"KMK" (space) message & send to 7575

مائنس ون اور شاہ جی کی مخبری

عمران خان کی جانب سے مائنس ون کا بیان کوئی ہوائی شوشہ بہرحال نہیں ہے۔ جو اندر کی گڑبڑ ہے وہ اب کسی حد تک خان صاحب پر عیاں ہونی شروع ہو گئی ہے اور انہیں لانے میں مدد فرمانے والے حلقے بھی اب پریشان ہیں۔ بے شک عزت کے ڈر سے ظاہر نہ بھی کریں مگر صورتحال یہی بتا رہی ہے کہ اس کپتان کے ہوتے ہوئے جہاز کا مزید تیرنا ممکن نہیں۔ خان صاحب کو بنیادی طور پر دومسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ ایک مسئلہ قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ ہے اور دوسرا انسانی خطا سے جڑا ہوا ہے۔ قدرت کا ودیعت کردہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی سیانے کی بات اول تو سنتے نہیں اگر سن لیں تو سمجھتے نہیں۔ طبیعت میں تلون اس قدر ہے کہ جو بات آج کہتے ہیں کل اس سے ایک سے ایک سو اسی ڈگری کا ٹرن لے لیتے ہیں اور اسے خامی کے بجائے خوبی سمجھتے ہیں۔ انسانی خطا کے بارے تفصیل کیا لکھیں۔ ان کے مشیروں کا انتخاب دیکھ لیں آپ پر انسانی غلطی کا پورا دفتر کھل جائے گا۔ آج مائنس ون کا جو غلغلہ سننے میں آ رہا ہے اس کی وجہ خان صاحب کا خود کو عقلِ کل سمجھنا اور اسی زعم میں ایسے ارب پتی مشیروں کا تقرر ہے جو اپنی ذات کے علاوہ اور کسی کے فائدے کا سوچنے کو گناہ عظیم سمجھتے ہیں‘ رہی سہی کسر دیگر ہٹ دھرمی سے بھرپور ایسی تقرریاں ہیں جن پر کوئی عام فہم والا شخص بھی اپنی غلطی پر رجوع کر لیتا مگر خان صاحب اس پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنے اس عمل سے دنیا بھر کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے کہ انہوں نے آخر ایسا کیوں کیا؟ مثلاً عثمان بزدار کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب تقرری اور پھر اس پر ایسی ہٹ دھرمی کہ خدا کی پناہ! 
ان دو غلطیوں نے ملکی معیشت‘ سیاست‘ انتظامی معاملات اور اداروں کے ساتھ ساتھ عمومی زندگی تک کا سارا ڈھانچہ برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ سارا میڈیا چیخ رہا ہے کہ کروڑ پتی مشیر اور خصوصی معاونین ہر چھکے پر کروڑ پتی سے ارب پتی ہو رہے اور ارب پتی سے کھرب پتی بننے کی طرف گامزن ہیں لیکن خان صاحب کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ آدھے معاونین کا معاملات سے Conflict of interest چل رہا ہے۔ پٹرولیم والے معاون خصوصی کا تعلق ایک پرائیویٹ پٹرولیم مارکیٹنگ کمپنی سے ہے؛ تاہم قانونی مشکلات سے نمٹنے کا بھائی لوگوں نے ایک آسان سا حل نکال لیا ہے اور اس سلسلے میں اب ایک نیا دستور چل نکلا ہے کہ جو بندہ سرکاری عہدہ سنبھالتا ہے وہ اپنی ذاتی کمپنی یا حصہ داری والی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے استعفیٰ دے دیتا ہے اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اب اس کا سرکاری عہدے پر تقرر درست ہو گیا ہے اور اس نام نہاد اور وقتی استعفے سے اس کا ان معاملات میں Conflict of interest ختم ہو گیا ہے۔ اب‘ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اس طرح ایک کاغذ پر چند سطریں گھسیٹے اور اپنے روزی رزق کے ذریعے سے مکمل لا تعلق ہو جائے؟ اس کی کمپنی کو اس کے ملازم‘ رشتہ دار اور گھر والے دیکھتے ہیں اور وہ خود ڈائریکٹرشپ سے مستعفی ہو کر بیان دیتا ہے کہ اب اس کا اپنی کمپنی سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ کوئی لینا دینا۔ قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد وہ اپنے استعفے اور اپنے جاری کردہ بیان کی آڑ میں جو چاہے کرتا ہے۔ اپنی کمپنی اور اسی قبیل کے اپنے دوسرے بھائی بندوں کو فائدے پہنچاتا ہے۔ اس چکرم چکری میں عوام اور سرکار کی جیب سے کروڑوں‘ اربوں روپے اس پرائیویٹ سیکٹر کی ایک یا متعدد کمپنیوں کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ پبلک آفس کو استعمال کرکے مال کمانے والوں کا اس ہیرا پھیری میں اپنا گھر بھی بھر جاتا ہے اور ان کا دامن بھی بظاہر صاف رہتا ہے۔
اب قانونی طور پر تو ان مستعفی ڈائریکٹروں پر کوئی ذمہ داری نہیں آتی؛ تاہم یہ وہ حقائق ہیں جنہیں انگریزی میں اوپن سیکرٹ کہتے ہیں لیکن خدا کی شان ہے کہ یہ اوپن سیکرٹ سارے عوام کو معلوم ہیں۔ سارا میڈیا کھل کر با آواز بلند سارے حقائق بتا رہا ہے۔ بچے بچے کو یہ سارا چکر نظر بھی آ رہا ہے اور سمجھ بھی آ رہا ہے۔ اگر کسی کو نظر نہیں آ رہا تو وہ ہمارے عزیز وزیراعظم ہیں جنہیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے تو ہر طرف ہونے والی کرپشن کے خواب رات کے علاوہ دن کو بھی آیا کرتے تھے لیکن اب یہ عالم ہے کہ انہیں عوام کی کسمپرسی‘ مہنگائی اور اپنے زیر سایہ لگنے والے ''مال کماؤ چھکے‘‘ نہ صرف یہ کہ خود نظر نہیں آرہے بلکہ وہ اس طرف سے باقاعدہ اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ رزاق دائود‘ ندیم بابر‘ زلفی بخاری اور ڈاکٹر ظفر مرزا وغیرہ کا موج میلہ لگا ہوا ہے۔ ان کی بدولت روز افزوں غیر مقبولیت کی طرف گامزن عمران خان اگر گھر چلے گئے تو یہ سب لوگ دوبارہ اپنے کاروبار کی طرف چل پڑیں گے اور ان کا بورڈ آف ڈائریکٹر دو منٹ ضائع کیے بغیر ان کو دوبارہ اپنا ڈائریکٹر منتخب کر لے گا‘ دھڑن تختہ صرف عمران خان کا ہوگا۔
بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ بات عمران خان کی طرف سے مائنس ون کے بیان پر شروع ہوئی تھی۔ وہ ایسی پہنچی ہوئی ہستی ہیں کہ ان کی ہر بات ہر حال میں حقیقت بنتی ہے۔ یہ الگ بات کہ قبولیت ان کے کہنے سے بالکل الٹ قبول ہوتی ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا۔ اس سال کے آخر تک ملک میں تقریباً تقریباً ایک کروڑ لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو لیں گے۔ پچاس لاکھ گھروں کا اعلان فرمایا: اللہ نہ کرے‘ لیکن لگتا ہے کہ پچاس لاکھ لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔ ملک میں ٹورازم کو فروغ دینے کا اعلان کیا۔ پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کا بوریا لپیٹا جا رہا ہے اور ملازمین فارغ کیے جا رہے ہیں۔ سٹیل ملز کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا دعویٰ کیا تھا‘ سٹیل ملز کے ملازمین کو مستقل فارغ کرنے کا منصوبہ پایہ تکمیل کی طرف رواں دواں ہے۔ خان صاحب نے پی آئی اے کو دوبارہ دنیا کی بہترین ائیر لائن بنانے کا اعلان کیا تھا اب صورتحال یہ ہے کہ ان کے نابغہ وزیر ہوا بازی کے صرف ایک بیان نے پی آئی اے کا وہ حشر کر دیا ہے جو مشاہداللہ خان ٹائپ کے یونین لیڈرز نے اپنا آدھا خاندان پی آئی اے میں بھرتی کروا کر بھی اس کا عشرعشیر نہیں کیا تھا۔ وزیر موصوف کے اس ایک بیان کا نتیجہ یورپی ممالک میں چھ ماہ کی پروازوں کی بندش کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ابھی مزید پابندیاں راہ میں منتظر کھڑی ہیں۔ ریلوے کا بیڑہ غرق ہو چکا ۔ پاور سیکٹر میں سرکلر ڈ یبٹ اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور محض سود کی مد میں ماہانہ اربوں روپے ڈوب رہے ہیں۔ ادارے بہتری کے بجائے مزید زوال کی طرف رواں ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ کسی کو اس تنزلی اور بربادی کا احساس تک نہیں ہورہا۔ 
اب‘ خان صاحب نے مائنس ون کو خارج از امکان قرار دیا ہے تو دل دھڑک اٹھا ہے کہ خان صاحب کے بیانات کی قبولیت کی شرح سو فیصد ہے یہ الگ بات کہ بیانات اور نتائج ایک دوسرے کے بالکل الٹ نکلتے ہیں۔ ایسی صورت میں جبکہ خان صاحب مائنس ون کے امکانات کو صفر قرار دے رہے ہیں گزشتہ ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے اس بیان کا نتیجہ اخذ کریں تو وہ سو فیصد مائنس ون نکلتا ہے۔ ویسے بھی یہ بات تاریخی طور پر طے شدہ ہے کہ جب حکومت‘ خواہ وہ کسی کی بھی ہو‘ اپنی مضبوطی کے بارے میں بیان جاری کرے تو سمجھ جائیں کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ اب ہوتا کیا ہے؟ یہ تو فی الحال پردہ ٔغائب میں ہے اور اس کے بارے میں فیصلہ کیونکہ غیبی طاقتوں نے کرنا ہے اس لیے یہ عاجز کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ہاں ! شاہ جی نے مخبری کی ہے کہ شاہ محمود قریشی صاحب نے احتیاطاً ایک بار پھر اپنی شیروانی ڈرائی کلین کروا لی ہے اور تین چار مختلف رنگوں کی واسکٹیں بھی سلنے کے لیے دے دی ہیں۔ واللہ اعلم حقیقت کیا ہے تاہم شاہ جی یہ بات بڑے یقین کے ساتھ کر رہے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں