"KMK" (space) message & send to 7575

ووٹ کی عزت کا معاملہ

چودھری بھکن ایک عرصے سے اپنے چکروں میں ہے اور جب تک وہ اپنے چکروں میں ہو تب تک دوستوں کی خیریت رہتی ہے‘ بصورتِ دیگر وہ سب کو چکروں میں ڈال دیتا ہے۔ عجیب عجیب سوالات کر کے دوسروں کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے اور اوپر سے مصیبت یہ ہے کہ اپنے سوالات کے جوابات بھی اپنی مرضی کے چاہتا ہے۔ جب وہ سوال کرتا ہے تو نوے فیصد امکانات تو یہی ہوتے ہیں کہ وہ دراصل اپنے سوالات کی آڑ میں ہمیں اپنے خیالاتِ عالیہ سے مستفید کرنا چاہتا ہے اور اپنے سوالات کے جوابات کے ذریعے ہمارا دماغ خراب کرنے کے در پے ہے۔ کل اچانک ہی آ گیا اور آتے ہی کہنے لگا کہ میں تمہارے پاس فضول سی کافی پینے نہیں آیا بلکہ چائے پیئوں گا۔ پھر پوچھنے لگا کہ تمہارے پاس لونگ پڑے ہیں؟ میں نے کہا: پڑے ہیں۔ اور دار چینی ؟ میں نے کہا: بہت پڑی ہے۔ چھوٹی الائچی؟ میں نے کہا: وہ بھی ہیں۔ پھر کہنے لگا: اب آخری چیز یہ بتاؤ کہ تمہارے پاس بادیان کے پھول ہیں؟ میں نے کہا :کشمیری چائے کے ساتھ بادیان کے پھول نہ ہوں تو مزہ نہیں آتا اس لیے وہ بھی موجود ہیں۔ یہ سن کر وہ ایک لمحے کیلئے خاموش ہوا ‘پھر کہنے لگا :اگر یہ سب کچھ تمہارے پاس موجود ہے تو تم یہاں بیٹھے گھر میں کیا کر رہے ہو‘ پنساری کی دکان کیوں نہیں کھول لیتے؟ وبا کے دنوں میں بھی اچھی خاصی کمائی کر لو گے۔
میں نے پوچھا: آخر اس ساری تفتیش کی ضرورت کیوں پڑ گئی ہے؟ کہنے لگا: دراصل میں آج کل کورونا کے ڈر سے اپنی قوتِ مدافعت میں اضافے کی غرض سے لونگ‘ دار چینی‘ چھوٹی الائچی اور بادیان کے پھولوں والی چائے پی رہا ہوں۔ مجھے یقین تھا کہ تمہارے پاس یہ چیزیں ہوں گی اس لیے آ گیا ہوں ورنہ اس وبا کے دنوں میں تم جیسے آدمی سے ملنے کا رسک نہیں لیا جا سکتا جو ہمہ وقت اِدھر اُدھر گھوم پھر کر کورونا اکٹھا کرتا پھرے۔ میں نے کہا :میں آج کل بالکل محدود سی نقل و حرکت کر رہا ہوں۔ گھر سے صبح دفتر جاتا ہوں‘ وہاں کالم لکھتا ہوں‘ کتابیں پڑھتا ہوں‘ کافی پیتا ہوں اور گھر آ جاتا ہوں۔ چودھری ہنسا اور کہنے لگا: کورونا سے پہلے وہاں کیا کرتے تھے؟ تب کون سا تیر چلاتے تھے۔ یہی سب کچھ پہلے بھی کرتے تھے اور اب بھی یہی کچھ کرتے ہو۔ فرق کیا آیا ہے؟ میں نے کہا: فرق یہ آیا ہے کہ میں اب دفتر میں دوستوں کا جمگھٹا نہیں لگاتا۔ واپسی پر جم نہیں جاتا اور پھر راستے میں خوامخواہ کسی دوست کے پاس رکتا نہیں ہوں۔ اور وہ جو تم پی ڈی ایم کے جلسے میں چلے گئے تھے‘ وہ؟ میں نے کہا: چودھری! خدا کا خوف کر میں پیچھے والی سڑک سے گیا تھا اور اکیلا واٹر ورکس روڈ سے پیدل چلتا ہوا حاجی کیمپ والی چڑھائی پر لوگوں سے دور بچ بچا کر کھڑا تھا۔ اب اس سے زیادہ احتیاط کیا کرتا؟
چودھری پوچھنے لگا: اچھا یہ بتا اس ملتان والے جلسے میں بلاول بھٹو زرداری کیوں نہیں آئے تھے۔ میں نے کہا: انہیں کورونا تھا اس لیے نہیں آئے۔ چودھری کھچروں والی ہنسی ہنسنے لگ پڑا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا: تم جیسے لوگوں کو ایسی باتیں بتانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں نے کہا: چودھری! اگر تم ہم جیسے لا علم لوگوں کو ایسی باتیں نہیں بتاؤ گے تو ہمارے علم میں اضافہ کیسے ہو گا۔ چودھری نے مجھے دیکھ کر سر ہلایا اور کہنے لگا: تمہیں مکھن لگانا آتا جا رہا ہے۔ پہلے تمہیں یہ عقل نہیں تھی۔ میں نے کہا: چودھری! یہ تمہاری صحبت کا فیضان ہے کہ اب دنیا داری کی سمجھ آتی جا رہی ہے۔ چودھری نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ دراصل پیپلز پارٹی اپنی نئی لانچنگ کو بلا مقابلہ انٹری دینا چاہتی تھی تا کہ سب کی توجہ پیپلز پارٹی کی نئی قیادت کی طرف مبذول رہے اور پہلی عوامی رونمائی زور دار اور دھانسو رہے۔ ایک طرح سے اسے فری ہینڈ دینا مقصود تھا۔ عوام کو عمومی اور پیپلز پارٹی کے جیالوں کو خصوصی طور پر اس نئی قیادت کی طرف متوجہ رکھنا اسی صورت ممکن تھا کہ بلاول زرداری اور آصفہ زرداری کے درمیان رائے عامہ تقسیم ہی نہ ہو۔ چودھری رازدارانہ انداز میں میرے قریب آیا اور کہنے لگا: اپنے بلاول صاحب کو بھی اسی طرح کا کورونا تھا جس طرح جلسے والی رات ملتان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی اکثریت کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ میں نے کہا: چودھری فضول گفتگو نہ کر اور تھوڑا دور ہو کر بیٹھ۔ سماجی فاصلے کا دھیان کر اور ایس او پیز کا خیال رکھ۔
چودھری کھسک کر تھوڑا دور ہوا اور کہنے لگا: اچھا یہ بتا یہ ووٹ کی عزت سے کیا مراد ہے؟ میں نے کہا: چودھری! تو اتنا بھولا نہ بن اور سیدھی طرح جو تیرے دل میں ہے وہ بول دے۔ میری بات تو تم نے ماننی نہیں اور جو تمہارے ذاتی خیالات ہیں وہ تم نے مجھے بہر حال سنانے ہی ہیں تو اس ڈرامے کی کیا ضرورت ہے؟ چودھری رتی برابر بھی شرمندہ نہ ہوا اور کہنے لگا: اچھا چل یہ بتا دے کہ یہ کس والے ووٹ کی عزت کی بات ہوتی ہے؟ حکومتی پارٹی کے ووٹ کی یا اپوزیشن پارٹیوں کے ووٹ کی عزت کی بات ہوتی ہے؟ میں نے کہا: چودھری! ووٹ تو ووٹ ہوتا ہے کیا حکومتی پارٹی کا ووٹ اور کیا اپوزیشن پارٹیوں کو پڑنے والا ووٹ۔ بھلا ووٹ کی بھی کوئی ذات پات ہوتی ہے؟ ہوتی ہے‘ بالکل ہوتی ہے۔ ووٹ کی ذات بھی ہوتی ہے اور نسل بھی۔ چودھری پوپلا سا منہ بنا کر کہنے لگا: ووٹ کی دو ذاتیں ہیں۔ عزت دار ووٹ اور بے عزت ووٹ۔ اعلیٰ نسل والا ووٹ اور گھٹیا نسل والا ووٹ۔ عزت دار ووٹ وہ ہوتا ہے جو ہماری صندوقڑی سے نکلے اور بے عزت‘ بے توقیر‘ گھٹیا اور بے وقعت ووٹ وہ ہوتا ہے جو مخالف کی صندوقڑی سے نکلے۔ سو بے وقعت اور بے توقیر ووٹ کی کیا عزت ہو سکتی ہے؟ عزت تو ہوتی ہے معزز اور اعلیٰ نسل والے ووٹ کی۔ وہی باعزت ووٹ جو ہماری صندوقڑی سے نکلے۔ میں نے کہا: چودھری یہ تو نے کیا صندوقڑی صندوقڑی لگا رکھی ہے۔ سیدھا سیدھا بیلٹ بکس یا ووٹوں والی صندوقچی کہہ۔ چودھری کہنے لگا: جو مزہ صندوقڑی کہنے میں ہے وہ بھلا صندوقچی کہنے میں کہاں ہے؟ لیکن خیر یہ غیر ضروری اور بے کار کی بحث ہے۔ اصل بات ووٹ کی عزت کی ہے۔
اب تم خود دیکھو۔ گلگت بلتستان میں عمران خان کی پارٹی کو زیادہ ووٹ پڑے ہیں لیکن ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے اس والے ووٹ کو عزت دینے کیلئے قطعاً تیار نہیں۔ میں نے کہا: چودھری وہ کہتے ہیں کہ وہاں دھاندلی ہوئی ہے۔ چودھری کہنے لگا: وہ کس طرح؟ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں یہ رواج ہے کہ وہ لوگ اسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جس کی اسلام آباد میں حکومت ہو۔ 2009ء میں اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی گلگت بلتستان کی چوبیس سیٹوں میں سے پیپلز پارٹی کو بیس سیٹیں ملیں اور مسلم لیگ (ن) کو صرف دو سیٹیں ملیں۔ 2015ء میں سارا منظر نامہ بدل گیا۔ اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کو اکیس سیٹیں ملیں اور پیپلز پارٹی‘ جس کو گزشتہ الیکشن میں بیس سیٹیں ملی تھیں‘ کو صرف ایک سیٹ ملی۔ اس بار یعنی 2020ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو اصولاً بیس یا اکیس سیٹیں ملنی چاہئیں تھیں کہ وہاں یہی رواج ہے لیکن اسے محض دس سیٹیں ملیں‘ باقی تو آزاد شامل ہوئے۔ اب وہ لوگ جو گزشتہ الیکشنز میں کبھی بیس اور اکیس نشستیں لیتے تھے اور کبھی ایک اور دو پر آ جاتے تھے دس سیٹوں پر جیتنے والوں کے ووٹ کو عزت نہیں دے رہے۔ تو عزیزم! ہمارے ہاں انصاف وہ ہے جو ہمارے حق میں ہو ورنہ ناانصافی۔ کرپشن وہ جو دوسرا کرے ورنہ انتقامی کارروائی۔ عزت دار ووٹ وہ جو میری صندوقڑی سے نکلے ورنہ دھاندلی۔ یہ کہہ کر چودھری نے لمبا سڑکا مار کر چائے ختم کی اور سلام دعا کے بغیر رخصت ہو گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں