"KMK" (space) message & send to 7575

سمجھدار غیرت مندی

ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں بن سکتی اور ایک خرابی دوسری خرابی کے لیے بطور دلیل استعمال نہیں ہو سکتی۔ پہلی غلطی کو جواز بنا کر کی گئی دوسری غلطی کے بعد دراصل غلطیوں کی تعداد ایک سے بڑھ کر دو ہو جاتی ہے، اور کچھ بھی نہیں۔ ایک غلطی کو جواز فراہم کرنے کی غرض سے کسی دوسری غلطی کو کسی صورت دلیل یا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لیے سیالکوٹ کی خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ ہونے والے سلوک کو کسی صورت میں بھی، کسی بھی جواز یا دلیل کے ساتھ درست قرار نہیں جا سکتا لیکن صورتحال یہ ہے کہ کورونا کی مصیبت، مہنگائی کی شدت اور اقتصادی بدحالی کے شکار ملک میں فی الوقت مسئلہ یہاں آ کر پھنس گیا ہے کہ نوکر شاہی کو لگام دی جائے یا پبلک سرونٹ کی عزت نفس کو تحفظ فراہم کیا جائے؟ دونوں اطراف کے پاس ماضی کی غلطیوں کے جواز موجود ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے یہ کلپ غور سے دیکھا ہے، مجھے اس پر نہ تو حیرانی ہوئی ہے اور نہ ہی صدمہ۔ یہ دونوں کیفیات تب طاری ہوتی ہیں جب آپ توقع کچھ اور کریں اور ہو جائے کچھ اور۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ سے کیا توقع کی جا سکتی تھی؟ پی ٹی آئی نے جس کلچر کو فروغ دیا اس کا نتیجہ یہی نکل سکتا تھا۔ اب بھلا وہ اور کیا کرتیں؟ کم از کم اس عاجز کو تو اس بات پر کوئی حیرت ہوئی ہے اور نہ کچھ خاص افسوس؛ تاہم صورتحال یہ ہے کہ اس مسئلے پر دو مختلف کیمپ وجود میں آ چکے ہیں۔ ایک وہ جو چن چن کر اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے محترمہ فردوس عاشق اعوان کی جانب سے برسرِ عام سرکاری افسر کی تذلیل کو جائز قرار دیتے اور اسے پاکستان کی منہ زور افسر شاہی کو نتھ ڈالنے کے مترادف گردانتے ہوئے نہایت ہی سنہری کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ لوگ اسسٹنٹ کمشنر کی بورے والا سے مسلم لیگ ن کے ایم این اے چودھری فقیر احمد کی قریبی عزیزہ ہونے کا انکشاف کرتے ہوئے اسے موجودہ حکومت کو ناکام بنانے کی سازش قرار دے رہے ہیں‘ اور فردوس عاشق اعوان کے رویے کو سو فیصد درست قرار دیتے ہوئے اسے بیوروکریسی کی خود سری کو نتھ ڈالنے کا کارنامہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ کی تعلیمی کامیابیوں، صدارتی میڈل اور امریکی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے جھنڈے گاڑے جا رہے ہیں اور موصوفہ کے گاڑی میں بیٹھ کر کی جانے والی نگرانی کے حق میں دلائل کا انبار لگایا جا رہا ہے۔ فردوس عاشق اعوان کی ڈانٹ ڈپٹ کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے اسے تاریخ انسانی میں کسی سرکاری افسر کی پہلی تذلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ پہلے کیمپ کے شرکا کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور دوسرے کیمپ کے سرخیل ن لیگی ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں بن سکتی اور ایک خرابی دوسری خرابی کے لیے بطور دلیل استعمال نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے دور اقتدار میں افسران سے کی جانے والی زیادتیاں‘ اور ان کی تذلیل حالیہ واقعے کے لیے دلیل یا جواز کے طور پر استعمال نہیں ہو سکتی‘ لیکن مسلم لیگ ن والوں کو اپنے حالیہ موقف پر کم از کم تھوڑی سی ندامت ضرور محسوس کرنی چاہیے تھی کہ ان کے محبوب لیڈر میاں شہباز شریف سے اس قسم کے کئی واقعات وابستہ ہیں۔ میاں شہباز شریف سے وابستہ ان واقعات کو بنیاد بنا کر فردوس عاشق اعوان کے رویے کو تحفظ نہیں دیا جا سکتا، لیکن کم از کم مسلم لیگ ن والوں کو یہ بات کرتے ہوئے اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے تھا۔ لیکن کیا کیا جائے؟ پاکستان کے سیاسی کلچر کو سامنے رکھیں تو فریقین کی جانب سے اپنے اپنے موقف کو سو فیصد درست قرار دینے کا رویہ نہ تو حیران کن ہے اور نہ ہی نیا ہے۔ ہمارے ہاں اپنی اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ایک فریق معصوم عن الخطا ہے تو دوسرا راندۂ درگاہ۔ ایک بے گناہ ہے تو دوسرا گنہگار۔ ایک جنتی ہے تو دوسرا سراسر دوزخی ہے۔ ایک با عزت بری ہے تو دوسرا واجب القتل ہے۔ اب ایسے میں سچائی کا قتل نہ ہو تو اور کیا ہو؟ وہ جو راہِ اعتدال تھی وہی ناپید ہو گئی‘ اور جو توازن تھا وہ عنقا ہو گیا۔ چلیں یہ تو سیاسی وابستگیوں کا نتیجہ تھا، مجھے اگر حیرانی ہوئی ہے تو وہ بیوروکریسی کے ردِ عمل پر ہوئی ہے۔ کیا سلیکٹڈ قسم کی غیرت مندی ہے جس کا مظاہرہ اس نے کی۔ چیف سیکرٹری اور پنجاب بھر کے دیگر بیوروکریٹس نے اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ کی سرزنش پر سخت احتجاج کیا ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے جس کا ترجمہ یوں ہے: بھینسیں، بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔ فارسی میں ایسی صورت کے لیے شعر ہے 'کند ہم جنس با ہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز‘۔ اس واقعہ اور چیف سیکرٹری پنجاب کے علاوہ دیگر حاضر سروس افسران اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس کے شدید غم و غصے اور رد عمل پر مجھے اپنا ایک دوست یاد آ گیا ہے۔ وہ ہمیشہ کہتا ہے کہ میرا غصہ، میرا جلال، میرا بلڈ پریشر، میرا جذباتی ہونا اور رونا تک میرے کنٹرول میں ہے اور میں یہ سارے کام باقاعدہ سوچ سمجھ کر اور طے شدہ منصوبے کے تحت کرتا ہوں۔ کب غصہ کرنا ہے یہ میں حساب کتاب کے بعد کرتا ہوں۔ کس پر گرمی کھانی ہے یہ میں اپنی اور اس کی حیثیت دیکھ کر طے کرتا ہوں۔ کب جلال دکھانا ہے؟ یہ با قاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کرتا ہوں۔ میرے بلڈ پریشر نے کب چڑھنا ہے اور کس کے سامنے چڑھنا ہے یہ بات بھی طے شدہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں جذباتی ہونے سے پہلے اس بات پر غور کرتا ہوں۔ اگر جذباتی ہونے میں نقصان ہو تو میں جذباتی ہونے پر سو بار لعنت بھیجتا ہوں۔ یہی حال ہماری سمجھدار اور عقل مند بیوروکریسی کا ہے۔ اسے پورا ادراک ہے کہ کس موقع پر خاموش رہنا اور کب غصہ دکھانا ہے۔ اسے پکا پتا ہے کب خاموشی سے سب کچھ سہنا ہے اور کب غیرت مندی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ گزشتہ دنوں رانا ثناء اللہ نے بیوروکریسی، بشمول چیف سیکرٹری اور دیگر سرکاری افسران کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ اس پر خاموشی چھائی رہی۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ملتان میں ڈی آئی جی پولیس کو اس کی فورس کے جونیئر افسران کے سامنے بے عزت کیا اور پیٹی اتارنے کی دھمکی دی۔ کسی بیوروکریٹ کو گرمی نہیں آئی۔ ملتان میں ایک میٹنگ کے دوران ملتان کے کمشنر کی اس کے سارے ماتحتوں کے سامنے رج کے بے عزتی کی، تب تو کسی کو اپنی توہین کا احساس نہیں ہوا۔ ایک کہاوت ہے کہ غریب کی جورو، سب کی بھابی‘ یہی حال اس وقت پنجاب حکومت کا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کسی قسم کی قائدانہ اور بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیتوں سے عاری محسوس ہوتے ہیں لہٰذا ان کی اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ساری بیوروکریسی پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ یہ وہ افسران ہیں جو میاں شہباز شریف سے بے عزتی اور تذلیل کروانے کے بعد سر جھکا کر یس سر، یس سر کرتے تھے‘ لیکن آج عثمان بزدار کو اپنے غم و غصے سے آگاہ کر رہے ہیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں بن سکتی مگر کم از کم غیرت کو تو بندہ دیکھ کر ایکشن میں نہیں آنا چاہیے۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
تاہم الحمدللہ ہمارے افسروں کی غیرت کافی سمجھدار اور عقلمند ہے۔ بندہ دیکھ کر جاگتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں