"KMK" (space) message & send to 7575

بری خبروں کے درمیان ایک اچھی خبر

شاہ جی نے میرے بارے میں دوستوں یاروں میں یہ افواہ پھیلا رکھی ہے کہ میں کبھی بھی کوئی اچھی خبر نہیں سناتا۔ یہ بات وہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں؛ تاہم گزشتہ دنوں ملتان اور اس کے گرد و نواح میں ہونے والی شدید بارش اور ژالہ باری کے حوالے سے گندم اور آم کی فصل کو پہنچنے والے نا قابلِ تلافی نقصان کے بارے میں میری گفتگو سننے کے بعد شاہ جی نے ایک بار پھر یہ اعلان کیا کہ ''اس شخص کے منہ سے کوئی اچھی بات سنے عرصہ ہو گیا ہے‘‘۔ میں نے شاہ جی سے عرض کی کہ شاہ جی! آپ خود بتائیں‘ اگر جنوبی پنجاب میں کپاس ختم ہو گئی ہے اور میں اس کی نشان دہی کرتا ہوں تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میں صرف اتنا جرم وار ہوں کہ آپ کو حقائق بتاتا ہوں؟ زرعی سائنس دانوں کی نااہلی، نالائقی اور ناکامی کے بارے میں آپ لوگوں کو مطلع کرتا ہوں۔ حکومتی بے حسی اور لا تعلقی کے بارے میں آگاہ کرتا ہوں۔ ملک کو کپاس کی کمی کے باعث آئندہ پیش آنے والے مسائل کے بارے میں خبردار کرتا ہوں اور ملتان شہر کے ارد گرد گزشتہ تین چار برسوں کے دوران تیرہ چودہ ہزار ایکڑ آم کے باغات کٹنے کا انکشاف کرتا ہوں۔ اب اس میں یہ بتائیں کہ میرا کیا قصور ہے؟ کیا میری باتیں غلط ہیں؟ کیا میرا رولا مچانا جرم ہے؟
شاہ جی کہنے لگے: بات تمہاری ٹھیک ہے لیکن کیا یہاں کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا؟ میں نے کہا: شاہ جی چلیں میری چھوڑیں‘ میں تو بقول آپ کے، کوئی اچھی خبر سناتا ہوں اور نہ ہی کوئی اچھی بات کرتا ہوں۔ آپ ماشا اللہ یہیں رہتے ہیں‘ آپ بھی سب کچھ دیکھ رہے ہیں‘ آپ کوئی اچھی خبر سنا دیں‘ کوئی اچھی بات بتا دیں جو وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ کیا ملتان کے ارد گرد تیرہ چودہ ہزار ایکڑ کے لگ بھگ زرعی اراضی مع باغات اینٹ‘ سریے اور سیمنٹ کا جنگل بننے نہیں جا رہی؟ کیا ملتان شہر کے چاروں طرف موجود باغات کے کٹنے سے اس علاقے کا سارا ''ایکو‘‘ سسٹم برباد نہیں ہو جائے گا؟ کیا اس سے ماحولیاتی عدم توازن نہیں بڑھے گا؟ کیا ہر سال ہزاروں کی تعداد میں کٹنے والے یہ درخت فوری طور پر دوبارہ کسی جگہ لگائے جا سکتے ہیں؟ کیا ہمارے ترقیاتی ادارے ''آرچرڈ ایریا‘‘ کو قانون کے مطابق تحفظ دے پائے ہیں؟ آج کل ان باغات کے کٹنے کا سارا ملبہ ایک ادارے پر ڈال کر سوشل میڈیا پر ایک زور دار مہم بھی چلائی جا رہی ہے‘ کیا ان باغات کے کٹنے کا صرف یہی ایک ادارہ ذمہ دار ہے؟ سوشل میڈیا میں موجود بعض بغض و عناد سے بھرا ہوا دل رکھنے والے شہر کے دوسرے کونے میں کٹنے والے آموں کے درختوں کی تصاویر اور وڈیوز لگا کر اپنے دل کی بھڑاس اور عناد نکال رہے ہیں لیکن اسی ایک ادارے پر ملبہ ڈالنے سے قطع نظر، کیا یہ سچ نہیں کہ ملتان شہر کے نواح کا سارا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے اور شہر کے ساتھ ساتھ موجود سرسبز دائرہ گنجا ہو گیا ہے؟
کپاس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ پتا مروڑ وائرس، گلابی سنڈی، سفید مکھی اور اس فصل کے کاشتہ دورانیے میں اضافے نے اس فصل کو کاشتکار کے لئے قطعاً غیر منافع بخش بلکہ زیادہ مناسب لفظوں میں سرا سر گھاٹے کی فصل بنا دیا تھا۔ اسے کون کاشت کرتا؟ اسّی لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے میں کاشت ہونے والی فصل اب جنوبی پنجاب میں آدھی رہ گئی ہے اور اس سال اس سے بھی کم ہو جائے گی۔ اس سال اسّی نوے لاکھ گانٹھیں درآمد ہوئی ہیں‘ اگلے سال یہ تعداد ایک کروڑ گانٹھوں کے لگ بھگ ہو جائے گی۔ شاہ جی! آپ پھر کہیں گے کہ میں بری خبریں سناتا ہوں۔ تو سنیں! اس فصل کی نشاۃ ثانیہ یعنی دوبارہ عروج کا فی الحال کوئی امکان نہیں کہ زرعی مداخل اور پیداواری عوامل کی موجودہ صورت حال میں اس فصل کے نفع آور ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا۔ کاشتہ دورانیہ لمبا ہونے کے باعث پانی کا خرچہ تین گنا، ضرر رسان کیڑوں کے خاتمے کے لئے سپرے کا خرچہ چار گنا، ڈی اے پی کا ریٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے‘ ایک بوری کا ریٹ چھپن سو روپے تک ہے اور اوپر سے ستم یہ ہے مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب بھی نہیں ہے۔ یہی حال یوریا کھاد کا ہے۔ آئندہ فصل کے لئے زیادہ سے زیادہ پچاس پچپن لاکھ ایکڑ رقبہ کپاس کے لئے رہ جائے گا۔ اگر اب بھی توجہ دی جائے تو اس رقبے سے ایک کروڑ گانٹھ کپاس حاصل کرنا کوئی ناممکن الحصول ٹارگٹ نہیں ہے‘ لیکن اس کے لئے حکومتی توجہ اور ترجیحات درکار ہیں‘ جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ عجیب زرعی ملک ہے کپاس درآمد ہو رہی ہے۔ خوردنی تیل تو چھوڑ ہی دیں کہ یہ اب ہمارے درآمدی بل میں شاید دوسرا سب سے بڑا مستقل حصہ دار ہے۔ ہم گندم، چینی، دالیں اور دودھ کی مصنوعات تک دھڑا دھڑ درآمد کر رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ اس زرعی ملک میں مسور سارے کا سارا درآمد ہو رہا ہے۔
ہماری زراعت کہاں کھڑی ہے؟ صرف ایک مثال سے آپ کو سمجھ آجائے گی کہ ہمارے زرعی تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی کیا ہے اور ہم نے ملک میں زرعی ترقی کے لئے کیا کیا ہے؟ کپاس کی دنیا بھر میں فصل کی فی ہیکٹر پیداوار کیا ہے‘ آپ کو علم ہے؟ اس پیداواری تقابل میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری کپاس کی پیداوار کا دیگر ممالک کی پیداوار سے مقابلہ کریں تو شرم سے زمین میں گڑ جانے کو دل کرتا ہے۔ دنیا بھر میں کپاس کی فی ہیکٹر (ایک ہیکٹر اڑھائی ایکڑ کے برابر ہے) پیداوار کے لحاظ سے اسرائیل 1905 کلوگرام کے ساتھ سرفہرست ہے۔ اس کے بعد آسٹریلیا، چین، ترکی اور برازیل ہیں۔ اس تقابل میں ہماری فی ہیکٹر پیداوار 445 کلوگرام ہے اور ہم کپاس کی پیداواری اوسط کے حوالے ان ممالک میں سینتیسویں (37) نمبر پر ہیں۔ اس حساب سے ہماری اوسط فی ہیکٹر پیداوار پہلے نمبر پر آنے والے اسرائیل کی اوسط پیداوار کا محض 23 فیصد ہے۔ یہ ہمارے زرعی سائنسدانوں اور تحقیق کے اداروں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
درج بالا کپاس کا تقابلی جائزہ تو ایک مثال ہے۔ آپ گندم کا تقابلی جائزہ لے لیں، تیلدار اجناس کا موازنہ کرلیں، دالوں کا معاملہ دیکھ لیں، رایا اور توریا کا مقابلہ کر لیں۔ ہر معاملے میں ہماری فی ایکڑ پیداوار دوسرے ممالک کی نسبت کہیں کم ہے۔ صرف اور صرف مکئی کی فصل میں تھوڑی بہتری ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا کاشتکار مکئی کا درآمد شدہ ہائبرڈ بیج استعمال کرتا ہے وگرنہ ادھر بھی برا حال ہوتا۔
شاہ جی کہنے لگے: اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہارے پاس حسب معمول صرف بری خبریں ہیں۔ میں نے کہا: خیر ایسا بھی نہیں۔ میرے پاس بہرحال ایک اچھی خبر بھی ہے وہ یہ کہ میرے گزشتہ سے پیوستہ ایک دو کالموں سے یہ تاثر ابھرا تھا کہ جنوبی پنجاب سب سیکرٹریٹ کے معاملے میں معاملات خرابی کی طرف گامزن ہیں، تو ایک نہایت خوش کن خبر یہ ہے کہ جنوبی پنجاب پولیس کی سپیشل برانچ کے لئے ایک عدد بالکل ''نیا نکور‘‘ عہدہ تخلیق کر کے اس پر حال میں ہی ریٹائر ہونے والے ایک پولیس افسر کو تین سالہ کنٹریکٹ پر تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس سے جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کی تشکیل میں بڑی مدد ملے گی۔ شاہ جی کہنے لگے: یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے کہا: یہ پنجاب کی ایک بہت بڑی شخصیت کے سگے پھوپھا ہیں۔ شاہ جی کہنے لگے: یہ وہی پھوپھا تو نہیں جن کے خلاف پنجاب کی اسی بہت بڑی شخصیت کے سگے بھائی نے ملتان پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرکے کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے انکوائری کا مطالبہ کیا تھا؟ اور بجائے انکوائری کے بعد از ریٹائرمنٹ تعیناتی ہوگئی ہے۔ میں نے کہا: شاہ جی! خدا کا خوف کریں۔ بمشکل میں نے کوئی اچھی خبر سنائی ہے تو آپ اس اچھی خبر کے دودھ میں مینگنیاں ڈالنے لگ گئے ہیں اور پھر مجھے کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ بری خبریں سناتا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں