"KMK" (space) message & send to 7575

مسئلہ تعلیم کا نہیں‘ تربیت کا ہے!

حیرت سے میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کریم آباد بیالیس سال پہلے بھی اسی طرح صاف ستھرا اور کوڑا کرکٹ سے پاک تھا۔ لوگ بھی اسی طرح مہمان نواز، خوش اخلاق اور تمیزدار تھے۔ فرق صرف اتنا پڑا تھا کہ کریم آباد بہت بڑا ہو چکا تھا، پھیل چکا تھا اور بہت زیادہ آباد ہو گیا تھا۔ بالتت فورٹ کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہو چکی تھی اور آلتت کی تو صورت ہی تبدیل ہو چکی تھی۔ امن و امان کی بہترین صورتحال کے باعث یہاں درجنوں غیر ملکی سیاحوں پر نظر پڑی۔ یہ ایک اور خوشگوار حیرت کا جھٹکا تھا۔ رات گئے ایک ڈھابہ نما تکہ شاپ پر یاک کے گوشت کے تکے کھانے کے لیے بچوں کے ہمراہ گیا تو اندر دو میزیں ان غیر ملکی سیاحوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ہنزہ میں تعلیم کی شرح بلا شبہ کافی بہتر ہے، لیکن یہ تعلیم سے زیادہ تربیت کا نتیجہ تھا وگرنہ میں نے بہت پڑھے لکھے لوگوں کو راہ چلتے کاغذ، شاپر، چپس کے خالی پیکٹ اور جوس کے ڈبے پھینکتے دیکھا ہے۔ ہنزہ میں کسی گلی میں اور کسی سڑک پر وہ حال نہ دیکھا جس کے ہم پاکستان کے باقی شہروں میں عادی ہیں۔
مجھے ہنزہ گئے قریب بیالیس سال ہو گئے تھے۔ اس دوران ایک دو دفعہ ناران اور سیف الملوک تک تو آنا ہوا لیکن اس سے آگے آنے کا کوئی اتفاق دوبارہ نہ ہوا۔ تب بابو سر ٹاپ والا راستہ ناممکنات سے تھوڑا کم درجے کا مشکل تھا۔ تب ہم لولو سر سے واپس پلٹ آئے تھے۔ ہنزہ جانے کے لیے شاہراہ ریشم کا انتخاب ہی واحد آسان (نسبتاً) آپشن تھی۔ تب اس شاہراہ کو قراقرم ہائی وے نہیں، شاہراہ ریشم کہا جاتا تھا۔ بیالیس سال بعد بھی چلاس سے رائیکوٹ تک سڑک کی حالت تقریباً ویسی ہی تھی؛ البتہ رائیکوٹ سے گلگت تک سڑک کی حالت بہت اچھی تھی۔ قراقرم ہائی وے‘ جو پاکستان کو چین کے زمینی راستے سے ملانے والی واحد سڑک ہے‘ کئی جگہ سے تو باقاعدہ غائب تھی اور کئی جگہوں پر یہ عالم تھا کہ دو گاڑیاں بیک وقت ایک دوسرے کو کراس ہی نہیں کر سکتی تھیں۔ بجری، پتھر اور موٹی ریٹ نما برادہ۔ ایک بہت بڑی آسانی یہ ہوئی کہ موٹروے مانسہرہ تک پہنچ چکی ہے۔
ملتان سے صبح آٹھ بجے سفر شروع کیا اور رات کا کھانا ناران میں کھایا۔ موٹروے کی تعمیر سے قبل ایک دن میں اتنا سفر کر لینا ممکن نہ تھا؛ تاہم اگر ہزارہ موٹروے چالو نہ ہوئی ہوتی تو بھی رات کا کھانا ناران میں کھانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔
پاکستان میں دوران سفر سب سے زیادہ تکلیف دہ شے راستے میں کسی اچھے واش روم کا نہ ہونا ہے۔ اچھے سے اچھے پٹرول پمپ پر رک جائیں، واش روم کی صورتحال دیکھیں تو لگتا ہے یہ پٹرول پمپ والوں کی نہیں غالباً کسی اور کی ملکیت ہے۔ لاہور، اسلام آباد موٹروے پر صورتحال قابل قبول تو ہے؛ تاہم آئیڈیل اسے بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اب درمیان میں ادائیگی والے واش رومز نے صفائی کا مسئلہ حل کیا ہے لیکن ملتان تا لاہور موٹروے پر فی الحال صرف ایک سروس ایریا چل رہا ہے اور وہاں کی صورتحال خاصی ناگفتہ بہ ہے۔ اگر مراد سعید ادھر اُدھر کی گفتگو کرنے اور صرف بیانات کی حد تک نمبر بنانے کے علاوہ عملی طور پر بھی کچھ کر لیتے تو بہت اچھا ہوتا، لیکن مراد سعید اکیلا کیا کرے؟ ساری کی ساری کابینہ کو سوائے مخالفین کے لتے لینے کے اور زبانی کلامی میدان مارنے کے کوئی کام نہیں۔
میں یورپ سے نہ تو متاثر ہوں اور نہ ہی ذہنی طور پر کسی احساس کمتری کا شکار ہوں، لیکن مجھے یہ ملال ضرور ہوتا ہے کہ جس دین کے پیروکاروں کو یہ بتایا گیا تھا کہ صفائی نصف ایمان ہے وہ صفائی کے معاملے میں اتنے لاپروا اور بے فکر ہیں کہ لگتا ہے یہ ہدایت ان کیلئے تھی ہی نہیں۔ برطانیہ میں سینکڑوں بار موٹروے پر سفر کے دوران سروس ایریا پارک پر واش رومز استعمال کرتے ہوئے صرف پانی کی بوتل رکھنے کا تردد کرنے کے علاوہ کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ واش رومز ایسے صاف شفاف کہ لگتا چند روز قبل ہی ان کا استعمال شروع ہوا ہے۔ لیکن اس میں سب سے زیادہ کردار واش رومز کو استعمال کرنے والوں کا ہے نہ کہ انتظامیہ کا۔ بلاشبہ انتظامیہ کا حصہ بھی کچھ کم نہیں کہ میں نے شاید ہی کسی واش روم میں ٹشو رولز یا ہاتھ دھونے کا صابن کبھی ختم دیکھا ہو اور ہاتھ صاف کرنے والے ٹشو ٹاولز کا خانہ خالی دیکھا ہو؛ تاہم یہ بھی کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی واش روم استعمال کرنے والا اسے گندہ چھوڑ کر گیا ہو یا فرش گیلا کر کے گیا ہو۔ 
''اپنے کیے پر پانی پھیرنا‘‘ اردو محاورے کے طور پر استعمال ہو تو یہ کچھ اچھی بات نہیں سمجھی جاتی؛ تاہم واش روم کی صفائی کو مدنظر رکھا جائے تو اپنے کیے پر پانی پھیرنا ازحد ضروری اور نصف ایمان کی تازگی کا سبب ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ بس اڈوں، ویگن سٹینڈوں اور راستے میں سروس ایریاز کے بارے میں تو کیا کہنا ہمارے ہاں تو ایئرپورٹ پر صاف واش روم ملنا بھی غنیمت ہوتا ہے۔ صفائی کا عملہ ٹشو رولز کو واش روم کے اندر اس کے ہولڈر میں لگانے کے بجائے واش روم کے باہر ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا ہو گا تاکہ استعمال کرنے والا اسے اس کی اس ڈیوٹی کی ادائیگی کے عوض ٹپ دے کر جائے۔
ملتان سے لاہور موٹروے کو چالو ہوئے اب ڈیڑھ سال کا عرصہ ہونے والا ہے لیکن ایک کے سوا سروس ایریا ابھی تک چالو نہیں ہوا؛ البتہ ایک دو جگہوں پر چھوٹے ریسٹ ایریا چالو کر دیئے گئے ہیں۔ ایک ریسٹ ایریا میں وضو کیلئے جانے کا اتفاق ہوا تو واپس پلٹ آیا کہ یہ نہ ہو وضو کرنے کے بجائے الٹا کپڑے ناپاک کروا کر واپس آنا پڑے۔
قارئین! معذرت خواہ ہوں کہ کدھر سے کدھر چلا گیا لیکن کیا کریں‘ یہ وہ سماجی مسائل ہیں جو ہم سب کے ہیں اور ہم سب ان سے گزر رہے ہیں۔ اب ہروقت سیاست پر کیا قلم گھسیٹنا؟ جی ٹی روڈ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ہی حال ہے۔ کبھی مکمل ہوئی نظر نہیں آئیں۔ بیس سال پہلے سکردو گیا تو جگلوٹ تک سڑک کا برا حال تھا۔ پانچ سال پہلے تھاکوٹ تک سفر کیا تو سڑک کا وہی حال تھا؛ البتہ ناران سے چلاس تک سڑک کافی اچھی تھی۔ چلاس آکر دوبارہ شاہراہ قراقرم پر چڑھے تو سڑک کا وہی حال تھا۔
آغا خان فائونڈیشن نے ہنزہ میں بہت کام کیا ہے۔ تباہ حال قلعہ آلتت 2006 سے لے کر 2012ء تک تزئین و مرمت کے بعد اب ایسی شاندار شکل میں ہے کہ لگتا ہی نہیں‘ یہ ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے، یہی حال بالتت قلعہ کا ہے۔ کریم آباد کے مرکزی بازار سے ایک بلدار سڑک اس قلعہ تک جاتی ہے۔ ہر دس منٹ بعد ایک گروپ ایک گائیڈ کی نگرانی میں اندر جاتا ہے اور وہ گائیڈ اس گروپ کو قلعے کے بارے میں مکمل جانکاری دیتا ہے۔ اخلاق اور مروت کا یہ عالم ہے کہ بعد میں گائیڈ بخشش کی توقع پر آپ کا منہ دیکھنے کے بجائے آپ کو خود چائے کی دعوت دیتا ہے اور اس پر اصرار بھی کرتا ہے۔ دو دن میں بارہا اس بازار کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کیا لیکن مجال ہے کہیں پر کوڑا کرکٹ نظر آیا ہو۔ یہ سرکار سے زیادہ کمیونٹی کا کارنامہ تھا۔ ضلع ہنزہ بھی گلگت بلتستان کا حصہ ہے اور وہاں بھی وہی حکومت ہے جو پورے علاقے میں ہے، لیکن وہاں سول سوسائٹی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو ہنزہ اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ایک واضح فرق کے طور پر نظر آتا ہے۔ سیف الملوک جھیل میں تیرتا ہوا کوڑا کرکٹ دیکھ کر میں عطا آباد کی جھیل کی نیلی سطح کو کسی قسم کی آلودگی سے پاک دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اہل ہنزہ نے سب کچھ سرکار پر چھوڑنے کے بجائے اپنی شہری ذمہ داری پوری کی ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ وہ خود اٹھا رہے ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ اپنی ذمہ داری پوری کیے بغیر ہمہ وقت حکومت سے شکوے میں لگے رہتے ہیں۔ مسئلہ تعلیم کا نہیں، تربیت کا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں