"KMK" (space) message & send to 7575

ٹرین حادثہ اور تین عدد بیانات

اللہ خوش رکھے امریکہ سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر پاکستان آ کر اپنے پیسے کے زور سے سیاسی مقام بنانے والے اعظم سواتی کو کہ اس نے ایک پرانا مسئلہ چٹکیوں میں حل کر کے آئندہ کیلئے بہت سے لوگوں کو باعزت فرار کا راستہ سجھا دیا ہے۔ انہوں نے ڈہرکی کے قریب ہونے والے ریلوے کے ہولناک حادثے کے بعد جس میں ساٹھ سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہو گئی ہیں‘ فرمایا کہ اگر میرے استعفیٰ دینے سے اس بدقسمت حادثے میں جاں بحق ہونے والے مسافر دوبارہ زندہ ہوسکتے ہیں تو میں استعفیٰ دینے کیلئے تیار ہوں۔ ان کی اس فراخ دلانہ آفر سے جہاں ان کی مرنے والوں سے ہمدردی ظاہر ہوئی ہے وہیں ان کے روشن ضمیر ہونے کی بھی گواہی مل گئی ہے۔ انہوں نے بڑی منطقی بات کی ہے کہ ان کے استعفیٰ دینے سے‘ جو لوگ اپنی جان سے چلے گئے ہیں‘ واپس نہیں آ سکتے تو پھر ان کا استعفیٰ کیا معنی رکھتا ہے؟ اب ایسے بے کار اور لا حاصل کام کا فائدہ!
ویسے تو یہ بیان از خود سنہرے حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہے؛ تاہم اس کے دور رس نتائج کے بارے میں غور کریں تو ان کے اس جواب کو قانون کی بے شمار پیچیدگیاں حل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہو سکتا ہے اور دنیا بھر میں بے شمار وہ لوگ جنہیں نہ صرف اب تک مستوجبِ سزا سمجھا جاتا رہا ہے‘ بلکہ سزائیں دی جاتی رہی ہیں وہ اس بیان کے وسیع تر تناظر میں آئندہ کیلئے بے گناہ قرار پائیں گے۔ کسی بھی حادثے کے بعد کار‘ بس‘ ٹرین یا ٹرک وغیرہ کے ڈرائیور بھی اس بیان کو بنیاد بنا کر آئندہ کہہ سکیں گے کہ اگر ان کو سزا دینے سے مرنے والا واپس آ سکتا ہے تو وہ یہ سزا بخوشی بھگتنے کیلئے تیار ہیں؛ تاہم اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھر ان کو سزا دینے کا کیا تُک بنتا ہے؟
اس دورِ حکومت میں باقی حادثات چھوڑ کر صرف ریلوے کا ذکر کریں تو یہ تین سال شاید ریلوے کی تاریخ میں حادثات کے حوالے سے بدترین سال ہیں۔ اس دوران سب سے بدترین حادثہ 31 اکتوبر 2018ء کو ہوا جب رحیم یار خان کے قریب ٹرین میں آگ لگنے سے چوہتر افراد زندہ جل گئے۔ تب ریلوے کی وزارت شیخ رشید کے سپرد تھی۔ باتوں کے دھنی شیخ رشید بھی ہر حادثے کے بعد یہی فرماتے تھے کہ میں وزیر ہوں کوئی ریلوے کا ڈرائیور نہیں کہ ان حادثات کی ذمہ داری قبول کروں؛ تاہم صورتحال یہ تھی کہ شیخ صاحب کے زمانۂ وزارت میں پاکستان ریلوے کی حالت جو بلور کی وزارت میں ہونے والی بربادی کے بعد سعد رفیق کے زمانے میں نسبتاً تھوڑی بہتر ہوئی تھی دوبارہ خراب ہو کر غلام احمد بلور کے زمانے سے بھی زیادہ خراب ہو گئی اور شیخ صاحب اپنی وزارت سے زیادہ ادھر اُدھر کی چھوڑنے اور گزشتہ حکومت کے لتے لینے میں مصروف رہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح اپنی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کے دوران فواد چودھری صاحب مسلسل چاند کا شوشہ چھوڑنے اور غیر متعلقہ قسم کے بیانات دینے میں مصروف رہے۔
فواد چودھری صاحب سے یاد آیا‘ انہوں نے حالیہ ٹرین حادثے کی ذمہ داری بھی حسب ِمعمول سابقہ حکومت پر ڈال دی ہے اور اس حادثے کا براہ راست ذمہ دار خواجہ سعد رفیق کو ٹھہرا دیا ہے۔ میرا دوست شوکت علی انجم مسلم لیگ ن کا شدید ناقد ہے اور ان کی کسی اچھی بات کو بھی تسلیم کرنے سے صاف انکاری ہو جاتا ہے؛ تاہم وہ یہ ضرور مانتا تھا کہ ریلوے کی حالت پہلے کی نسبت بہت بہتر ہوئی ہے‘ وہ ہر ماہ ایک آدھ بار عموماً ملتان سے حیدرآباد تک کا سفر ٹرین پر کرتا ہے۔ گزشتہ حکومت کے زمانے میں بقول اس کے ریل کے سفر میں بہتری آئی تھی۔ ریل گاڑیوں کا نظام الاوقات کسی حد تک ٹھیک ہوا تھا اور معیارِ سفر میں بھی بہتری نظر آئی تھی لیکن اب صورتحال پھر خرابی کی طرف گامزن ہے اور موجودہ حکومت کی کارکردگی دیکھ کر خواجہ سعد رفیق غنیمت لگنے لگ پڑا ہے۔
ادھر یہ عالم ہے کہ حالیہ ٹرین حادثے کا ملبہ فواد چودھری نے سعد رفیق پر ڈال دیا ہے۔ حادثے کے بارے میں جو ابتدائی رپورٹ آئی ہے اس کے مطابق یہ حادثہ اَپ ٹریک کی پٹڑی کا ویلڈنگ جوائنٹ ٹوٹنے کے باعث پیش آیا۔ اگر اس رپورٹ کو فواد چودھری کے بیان کے تناظر میں دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ صاحبِ کشف و کرامت اور مستقبل بینی کے ماہر خواجہ سعد رفیق کو یہ معلوم تھا کہ اس کی وزارت کے خاتمے کے تین سال بعد ریتی ریلوے سٹیشن کے قریب اَپ ٹریک کی پٹڑی کا ویلڈنگ جوائنٹ ٹوٹ جائے گا لیکن اس نے اپنے کشف کے باعث اس خرابی کا علم ہونے کے باوجود اس جگہ پر احتیاطاً پیشگی ویلڈنگ نہیں کروائی تھی جس کی وجہ سے یہ ہولناک حادثہ رونما ہو گیا۔ ڈی ایس ریلوے سکھر ڈویژن نے جو خط اپنے اعلیٰ حکام کو لکھا تھا کہ ٹریک کی حالت ٹھیک نہیں‘ براہِ کرم اسے ٹھیک کرنے کیلئے فنڈز فراہم کیا جائے‘ یہ خط دراصل جون 2021ء کے بجائے 2013ء سے 2018ء کے درمیان لکھا گیا تھا؛ تاہم اس پر غلطی سے 2021ء کی تاریخ لکھی گئی ہے اور اس خط پر عمل نہ کرنے کی تمام تر ذمہ داری بھی خواجہ سعد رفیق پر ڈالنی چاہیے۔ ڈی ایس ریلوے سکھر کا یہ کہنا کہ وہ ٹریک کی خستہ حالی کی مرمت کیلئے سو روپے مانگتے ہیں تو ان کو ایک روپیہ دیا جاتا ہے دراصل گزشتہ حکومت کی نالائقی ہے کہ وہ اس ٹریک کو ٹھیک نہیں کروا کر گئی جس کی وجہ سے اس کا خرچہ بڑھ کر ایک روپے سے سو روپے ہو گیا ہے۔
کیا جو کام گزشتہ حکومت نے اپنے دور میں نہیں کیے وہ کرنا اب اس حکومت کیلئے شجرِ ممنوعہ ہیں؟ اس حکومت کو لوگوں نے تبدیلی کیلئے ووٹ دیا تھا‘ نہ کہ ''سٹیٹس کو‘‘ کیلئے۔ عوام اپنی تکلیفات کے ازالے کیلئے تبدیلی کے خواہشمند تھے نہ کہ یہ سننے کے لیے کہ یہ کام گزشتہ حکومت نے خراب کیا ہے اور فلاں کام گزشتہ حکومت نہیں کر کے گئی۔ یہ ملک ایک عرصے سے ''گزشتہ‘‘ والے ملبے کے نیچے سے نہیں نکل پا رہا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا سارا عرصہ یہ کہتے ہوئے گزر گیا کہ ہم کیا کریں‘ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سال سارا ملک برباد کر گئے ہیں اور اب ہم اس بربادی اور خرابی کو بھگت رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے پنجاب میں دو ادوار اور مرکز کے پانچ سال پرویز مشرف کا گند صاف کرنے میں خرچ ہو گئے اور پی ٹی آئی والے سب سے آگے نکل گئے ہیں۔ اپنی ہر نالائقی اور نا اہلی کا ملبہ عمومی طور پر گزشتہ ستر سال کے سر اور خصوصی طور پر ن لیگ کے اوپر ڈال کر اپنی جان چھڑوانے کا بندوبست کر چکے ہیں۔ بقول چودھری بھکن‘ اگر رویتِ ہلال کمیٹی رات گیارہ بجے تک چاند کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر پائے تو اس کی ذمہ داری بھی مسلم لیگ ن پر ڈال ڈال دینی چاہیے۔
پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ''سو گز رسہ‘ تے سرے تے گنڈھ‘‘ یعنی لمبی تمہید کے بعد فیصلہ کن حرف ِآخر‘ تو اپنے اعظم سواتی نے آئندہ کیلئے ایسے حادثات کے بعد استعفے کا مطالبہ کرنے والوں کا منہ بند کر دیا ہے کہ جب جاں بحق ہونے والے دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے تو پھر وہ استعفیٰ کیوں دیں؟ تاہم اس سارے افسوسناک سانحے میں ایک بڑی ریکارڈ توڑ بات ہوئی ہے اور یہ کہ باجی فردوس عاشق اعوان نے فرمایا کہ : '' اللہ کا فضل ہے کہ یہ 2021ء کا پہلا حادثہ ہے‘‘۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز شریف نے لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کرتے ہوئے ''الحمد للہ‘‘ کو جس طرح بے موقع استعمال کیا تھا‘ باجی نے ''اللہ کے فضل‘‘ کو اس سے بھی زیادہ بے موقع استعمال کر کے حسین نواز شریف کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں