"KMK" (space) message & send to 7575

فرض کرنے میں کیا حرج ہے؟

تیسری دنیا میں حکومتیں انیس بیس کے فرق سے تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں۔ مطلق العنان، من مرضی کی مالک، کسی کو جوابدہی سے بالاتر، قواعدوضوابط سے آزاد اور ہر قسم کی تنقید سے بے پروا۔ ہمارے ہاں بھی یہی کچھ چل رہا ہے۔ اب سے نہیں، ایک عرصے سے۔ کیا آمروں کا دور اور کیا جمہوری دور، کسی کو بھی اس سے استثنا نہیں ہے۔ میاں صاحبان کی تو بات ہی اور تھی۔ مغلیہ بادشاہت سے حد درجہ مرعوب بڑے میاں صاحب اکبر اعظم کی طرح پاکستان پر شاہانہ انداز میں حکومت کرنے کے شوقین تھے۔ ناشتہ ہیلی کاپٹر پر منگوا لیتے تھے۔ بیکری کا سامان جہاز کے ذریعے منگوا لیتے تھے کہ کہیں مال باسی نہ ہو جائے۔ بلٹ پروف گاڑیاں بچوں میں بانٹ دیتے تھے کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ چھوٹے میاں صاحب کو جونیئر افسر پسند آ جاتا تو اٹھارہ گریڈ کے افسر کو بیس کی پوسٹ پر تعینات کر دیتے تھے۔ ایل ڈی اے کا چارج اپنے من پسند افسر کو دیا تو اس کی سلطنت کو وسعت دینے کی خاطر ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ایل ڈی اے یعنی لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی حدود لاہور سے بڑھا کر اس میں قصور اور شیخوپورہ کے اضلاع بھی شامل کر دیئے۔ اس قسم کے شاہانہ احکامات کی ایک طویل فہرست ہے جو میاں صاحبان کے دور اقتدارسے جڑی ہوئی ہے۔
عمران خان صاحب ان سب باتوں کے ناقد تھے اور کرپشن کے ساتھ ساتھ ملک میں اداروں کی بربادی پرنہ صرف انہوں نے آواز اٹھائی بلکہ دعویٰ کرتے تھے کہ اگر برسراقتدار آگئے تو وہ ملک میں اداروں کی ساکھ بحال کریں گے۔ درست جگہ پر درست آدمی کا انتخاب ہوگا۔ کوئی کام میرٹ سے ہٹ کر نہیں ہوگا۔ اقربا پروری کا خاتمہ ہوگا۔ ادارے آزاد ہوں گے۔ اس کیلئے وہ مغرب کی مثالیں دے دے کر بے حال ہوا کرتے تھے۔ جب مغرب کی مثالوں سے جی نہ بھرا تو انہوں نے اپنی آئندہ حکومت کیلئے ریاستِ مدینہ کا استعارہ استعمال کرنا شروع کردیا۔ بھلا ریاست مدینہ کیسی تھی؟ میرے آقاﷺ کے دور کی تو کیا ہی بات تھی! اس کا تو کسی سے موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں ریاست مدینہ کیسی تھی؟
حضرت عمر فاروقؓ مدینہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک فقیر پر پڑی جو خیرات مانگ رہا تھا۔ فقیر ضعیف العمر تھا اور نابینا بھی۔ جناب عمرؓ نے پوچھا: یہ شخص خیرات کیوں مانگ رہا ہے؟ اسے بیت المال سے وظیفہ کیوں نہیں مل رہا؟ ساتھی نے عرض کیا: خلیفۃ المسلمین! یہ شخص مدینہ کا نہیں بلکہ نواحی بستی کا رہائشی ہے۔ فرمایا: پھر کیا ہوا؟ ہے تو اسلامی ریاست کا شہری‘ خیرات مانگے تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ ساتھی نے کہا: جناب یہ یہودی ہے۔ آپؓ کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ فرمایا: اسلامی ریاست ہو، جوانی میں اس نے ہمیں جزیہ دیا ہو اور بڑھاپے میں خیرات مانگے‘ عمر اس کا جواب کیسے دے گا؟ اس بوڑھے یہودی کا بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جائے۔
بات کہیں اور چلی گئی بلکہ کہاں سے کہاں چلی گئی؟ چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ اس نئے پاکستان میں گمان تھاکہ اور کچھ ہو یا نہ ہو کم ازکم ادارے ٹھیک ہو جائیں گے۔ تقرریاں میرٹ پر ہوں گی۔ درست جگہ پر درست شخص کا انتخاب ہوگا۔ اقربا پروری کا قلع قمع ہوگا‘ لیکن ہوکیا رہا ہے؟ ملتان میں پانچ کا ٹولہ اپنے عزیزواقارب کو مختلف چکنی چکنی سیٹوں پرفٹ کروانے میں مصروف عمل ہے۔ ہمارے دوست ایم پی اے نے اپنے ڈاکٹر بھائی کو کئی درجے جونیئر ہونے کے باوجود کافی عرصہ تک دھکے سے کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ لگوائے رکھا۔ بمشکل اس کی جگہ پر ایک سینئر ڈاکٹر تعینات ہوا تو ایک صوبائی کی سربراہی میں قائم پانچ ایم پی ایز کے ٹولے نے لاہور پر اسی طرح بار بار حملے کیے جیسے محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے تھے۔ اب یوں ہوا ہے کہ صوبائی وزیر نے اپنے بڑے بھائی کو محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا کوارڈینیٹر بنوالیا ہے اور حکومت پنجاب سے اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کروالیا ہے۔ میں نے ایک دو سمجھدار دوستوں سے پوچھاکہ اس سے قبل اس سرکاری محکمے میں پرائیویٹ آدمی کے کوارڈینیٹر لگنے کی کوئی مثال موجود ہے؟ انہوں نے انکار میں سر ہلا دیا۔ پھر پوچھاکہ آخر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو اچانک ہی کسی کوارڈینیٹر کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ ان دوستوں نے لاعلمی میں سرہلا دیا۔ پھر میں نے پوچھا‘ آخر یہ کوارڈینیٹر‘ جس کا ان معاملات سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں‘ کرے گا کیا؟ اب ان دوستوں نے انکار میں یا لاعلمی میں سر ہلانے کے بجائے مجھ سے کہا: کیا تم اتنے بھولے اور چُھنے کاکے ہوکہ یہ بھی نہیں پتاکہ یہ کوارڈینیٹر وہاں کیا کرے گا؟ وہاں یہ وہی کچھ کرے گا جو ایم ڈی اے میں بلا استحقاق دفتر میں براجمان خاتون ایم پی اے اور شاہ محمود قریشی کے محسن ٹائپ لوگ کررہے ہیں۔
قارئین! اصل بات دراصل کچھ اورتھی لیکن میں لکھنے کی رو میں ایک صوبائی وزیر کے بھائی کے کوارڈینیٹر لگنے کے باعث بھٹک کر کہیں اورجا نکلا تھا۔ اس کالم کا سبب دراصل ایک ویڈیو کلپ ہے اور ایک اخباری خبر۔ پہلے ویڈیو کلپ کی بات ہوجائے۔ یہ کسی پنجابی سٹیج ڈرامے کا کلپ ہے۔ اس میں ایک تو اپنے پیارے سہیل احمد عزیزی ہیں اور دوسرا فنکار جواد وسیم ہے۔ سہیل احمد جواد وسیم سے پوچھتے ہیں کہ وہ جو تمہارا نابینا بیٹا تھا وہ آج کل کیا کررہا ہے؟ (غفورے انھے دی سنا) وہ چاند دیکھنے والے محکمے میں لگ گیا ہے۔ عزیزی کہتے ہیں کہ وہ تو نابینا ہے، چاند کو ڈانگ مار کر تلاش کرتا ہے؟ جواب ملتا ہے: اللہ دیاں اللہ ای جانے۔ پھر سوال کیا کہ وہ جو تمہارا بیٹا چوریاں کرتا تھا، اس کا کیا کیا ہے؟ جواب ملاکہ اسے خیر سے تھانیدار لگوا دیا ہے۔ پھر پوچھا اور جو چھوٹا پڑھتا نہیں تھا؟ جواب ملا: وہ ہیڈماسٹر لگا ہوا ہے۔ سوال کیا: اور جو منجھلا ایک ٹانگ سے معذور تھا اس کا کیا بنا؟ جواب ملا: وہ ہاکی کھیلتا ہے۔ 'اور وہ سب سے بڑا نامراد جو روزانہ سائیکل سے گر جاتا تھا؟‘ جواب ملا؛ وہ خیر سے نیوخان والوں کی بس چلاتا ہے۔ قارئین آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے آخر یہ ویڈیو کلپ کیوں یاد آیا ہے تواس کی وجہ ایک چھوٹی سی خبرتھی۔ 
مورخہ 24 ستمبر کو جی پی او ساہیوال میں تعینات سینئر پوسٹ ماسٹر خاتون آفیسر صوفیہ قاسم کو دوران ڈیوٹی دفتر سارے سٹاف کے سامنے تھپڑ مارنے والے پی ٹی آئی کے ضلعی عہدیدار نوید اسلم کو حکومت پنجاب نے اس کی اسی والی اعلیٰ کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کا ضلعی کوارڈینیٹر تعینات کر دیا۔ جب اس کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تب موصوف تھانہ غلہ منڈی ساہیوال میں درج اس پرچے میں ضمانت پر تھے‘ یعنی ابھی مقدمہ خارج بھی نہیں ہوا تھا اور خاتون سرکاری افسر کو دوران ڈیوٹی تھپڑ مارنے والے شخص کو خواتین کے تحفظ کیلئے بنائے گئے محکمے کا کوارڈینیٹر مقرر کر دیا گیا۔ بعد ازاں ہمیشہ کی طرح اخبار میں خبر آنے کے بعد اسے فارغ کردیا گیا۔ اس سے ایک بات تو پکی ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے حکمران عموماً اور وزیراعظم خصوصاً اخبار ضرور پڑھتے ہیں اور پھر خبر پڑھ کر اپنے نوٹیفکیشن منسوخ کرتے ہیں۔ میں نے شاہ جی سے پوچھاکہ ہمارے موجودہ حکمران بندہ تعینات کرنے سے پہلے اس کے بارے میں پتاکیوں نہیں کرواتے؟ شاہ جی کہنے لگے: ایک تواس طرح یو ٹرن لینے کا سبب بن جاتا ہے اور دوسرا ایکشن لینے کا موقع مل جاتا ہے۔ میں نے کہا: شاہ جی! سنا ہے وزیراعظم کو ہر بات کا پتا اخبار پڑھ کر چلتا ہے۔ شاہ جی زور سے ہنسے اور کہنے لگے: وزیراعظم کو اخبار پڑھ کر پتا چلنے کی خبر افواہ کے علاوہ اورکچھ نہیں‘ میرا تو خیال ہے کہ وہ اخبار پڑھتے ہی نہیں۔ میں نے کہا: ممکن ہے آپ کی بات ٹھیک ہو‘ لیکن یہ فرض کر لینے میں کیا حرج ہے کہ ہمارے وزیراعظم اخبار پڑھتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں