہ ساری تاجر تنظیمیں اور رہنما جو ایس او پیز پر عمل کرنے اور کرانے کے ضامن اور دعویدار تھے اب دور دور تک کہیں نظر نہیں آرہے۔ سب کچھ اللہ توکل چل رہا ہے اور حکومت تک ہرچیز سے لاتعلق اور بری الذمہ دکھائی دے رہی ہے۔
کل اور پرسوں یعنی جمعہ اور ہفتہ کے روز ملتان شہر کی ایک چوتھائی دکانیں کھلی ہوئی تھیں ۔ اگر حکومت نے طے شدہ قواعد پر عمل درآمد ہی نہیں کروانا تو اعلان کیوں کرتی ہے؟ پتا نہیں حکمرانوں کو یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ''حکومت کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے‘‘۔ لوگ اس طرح گھروں سے نکلے ہیں جیسے کوئی عمرقید بھگتنے والا قیدی جیل سے باہر آکر دنیا کو حیرانی اور حسرت سے دیکھتا اور چودہ سال سے دل میں دبے ہوئے ارمان پورے کرتا ہے۔ میں نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک کالم میں تائیوان کی مثال دی تھی کہ اس ملک لوگ صرف اور صرف سماجی فاصلے کی پابندی، فیس ماسک کااستعمال اور ہاتھ دھونے کا اہتمام کرکے نہ صرف لاک ڈاؤن سے محفوظ رہے بلکہ بیماروں اور مرنے والوں کی کم ترین تعدادکے ساتھ گزشتہ پچیس چھبیس دن سے کسی ایک بھی کورونا وائرس کے نئے مریض سے بچے ہوئے ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ سوپیاز کھا چکے ہیں اور سو جوتے کھانے والوں کی قطارمیں لگ چکے ہیں۔
لاک ڈائون کے دوران ہم لوگوں نے بدترین معاشی بدحالی کا سامناکیا۔ ایسی معاشی بدحالی جس کے اثرات ملکی معیشت پر اگلے کئی سال تک رہیں گے۔ بے شمار خاندان اس مالی بحران سے اگلے کئی ماہ تک نہیں نکل سکیں گے۔ پرائیویٹ اداروں کے ملازم، پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ، شادی ہالوں کے ملازمین، ہوٹلوں کا چھوٹا عملہ، شاپنگ مالز میں کام کرنے والے سیلزمینوں سے لے کر لفٹ چلانے والے آپریٹر تک اور سائیکل سٹینڈ پر ٹوکن لگانے والے سے لے کر مال میں صفائی کرنے پر مامور سینٹری ورکر تک سب فارغ ہو چکے ہیں اور اب ان میں سے آدھے لوگ بھی سابقہ ملازمتیں جاری نہ رکھ سکیں گے‘ خواہ سارے کاروبار نئے سرے سے ہی شروع کیوں نہ ہوجائیں۔ تاہم بہت سی حیران کن چیزیں بلکہ حماقتیں بھی سامنے آئیں۔ مثلاً یہ کہ تنور کھلنے کے اوقات صبح سے شام تک ہیں۔ رمضان کے مہینے میں تنوروں اور دودھ دہی وغیرہ کی دکانوں کے اوقات کارشام سے لیکر سحری تک ہونے چاہئیں تھے لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ بینکوں نے آدھی برانچیں بندکر رکھی ہیں اور جو کھلی ہوئی ہیں ان کے اوقات بھی صبح دس سے لیکر ڈیڑھ بجے دوپہرتک یعنی کل ساڑھے تین گھنٹے کی ورکنگ پر مشتمل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں بینک اوسطاً پونے دوگھنٹے کام کر رہے ہیں کیونکہ آدھی برانچیں بند ہیں۔ ان آدھی برانچوں پر ساڑھے تین گھنٹے کے اوقات کارمیں جو بوجھ ہے اس کے طفیل بینکوں کے باہر سائلین کا جو رش ہے اور بینک سے باہر جو انتظامات ہیں وہ اتنے ناقص اور غیر معیاری ہیں کہ مخلوق خدا ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔ دو بینکوں کے اکائونٹس ہولڈر کا بوجھ ایک برانچ پر ہے اور اس رش کے طفیل سماجی فاصلے کا سارا تصور برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ بینکوں کی آدھی کے لگ بھگ برانچیں بند کرنے کا کوئی ایک فائدہ بھی نہیں جو حاصل ہوا ہو۔
پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے اور شہر میں رکشے اور چنگ چی چل رہے ہیں۔ کل ایک چنگ چی پر یہ حال دیکھاکہ باقاعدہ گیارہ لوگ اس زمینی خلائی جہاز پر سوار تھے۔ ایک سواری ڈرائیور کے پیچھے اور ایک بچہ آگے ٹینکی پر بیٹھا ہوا تھا۔ پیچھے دونوں سیٹوں پر چارچار لوگ تھے۔ سماجی فاصلے کی ایسی تیسی پھری ہوئی تھی۔ اس سے برا حال کسی بھی بس یا ویگن پر کسی طور ممکن ہی نہیں۔ رکشوں میں چار پانچ لوگ ٹھس ٹھسا کر بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ بھلا اس قسم کی ٹرانسپورٹ کے بعد بسوں اور ویگنوں کی بندش کاکوئی جواز سمجھ میں آتا ہے؟ کم از کم میری سمجھ میں تو نہیں آیا۔ اگر کسی اور کی سمجھ میں آگیا ہو تو اس عاجز کو بھی اپنی معلومات سے بہرہ مند فرما دے۔ فدوی اس کا تادیر شکرگزار رہے گا۔ 
ان حالات میں جب بندہ خدا کے خوف سے تمام تر دنیاداریوں سے تائب ہوجاتا ہے‘ ہماری دکانداریاں جاری ہیں۔ ایک رمضان اوپر سے لاک ڈائون یعنی سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔ ہر شے کے نرخ آسمان پر ہیں۔ مٹن تو ایک عرصے سے مخلوق خدا کی پہنچ سے دور ہو چکا تھا‘ اب یہی حال بڑے گوشت کا ہے۔ لے دے کے ایک چکن عام آدمی کی پہنچ میں تھا‘ اب وہ بھی اس صورتحال میں متوسط طبقے کی دسترس سے باہر ہو گیا ہے۔ اوپر سے حکومت کی دکانداریاں بھی عروج پر ہیں۔ کوٹ ادو میں ایک بیروزگار محنت کش نذیر حسین چانڈیہ نے غربت اور بھوک سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار تک اس سانحے کی خبر پہنچی تو انہوں نے نذیر حسین کی بیوہ کو تین لاکھ روپے کا چیک بھجوایا اور سرکاری نوکری کا وعدہ کیا۔ وفاقی وزیر مملکت برائے ہائوسنگ اینڈ ورکس شبیر علی قریشی نے یہ چیک بیوہ کو دیا۔ گمان ہے اس کا فوٹو سیشن بھی ہوا ہوگا۔ اب وہ بیوہ تین لاکھ روپے کا چیک کیش کرانے کیلئے ماری ماری پھر رہی ہے اور بینکوں میں خوار ہورہی ہے۔ نہ چیک کیش ہورہا ہے اور نہ ہی نوکری کی کوئی خبر ہے۔ میں نے یہ بات شاہ جی کو بتائی تو کہنے لگے:آپ بھی بڑے بھولے ہیں۔ میں نے پوچھا: وہ کیسے؟ شاہ جی کہنے لگے: یہ چیک تو ایک لاوارث، بے آسرا اور بے نام سی بیوہ کو دیا گیا۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ وزیراعلیٰ نے وکلا جیسے تگڑے لوگوں کو ان کی بار کے ذریعے جو دس کروڑ روپے کا امدادی چیک دیا تھا وہ بینک سے کیش نہیں ہو رہا‘ آپ نذیر حسین کی بیوہ کی سٹوری لیکر بیٹھ گئے ہیں۔ شاہ جی کہنے لگے: یہ وکلا والا چیک تو عدالت کے حکم سے پہلے ہی کیش ہو جائے گا‘ اللہ جانے نذیر حسین کی بیوہ کو ملنے والے چیک کا کیا بنتا ہے۔ شاہ جی کی بات سن کر میں نے محسوس کیاکہ میں نہ صرف بھولا بلکہ باقاعدہ بے وقوف ہوں جو حکومت کے بارے میں ابھی تک خوش گمانی کا شکار ہوں۔ایک طرف حکومت دیہاڑی داروں کو بارہ ہزار روپے فی کس امدادی رقم دینے کا دعویٰ کر رہی ہے دوسری طرف یہ عالم ہے کہ اپنے زیرانتظام پیف یعنی پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کے تحت چلنے والے سکولوں کے اساتذہ کو گزشتہ تین چار ماہ سے تنخواہ ادا نہیں کر رہی۔ اوپر سے ظلم یہ کہ تنخواہ مانگنے اور احتجاج کرنے والے اساتذہ پر مقدمے بنا رہی ہے۔ پیف کے زیر انتظام سکولوں کے اساتذہ کی تنظیم کے احتجاج کرنے والے عہدیداروں پر وزیراعلیٰ کے گھر کے سامنے ٹھکائی بھی ہوئی اور مقدمے بھی بن گئے ہیں۔ کیا حکومت سے اپنی تنخواہ مانگنا اور تنخواہ نہ ملنے پر بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے اساتذہ کا احتجاج کرنا جرم ہے؟ حکومت بھلے سے ان اساتذہ کو تنخواہیں نہ دے مگر کم از کم ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے سے تو باز آ جائے! فاقوں سے تنگ آنے والے معمارانِ قوم کو ان کی تنخواہیں دینے کے بجائے ڈنڈے مارے جائیں اور مقدمے بنائے جائیں تو ایسی ریاست کو جب ریاست مدینہ کہا جائے تو بھلا عام آدمی کے ذہن میں کس قسم کا تصور ابھرتا ہوگا؟ اس نام سے لوگوں کا مزید جذباتی استحصال نہ کیا جائے تو بڑی مہربانی ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں