"KMK" (space) message & send to 7575

بھولا بسرا کردار مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبادی …(2)

مولوی کا نام پڑھتے اور سنتے ہی ہمارے ذہن میں کسی عسرت زدہ خاندان کے درس کے دوران چندے پر گزارہ کرنے والے روایتی تصور والے شخص کا خیال آ جاتا ہے۔ مولوی احمد اللہ شاہ 1787 میں چنیاپٹن، تعلقہ پورنا ملی مدراس کے نواب سید محمد علی کے گھر پیدا ہوئے۔ دین سے لگائو اور با عمل مسلمان ہونے کے حوالے سے مولوی ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ مولوی احمد اللہ شاہ کے والد سید محمد علی، ٹیپو سلطان کے مصاحب اور مشیر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہرِ حرب بھی تھے اور آپ کا تعلق گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان سے تھا۔ جدی پشتی رئیس اور نواب ہونے کے باوجود طبیعت میں فقر اور درویشی تھی۔ کچھ عرصہ فوج میں گزارا، بعد ازاں حجاز، ترکی، افغانستان، ایران، روس اور برطانیہ کا سفر کیا۔ مادری زبان اردو تھی مگر عربی، فارسی اور انگریزی زبان پر بھی عبور تھا۔
عالم با عمل ہونے کے باعث ہزاروں لوگ آپ کے مرید تھے۔ بر صغیر کے روایتی گدی نشینوں اور پیروں کی طرح مولوی احمد اللہ شاہ بھی اپنے مریدوں اور پیروکاروں کو انگریز کی حکومت میں اپنے لیے اعلیٰ عہدے، اعزازی مجسٹریٹی، بغیر ٹیکس اور لگان کے جاگیر، خلعت فاخرہ اور انعام کے علاوہ دربار میں کرسی کے لیے استعمال کر سکتے تھے مگر انہوں نے اس کے بالکل برعکس لوگوں میں آزادی کی روح پھونکنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے درس و تدریس اور وعظ و تقرر کو اپنے مقصد کا ذریعہ بنا لیا۔ مولوی احمد اللہ شاہ نے ایک پمفلٹ بعنوان فتح اسلام لکھا اور اسے ہندوستان کے کئی شہروں میں تقسیم کروایا۔ انہی سرگرمیوں کی وجہ سے انگریزوں نے آپ پر نظر رکھنی شروع کر دی۔ مولوی احمد اللہ شاہ کی تبلیغ و تدریس کے باعث آزادی کی شمع لوگوں کے دلوں میں زور پکڑنے لگی تاہم اس بات کا اندازہ انگریزوں کو ہو چکا تھا اور وہ آپ کی گرفتاری کے لیے کسی موقع کی تلاش میں تھے کیونکہ عام طور پر آپ اپنے سینکڑوں مریدوں کے ہمراہ ہی سفر کرتے تھے اس لیے گرفتاری آسان نہ تھی۔ مولانا امیر علی شاہ کی شہادت پر لکھنؤ آئے تو انگریز فوج نے فیض آباد میں اچانک حملہ کر کے آپ کو گرفتار کر لیا اور پٹنہ جیل میں قید کر دیا۔ پہلے سزائے موت سنائی مگر بعد ازاں اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا۔
10 مئی 1857 کو ہندوستان کی جنگِ آزادی کا آغاز ہوا۔ اعظم گڑھ، بنارس اور جونپور کے باغی (مجاہدین) مورخہ 7 جون کو پٹنہ پہنچے۔ باغیوں نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد جیل توڑ کر قیدیوں کو رہا کر دیا۔ ان رہا ہونے والوں میں مولوی احمد اللہ شاہ بھی شامل تھے۔ آپ کی عسکری مہارت کے پیش نظر آپ کو اس معرکے میں قیادت سونپی گئی اور آپ نے پٹنہ کو مکمل آزاد کروانے کے بعد شہر کو راجہ مان سنگھ کے سپرد کیا اور خود باغیوں کی قیادت کرتے ہوئے اودھ روانہ ہو گئے۔ لکھنؤ میں ہونے والے شہرہ آفاق معرکہ چنہٹ میں برکت احمد کے ساتھ مل کر انگریز فوج کو شکست دی اور لکھنؤ پر قبضہ کر لیا۔ اس معروف معرکے میں انگریز فوج کا کمانڈر ہنری منٹگمری لارنس مارا گیا۔ لکھنؤ کی فتح کے بعد مولوی احمد اللہ اور برکت علی نے اودھ کی حکومت کلکتہ میں نظر بند آخری تاجدارِ اودھ واجد علی شاہ کے دس سالہ بیٹے برجیس قدر کے حوالے کیا۔ اس کی والدہ بیگم حضرت محل کو اس کا ولی اور حکومت کا نگران بنا کر خود شاہجہان پور چلے گئے۔ اقتدارکی محبت، حکومت کا خمار، سرداری کا نشہ اور نام و نمود مولوی احمد اللہ کی سرشت میں ہی نہیں تھی۔ وہ ایک مقام فتح کرتے، اسے کسی اور شخص کے حوالے کرتے اور خود اپنے جہادی قافلے کے ساتھ کسی اگلے مقام پر معرکہ برپا کرنے پہنچ جاتے۔ مولوی احمد اللہ شاہ کی اگلی منزل شاہجہان پور تھی۔
شہزادہ فیروز، جنرل بخت خان، تجمل حسین خان، انیس فرخ آبادی، جنرل اسماعیل خان (فتح گڑھ)، نانا صاحب پیشوا اور دیگر اکابرینِ جنگِ آزادی شاہجہان پور میں اکٹھے ہو گئے۔ چنہٹ، دلکشا، قیصر باغ، عالم باغ، سکندر باغ اور ریذیڈنسی وغیرہ کے معرکوں میں انگریز فوج کو ہزیمت سے دوچار کرنے والے مولوی احمد اللہ شاہ کے بارے اس جنگ میں عملی طور پر حصہ لینے والا جنرل ٹامسن لکھتا ہے کہ مولوی احمد اللہ شاہ بڑی لیاقت و قابلیت رکھتا تھا۔ وہ ایسا شجاع تھا کہ خوف اس کے نزدیک بھی نہیں آتا تھا۔ یہ عزم کا پکا اور ارادے کا پختہ تھا۔ باغیوں میں اس سے بہتر کوئی سپاہی نہیں تھا۔ یہ فخر اسی کو حاصل ہے کہ اس نے دو مرتبہ سر کالن کیمبل کو میدان جنگ میں ناکام کیا۔
شاہجہان پور میں ایک زبردست معرکہ ہوا اور قریب تھا کہ مشہور انگریز جنرل سرکالن کیمبل کو مولوی احمد اللہ شاہ کے مقابلے میں تیسری ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا مگر جنگ شروع ہونے سے عین پہلے جنرل بریگیڈیئر جان اپنے ساتھ بھاری نفری کی کمک لے کر میدان جنگ میں پہنچ گیا اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ شاہجہان پور کے معرکے میں شکست کے بعد بھی مولوی احمد اللہ شاہ نے اپنے راستے سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔ اودھ کا آخری حاکم واجد علی شاہ کلکتہ میں نظر بندی کے دوران اپنے بارہ لاکھ سالانہ وظیفے کے ساتھ زندگی کے موج میلوں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ موسیقی سنتا رہا اور ٹھمریاں لکھتا رہا‘ تاہم اسی دوران اس کی سابقہ بیگم حضرت محل بہادری سے جنگ کی قیادت کرتی رہی مگر چاروں طرف سے امڈتے ہوئے انگریز فوجیوں، مقامی سپاہیوں اور غداروں کے مقابلے میں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی اور ہتھیار ڈالنے کے بجائے نیپال کی طرف چلی گئیں۔ ان کا انتقال نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ہوا جہاں وہ مرکزی جامع مسجد کے قریب مدفون ہیں۔
مولوی احمد اللہ شاہ شاہجہان پور میں ناکامی کے بعد قریبی قصبے محمدی کی طرف کوچ کر گئے اور وہاں باغی حکومت قائم کی۔ اس حکومت میں مولوی احمد اللہ شاہ سربراہ، جنرل بخت خان وزیر جنگ، مولانا سرفراز علی خان قاضی القضاۃ اور نانا صاحب پیشوا دیوان (وزیر اعظم) مقرر ہوئے۔ ابھی یہ لوگ قصبہ محمدی میں ٹھیک طرح جمنے بھی نہ پائے تھے کہ سرکالن کیمبل نے ادھر چڑھائی کر دی۔ پہلے سے بکھری ہوئی جمعیت اس جنگ میں بالکل ہی تباہ ہو گئی۔ مولوی احمد اللہ شاہ محمدی سے شاہجہان پور کے قریب ایک چھوٹی ریاست پوائیں کے راجہ جگن ناتھ سنگھ کے پاس گئے تاکہ اس سے مدد لے کر جنگ جاری رکھ سکیں۔ راجہ جگن ناتھ نے مولوی صاحب کو برائے مشاورت ملنے کی ہامی بھر لی مگر جب مولوی احمد اللہ شاہ پوائیں پہنچے تو راجہ نے اپنی گڑھی کا دروازہ بند کر لیا اور جنگی ہاتھی پر سوار مولوی احمد اللہ شاہ پر توپ سے فائر کروا دیا۔ احمد اللہ شاہ زخمی ہو کر نیچے گر گئے۔ راجہ کے بھائی کنور بلدیو سنگھ نے مولوی احمد اللہ شاہ کا سر کاٹ کر انگریز مجسٹریٹ کو پیش کر دیا۔ راجہ پوائیں کو حسب وعدہ پچاس ہزار روپے انعام عطا کر دیا گیا۔ مولوی احمد اللہ شاہ کا جسم جلا کر راکھ کر دیا گیا اور سر کوتوالی کے باہر لٹکا دیا جو عرصہ تک لٹکا رہا۔ بعد ازاں یہ سر موضع جہان گنج کی ایک چھوٹی سی مسجد کے قریب دفنا دیا گیا۔ یوں مولانا احمد اللہ شاہ کی بارہ سالہ جدوجہد اور جنگ آزادی کا اختتام ہو گیا۔ افسوس کہ آج ہمیں مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبادی اور اس جیسے اور بے شمار لوگوں کے نام بھی نہیں آتے۔ ایودھیا میں شہید کی جانے والی بابری مسجد کے عوضانے میں بھارتی سپریم کورٹ کے حکم پر دھنی گائوں میں بننے والی مسجد کا نام اسی مجاہد آزادی اور انقلابی مولوی احمد شاہ فیض آبادی کے نام پر رکھا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مولوی احمد اللہ شاہ کی قبرکو اپنے نور سے منور فرمائے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں