"KMK" (space) message & send to 7575

کنفیوژن اور ٹینشن کا خاتمہ

اس حکومت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے عوام کے بہت سارے کنفیوژن دور کر دیئے ہیں۔ میری بات سنتے ہی چودھری بھکن ایک دم گرم ہو گیا۔ کہنے لگا اور جو کنفیوژن پیدا کیے ہیں وہ کس کھاتے میں جائیں گے؟ میں نے کہا: چودھری! تو گرمی نہ کھا۔ بات یہ ہے کہ اس حکومت نے جو کنفیوژن دور کیے ہیں وہ ان تمام کنفیوژنز سے کہیں زیادہ اہم، پرانے اور غور طلب تھے جو انہوں نے اب پیدا کیے ہیں‘ مثلاً جب انہوں نے سابق حکومت کے آئی ایم ایف کے قرض لینے پر اس قرض کے بعد والی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے 2017ء میں فرمایا تھا کہ اسحاق ڈار نے جب آئی ایم ایف سے قرض لیا تو عالمی اقتصادی ادارے نے دبئی میں اسحاق ڈار سے کہا کہ وہ پاکستانی عوام پر مزید چالیس ارب روپے کے ٹیکس لگائیں۔ جب ٹیکس لگیں گے تو یاد رکھیے ساری چیزیں مہنگی ہوں گی۔ آپ کی بجلی مہنگی ہوگی، آپ کی گیس مہنگی ہوگی، پٹرول، ڈیزل مہنگا ہوگا۔ تب یار لوگ کہتے تھے کہ خان صاحب سابق حکومت کو خراب کرنے کیلئے یہ دعوے کرتے ہیں‘ لیکن آفرین ہے خان صاحب پر، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ آئی ایم ایف وغیرہ سے قرضہ لینے پر خود کشی کو ترجیح دیتے تھے، مگر صرف اور صرف قوم کو یہ بتانے کیلئے کہ وہ سچ کہہ رہے تھے‘ انہوں نے آئی ایم ایف سے قرض لیا۔ ابھی چند روز قبل حکومت نے عوام پر ایک سو چالیس ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانے کا اعلان کیا۔ اب آپ لوگوں کا سارا کنفیوژن دور ہو جانا چاہیے کہ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے بعد مزید ٹیکس نہیں لگتے اور مزید مہنگائی نہیں بڑھتی۔ خان صاحب نے اپنی عزت و آبرو، نیک نامی، شہرت، مقبولیت اور سیاسی ساکھ دائو پر لگا دی لیکن اپنی بات کو سچ ثابت کرکے عوام کا کنفیوژن اور ٹینشن دور کردی کہ قرضے لینے سے کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
چودھری میری بات سن کر زور سے ہنسا اور کہنے لگا: یہ قرضوں کی کہانی بھی بڑی عجیب ہے۔ یہ گورکھ دھندا کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا۔ میرا تو حساب کتاب بھی خراب ہے اوربجٹ اور ملک پر چڑھے ہوئے قرضوں کے بارے میں ویسے ہی سچی بات کا پتا نہیں چلتا۔ ایسے میں مجھ جیسا کچے پکے علم والا بندہ کیا کہہ سکتا ہے‘ لیکن چند موٹی موٹی باتیں تو بہرحال مجھے سمجھ آتی ہیں۔ کل ایک دوست نے بڑا کنفیوژ کیا۔ کہنے لگا کہ دنیا کے سارے ملک قرضدار ہیں‘ شاید ہی کوئی ملک ہو جس نے کسی ادارے یا ملک کا قرض نہیں دینا۔ اب ساری دنیا قرضدار ہے۔ ہر ملک نے قرضہ لیا ہوا ہے تو یہ سارا پیسہ کدھر چلا گیا ہے؟ یعنی ساری کی ساری دنیا قرضدار ہے تو پھر یہ بتاؤ کہ یہ سارا قرضہ کہاں گم ہوگیا ہے؟ کدھر چلا گیا ہے؟ ہوتا یوں ہے کہ کسی نے قرض لیا ہوتا ہے وہ قرضدار ہوتا ہے۔ کسی نے دیا ہوتا ہے وہ قرض خواہ ہوتا ہے۔ ادھر ساری دنیا قرضدار ہے۔ بظاہر عالمی مالیاتی ادارے قرض خواہ ہیں لیکن یہ ادارے نہ نوٹ چھاپ سکتے ہیں اور نہ ہی قرض دینے کے علاوہ اور کوئی کاروبار کرتے ہیں تو ان کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟
ابھی میں کوئی جواب دینے ہی لگا تھاکہ وہ خود کہنے لگا: چلو اب اس بحث کو چھوڑو۔ اس سے کون سا کوئی نتیجہ نکلنا ہے؟ ایک حکمت والا لطیفہ سنو! کسی نے ایک میراثی سے پوچھاکہ تم کتنے بھائی ہیں؟ میراثی کہنے لگا: ویسے تو ہم نو بھائی تھے لیکن نو میں سے چار فوت ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی رب کا شکر ہے اب بھی ہم باقی چودہ بھائی ہیں۔ یہ کہہ کر چودھری کھچروں کی طرح کھی کھی کرنے لگ گیا۔ میں نے کہا: چودھری! اس میں نہ تو کھی کھی کرنے والی کوئی بات ہے اور نہ ہی اس لطیفے کا موجودہ گفتگو سے کوئی تعلق ہے۔ چودھری کہنے لگا: تعلق کیوں نہیں؟ وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ انہوں نے پینتیس ہزار ارب روپے کا قرضہ اتار دیا ہے۔ یہ رقم دوکھرب پچیس ارب ڈالر بنتی ہے۔ اڑھائی سال پہلے ہمارے ذمے واجب الادا قرضوں کی کل رقم چھیاسی ارب ڈالر تھی۔ گزشتہ اڑھائی سال میں ہم نے بقول وزیراعظم سوا دوکھرب ڈالر واپس کر دیئے ہیں اور ہمارا بقایا قرضہ بھی ایک سو دس ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ اب بتا میراثی کا حساب ٹھیک ہے یا ہمارے ماہرین معاشیات کا؟ تم بھی عجیب آدمی ہو۔ ادھر قرضوں کی ادائیگی اور بقایا جات کے حساب نے کنفیوژن کی حد مکا دی ہے اور تم کہتے ہو کہ عمران خان نے سارا کنفیوژن دور کر دیا ہے۔
میں نے کہا چودھری: تم دراصل ایک منفی سوچ کے حامل شخص ہو۔ ہر بات کو غلط ثابت کرنا، ہر بات کی مخالفت کرنا اور دوسرے کو خراب کرنا تمہاری عادت ہے۔ اب تم یہ بتائوکہ خان صاحب ہمیں الیکشن 2018ء سے پہلے ہمہ وقت مغربی ممالک کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ ہمیں بتاتے تھے کہ ہالینڈ میں وزیراعظم سائیکل پر سواری کرتا ہے، ہمیں انہی کی فراہم کردہ معلومات سے علم ہواکہ اگر کسی یورپی ملک میں ٹرین کا حادثہ ہو جائے تو وزیر مستعفی ہو جاتا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی انہی کے توسط سے معلوم ہوئی کہ امریکہ اور یورپ وغیرہ میں کوئی بے گناہ مارا جائے تو حکمران مستعفی ہوجاتا ہے۔ جب وہ ہمیں یہ ساری بتانے اور سمجھانے میں مکمل طورپر کامیاب ہوگئے تو اس کے فوراً بعد وہ اقتدار میں آگئے۔ اب انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد ہمیں وینزویلا کی مثالیں دینا شروع کردی ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن میں رہ کر ہمیں یورپی ممالک، امریکہ، کینیڈا وغیرہ کے قصے سنائے۔ اب اقتدار میں آنے کے بعد ہمیں وینزویلا کے بارے میں بتاکر ہمارا یہ کنفیوژن دورکر دیا ہے کہ وہ پاکستان کو یورپی ممالک یا امریکہ وغیرہ کے برابر کرنا چاہتے تھے۔ وہ تو ہمیں صرف یہ بتا رہے تھے کہ وہاں کیا ہوتا ہے۔ اب بتانے کا مطلب یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ وہ بھی ویسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں وینزویلا کی مثال دے کر ہمارا سارا کنفیوژن دور فرما دیا اور بتا دیا ہے کہ جب بندہ اپوزیشن میں ہوتا ہے تو یورپ اور امریکہ کی مثالیں دیتا ہے اور جب اقتدار میں آجائے تو وینزویلا کی مثالیں دیتا ہے۔ دراصل جونہی خان صاحب کا اپنا کنفیوژن دور ہوتا ہے، وہ شتابی سے ہمارا کنفیوژن بھی دور کردیتے ہیں۔ انہیں دراصل پہلے خود بھی پتا نہیں تھاکہ اقتدارکا پتھر کتنا وزنی ہوتا ہے‘ جونہی انہیں اندازہ ہوا انہوں نے فوراً ہی ہمیں بتا دیا تاکہ ہم بھی ان کی طرح اپنا قبلہ درست کرلیں۔
میں نے کہا: چودھری! کنفیوژن ختم اور ٹینشن دور ہونے کی ایک نئی سنو۔ سردار بلونت سنگھ کے ہمسائے سردار سریندر سنگھ کی بھینس کے سینگ بہت بڑے بڑے تھے۔ بھینس ہمہ وقت سریندر سنگھ کے دروازے پر بندھی ہوتی تھی۔ بلونت سنگھ جب بھی گھر سے نکلتا اس کی نظر بھینس پر پڑتی۔ اس کے غیرمعمولی بڑے سینگ دیکھ کروہ چلتے چلتے رک جاتا اور سوچتاکہ اگر میریاں لتاں ایناں سنگھاں وچ پھس گئیاں تے کی ہووے گا؟ (میری ٹانگیں اگر اس کے سینگوں میں پھنس گئیں تو کیا ہوگا؟) کافی عرصہ وہ اسی شش و پنج میں رہا لیکن پھراپنے اس تجسس سے تنگ آکر ایک دن بلونت سنگھ نے اپنی ٹانگیں خود ہی بھینس کے سینگوں میں پھنسالیں۔ بھینس نے اسے گھماکر نیچے دے مارا۔ بلونت سنگھ کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ سریندر سنگھ اپنی بھینس کی اس حرکت پر معذرت کرنے ہسپتال پہنچ گیا۔ اسے قطعاً علم نہیں تھاکہ بلونت نے اپنی ٹانگیں خود ہی بھینس کے سینگوں میں پھنساکر تڑوائی ہیں۔ اس نے بلونت کو کہاکہ مجھے بڑا افسوس ہے‘ میری بھینس نے آپ کی ٹانگیں توڑ دی ہیں۔ بلونت سنگھ کہنے لگا: چھڈو جی! لتاں دی خیر اے! ٹینشن تے مک گئی ناں کہ لتاں سنگھاں وچ پھسیاں تے کی ہووے گا؟ (چھوڑو جی! ٹانگوں کی خیر ہے۔ ٹینشن تو ختم ہوگئی کہ اگر ٹانگیں سینگوں میں پھنس گئیں توکیا ہوگا؟) ہماری اپنی اور ملک کی تو خیر ہے! لیکن کم ازکم یہ ٹینشن تو ختم ہوگئی ہے کہ عمران خان صاحب وزیراعظم بنیں گے تو کیا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں