"KMK" (space) message & send to 7575

سینیٹ کا الیکشن اور ترک خاتونِ اول کا ہار

اب تبدیلی سرکار جو چاہے تاویلات پیش کرے لیکن جو بے عزتی اور خواری ہونی تھی وہ ہو گئی ہے۔ ڈینگیں مارنے کا یہ عالم ہے کہ سینیٹ میں اسلام آباد کی جنرل نشست پر شکست کے بعد حکومت کے پاس جو آپشنز تھیں اس میں سب سے کمترین آپشن یعنی اعتماد کا ووٹ لینے کو ایک عظیم الشان کارنامے کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔ اب بھلا اس گئی گزری جمہوریت میں اس سے کمتر اور کیا آپشن تھی؟ خان صاحب کے پاس اسلام آباد کی سینیٹ کی جنرل نشست پر ہار کا مطلب یہ ہے کہ ساری قومی اسمبلی نے سادہ اکثریت کی بنیاد پر حکومتی امیدوار پر عدم اعتماد کا اظہار کرکے دراصل حکومت پر عدم اعتماد کا اشارہ کیا ہے۔ ایسی صورت میں خان صاحب کے سامنے تین راستے تھے۔ پہلا یہ کہ اسمبلی توڑ دیتے اور نئے الیکشن کرواتے۔ دوسرا یہ کہ مستعفی ہو جاتے اور کسی دوسرے کو حکومت بنانے کی دعوت دیتے۔ تیسرا اور آخری یہ کہ موجودہ اسمبلی سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لیتے۔ یہ سب سے آخری اور گیا گزرا طریقہ تھا جو انہوں نے اپنایا؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت یہی عین مناسب جمہوری طریقہ تھا جو انہوں نے اپنایا۔
اپوزیشن تو یہ چاہے گی کہ عمران خان اسمبلی توڑ دیں اور نئے الیکشن کروائیں یا کم از کم خود مستعفی ہو جائیں‘ لیکن یہ ان کی خواہش تو ہو سکتی ہے فی الوقت یہ مناسب حل نہیں کہ جمہوری نظام میں ایسے موقع پر اعتماد کا ووٹ لینا ہی سب سے مناسب قدم تھا۔ گو کہ یہ سب سے نچلے درجے کا طریقہ کار ہے جو اپنایا گیا، لیکن موجودہ صورتحال میں سب سے معقول اور قابل عمل حل یہی تھا۔ قومی اسمبلی کے ارکان نے اس حلقے سے، یعنی اسلام آباد کی سینیٹ کی جنرل نشست سے جہاں پی ٹی آئی کے امیدوار ڈاکٹر حفیظ شیخ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا وہیں اسی حلقے سے خواتین کی مخصوص نشست پر پی ٹی آئی کی خاتون امیدوار کو کامیاب بھی کروایا ہے۔ گویا یہ عدم اعتماد ملا جلا تھا اور اس کی وجوہات بہرحال ایسی نہیں کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی شکست سے یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ اب حکومت کو مرکز میں عددی برتری حاصل نہیں ہے۔ عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ جس چودھویں آئینی ترمیم کے زور پر لیا ہے اس کا تمام تر سہرا نواز شریف کے سر جاتا ہے۔
حفیظ شیخ کی شکست کی ایک سے زائد وجوہات ہیں‘ لیکن وجوہات پر روشنی ڈالنے سے پہلے نتائج پر بات کی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس حکومتی ہزیمت اور شکست نے بہرحال حکومت کو ایک بار تو دفاعی پوزیشن پر دھکیل دیا ہے اور جیساکہ میں نے اپنے مورخہ اٹھارہ فروری والے کالم میں لکھا تھاکہ یوسف رضا گیلانی کو اس الیکشن میں بطور لٹمس پیپر استعمال کیا جا رہا ہے اور آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ن کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے روکنے کیلئے تحریک عدم اعتماد کا جو دانہ ڈالا تھا‘ وہ اپنے اس آئیڈیے کو قابل عمل ثابت کرنے کیلئے یوسف رضا گیلانی کو آگے لا رہے ہیں اور اب انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بھلے وہ شو آف ہینڈ کے ذریعے کوئی اپ سیٹ نہ کر سکیں‘ سیکرٹ بیلٹ میں کر سکتے ہیں۔ اس اپ سیٹ کی بنیادی وجہ تو ظاہر ہے، وہی سینیٹ کے الیکشن سے جڑی ہوئی کروڑوں روپے کی کہانی ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جو عمران خان کیلئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
ایک دوست کا کہنا ہے کہ یہ سارا کھڑاگ بھی انتظام کرنے والوں نے کیا ہے تاکہ عمران خان کو جھٹکا کروایا جا سکے اور انہیں گورننس کے ان مسائل کے حل کی طرف لے جایا جا سکے جن کی وہ بوجوہ درستی نہیں کر رہے اور ضد کی حد تک اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سرفہرست پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو تبدیل نہ کرنا ہے۔ شنید ہے کہ اس کیلئے سارے متبادل سیٹ اپ کا نقشہ تو بنایا جا چکا ہے اور اس میں چودھریوں کی لاٹری نکلنے کا قوی امکان ہے لیکن اس پر خان صاحب قطعاً تیار نہیں کیونکہ ایک بار گیم چودھریوں کے ہاتھ میں آگئی تو پھر سمجھیں پنجاب تو خان صاحب کے ہاتھ سے گیا اور یہ بات خان صاحب کو کسی صورت منظور نہیں کہ انہوں نے محض پنجاب کو ریموٹ کے ذریعے اسلام آباد سے چلانے کی غرض سے ہی عثمان بزدار جیسے ہومیوپیتھک بندے کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا چیف ایگزیکٹو لگایا تھا۔ اگر انہیں پنجاب کی حکومت کو کسی حد تک خودمختار کرنا منظور ہوتا تو وہ بزدار صاحب کی جگہ کسی بہتر اور مناسب شخص کو یہ ذمہ داری سونپتے مگر پنجاب کی طرف سے کسی متبادل لیڈرشپ کو متوقع طور پر ابھرنے سے روکنے کی غرض سے ہی انہوں نے چن کر ایک تھکے ہوئے اور کمزور بندے کو پنجاب کی حکومت کی سربراہی سونپی اور اس کی واحد وجہ عمران خان کا عدم تحفظ کا احساس تھاکہ وہ کسی کو بھی اس حد تک ابھرنے کا موقع دینے پر تیار نہیں تھے کہ کل کلاں وہ کوئی سیاسی چیلنج بن جائے۔ شاہ محمود قریشی کو ملتان شہر سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر اسی لیے بروقت فارغ کروا دیا گیا تھا۔ عمران خان کو پتا تھا کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا شوق شاہ محمود قریشی کے دل میں عرصہ دراز سے انگڑائیاں لے رہا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ اس بار بھی ساری گیم آصف علی زرداری نے کی‘ اور اس کیلئے انہوں نے اپنے پتے اور پیسے ٹھیک طرح سے کھیلے۔ انہوں نے جہاں ایک طرف حکومت کو ہزیمت سے دوچار کیا، وہیں مسلم لیگ ن کو بڑی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے مقتدر حلقوں کے ساتھ اپنی لین دین کی حیثیت کو کسی حد تک مستحکم کیا اور سینیٹ میں اپنی متوقع سیٹوں سے ایک سیٹ بھی زیادہ حاصل کر لی۔ یہ سیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ شوشا بھی چھوڑ دیاکہ یوسف رضا گیلانی ان کے سینیٹ کے چیئرمین کے امیدوار ہیں۔ اب صورت حال بڑی دلچسپ ہو گئی ہے۔ ایک طرف آصف علی زرداری کا امیدوار سید یوسف رضا گیلانی ہو گا اور دوسری طرف والا امیدوار بھی انہی کا سابق امیدوار صادق سنجرانی ہوگا۔ ایک دوست کے بقول پرانی محبت کسی وقت بھی عود سکتی ہے۔
اب دونوں طرف سے شور مچا ہوا ہے اور ہر فریق اخلاقی طور پر دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگا ہے۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کی گئی۔ بات تو ان کی درست ہے لیکن وہ یہ بات کرنے کا اخلاقی جواز نہیں رکھتے کہ ماضی میں جب موجودہ گورنر پنجاب چودھری سرور ان کے سینیٹ کے امیدوار تھے اور انہوں نے پارٹی کے تیس ووٹوں کے علاوہ اوپر سے چودہ ووٹ سمیٹ کر بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی۔ تب تحریک انصاف نے جو بویا تھا اب انہوں نے وہی اسلام آباد میں کاٹا ہے۔
یوسف رضا گیلانی کو حفیظ شیخ پر کئی لحاظ سے برتری حاصل تھی۔ پہلی یہ کہ یوسف رضا گیلانی بہرحال پاکستان کے باقاعدہ سیاسی نظام کا حصہ ہیں، جبکہ حفیظ شیخ ہمیشہ آئی ایم ایف کے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور اسمبلی کے کندھوں سے کود کر وزارتیں اینٹھتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم کسی سے نہیں بگاڑی تھی اور ان کی پشت پر آصف علی زرداری کی ہوشیاری اور مول تول کی صلاحیتیں تھیں۔ رہ گئی بات ترک خاتون اول کے ہار کو غتربود کرنے والی حرکت کی‘ تو ان کو ووٹ دینے والے ارکان اسمبلی ایسی چھوٹی موٹی واردات کو کسی کھاتے میں نہیں لکھتے کہ اس بے ضرر سے ہیرپھیر پر انہیں ووٹ دینے سے انکار کر دیتے۔ ارکان اسمبلی کا اگر ایسی باتوں پر ضمیر جاگنے لگ گیا تو پھر انہوں نے اپنا کاروبار چلا لیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں