"KMK" (space) message & send to 7575

جنگل کی محبت اور خواری

گزشتہ ہفتے میں نے درختوں اور جنگلوں پر اتنے کالم لکھے کہ میرا اپنا ہی دل جنگل کے لیے ہڑک پڑا۔ اب گرمی میں پنجاب کے کسی جنگل کا تو رخ نہیں کیا جا سکتا تھا لہٰذا لے دے کے شمالی علاقہ جات بچتے تھے یا سوات کا رخ کیا جا سکتا تھا۔ شمالی علاقہ جات گئے ابھی چند ماہ ہی گزرے ہیں لہٰذا قرعہ فال سوات کے نام نکل آیا۔ ویسے بھی سوات گئے بڑے سال ہو گئے تھے۔ ملتان سے چلتے ہوئے ہی سوچ لیا تھاکہ کہاں جانا ہے، ہماری منزل کالام سے اوشو کی طرف نکلتے ہی چھوٹا سا میدانی جنگل تھا‘ چیڑ کے درختوں سے بھرا ہوا ایک چھوٹا سا قطعہ اراضی۔ ایسا میدانی جنگل کم از کم میری نظر سے تو نہیں گزرا۔ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر لگے ہوئے دیودار اور چیڑ کے جنگل تو بہت دیکھے ہیں لیکن کالام کا یہ میدانی جنگل اپنی نوعیت کا بڑا منفرد جنگل ہے۔ گرمی میں بھلا اس سے خوبصورت جنگل اور کہاں مل سکتا تھا؟ میں، شوکت اسلام اور شوکت علی انجم نے رخت سفر باندھا۔ بدقسمتی سے امیر سفر کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ڈال دی گئی۔ اس کی دو وجوہ تھیں۔ پہلی یہ کہ شاید میں عمر میں ان دونوں سے بڑا ہوں اور دوسری یقینی وجہ میرا آوارہ گردی کا وسیع تجربہ تھا۔
ملتان سے نکل کر سفر کا آغاز ایم فور سے کیا۔ وہاں سے ایم ٹو اور پھر ایم ون سے ہوتے ہوئے ایم سولہ پر چڑھے اور چکدرہ جا اترے۔ شوکت علی انجم کے طفیل چکدرہ میں ایک جگہ کھانا کھایا۔ ایسا عمدہ کھانا کہ ہاتھ رکنے میں نہیں آرہے تھے۔ ہوٹل کا نام خوراک محل تھا اور خاصے کی چیز تھا۔ انعام اللہ خان سے اس ہوٹل کا نام سنتے ہی میرا تاثر ہوٹل کے بارے میں زیادہ اچھا نہ تھا مگر بعد میں اپنی سوچ سے رجوع کرلیا۔
شوکت اسلام اور شوکت علی انجم میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ پہلی یہ کہ دونوں کے نام ایک جیسے ہیں۔ دونوں گجر ہیں اور دونوں ہمسائے بھی ہیں تاہم شوکت اسلام اس سفر میں ہمارے ساتھ چلنے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا۔ وجہ وہی کورونا۔ میں نے اس سے پوچھا: کیا تم نے ویکسی نیشن کروائی ہے؟ جواب ملا: کروائی ہوئی ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں بھی ویکسین شدہ ہوں اور شوکت علی انجم نے بھی ویکسین لگوا لی ہے۔ رہ گئی مخلوق خدا تو اس کے ساتھ اب گزارہ کرنا پڑے گا۔ فیس ماسک لگائے رکھیں گے اور سماجی فاصلے کی پابندی کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے؟ بقول ہمارے ایک ڈاکٹر دوست کے، یہی دو تین ماہ سہولت کے ہیں اور اس کے بعد ستمبر سے خدا نہ کرے کہ میری بات سچ ثابت ہو‘ لیکن بہرحال میرا اندازہ یہی ہے کہ کورونا کی ایک اور لہر آنے والی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس دوران ممکنہ حد تک لوگوں کو آسانی اور سہولت فراہم کرے تاکہ وہ اپنی دال روٹی کا بندوبست کرسکیں اور ساری پابندیاں اٹھا لے کیونکہ تین ماہ بعد حالات دوبارہ سے خراب ہونے جا رہے ہیں۔ گوکہ میں نے اپنے اس دوست ڈاکٹر کی بات پر زیادہ یقین تو نہیں کیا مگر کیا پتا یہ بات درست ہی ہو۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اس دوران جتنی آوارہ گردی کی جا سکتی ہے کرلی جائے۔ اسی ڈاکٹر دوست کے بقول اب یہ کورونا والا سلسلہ کئی سال چلے گا اور ہمیں اس کے ساتھ گزارہ کرنے کا طریقہ اپنانا ہوگا۔ شوکت اسلام کہنے لگا: حالانکہ میں آپ سے اور آپ کے ڈاکٹر دوست سے متفق نہیں ہوں اس کے باوجود آپ کی خاطر آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔
ہماری پہلی منزل مالم جبہ تھی۔ مینگورہ سے مالم جبہ کی مسافت تو پینتالیس کلومیٹر کے لگ بھگ ہے مگر یہ پینتالیس کلومیٹر کا فاصلہ کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوتا ہے اور ہم مینگورہ سے پانچ ہزار سات سو بہتّر فٹ کی بلندی پر پہنچ جاتے ہیں۔ مینگورہ کی سطح سمندر سے بلندی 3228 فٹ ہے اور مالم جبہ 9000 فٹ کی بلندی پر ہے، یعنی مری سے بھی تقریباً ڈیڑھ ہزار فٹ زیادہ بلند۔ یہاں ایک عدد ''سکی انگ‘‘ ریزارٹ اور میدان ہے اور چیئرلفٹ ہے جو شروع میں آسٹرین گورنمنٹ کی دی گئی رقم سے بنائی گئی تھی۔ چیئرلفٹ اور سکی انگ ریزارٹ 1988ء میں مکمل ہوئی مگر آپریشنل ہونے کے بجائے دس سال تک اسی باہمی کشمکش کی شکار ہوکر بند رہی کہ اسے گورنمنٹ چلائے گی یا پرائیویٹ آپریٹر۔ بالآخر 1999ء میں حکومت نے اسے چلانے کے حقوق جیت لیے مگر 2006ء تک یہ پراجیکٹ اسی طرح خسارے کا شکار رہا جس طرح دیگر سرکاری پراجیکٹس‘ لیکن اس کی بربادی کی کہانی کا آخری باب بہت ہولناک تھا۔ جب وادی سوات پر طالبان نے عملی طور پر قبضہ کرلیا تو پچاس کمروں پر مشتمل سکی انگ ریزارٹ اس علاقے میں طالبان کا ہیڈکوارٹر قرار پائی۔ ملا فضل اللہ اینڈ کمپنی نے اس جگہ قبضہ کرکے سکی انگ کا سارا سامان اور چیئرلفٹ جلادی۔ سامنے موجود بلند پہاڑ کی ترائی میں موجود گھنا جنگل طالبان کیلئے بہتر جائے پناہ تھی۔ دو سال ریزارٹ پر طالبان قابض رہے تاوقتیکہ اپریل 2009ء میں آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم (راہ راست) شروع ہوا اور طالبان سے وادی سوات خالی کروائی گئی ؛ تاہم جب ریزارٹ اور چیئرلفٹ کو واپس حاصل کیا گیا تو پتا چلا کہ پچاس کمروں پر مشتمل پی ٹی وی سی ریزارٹ کھنڈر بن چکا تھا۔ پھر یہ جگہ حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر کو لیز پر دے دی۔ اب ساری سرگرمیاں دوبارہ سے شروع ہو چکی ہیں۔
مینگورہ سے مالم جبہ تک سڑک صوبہ خیبرپختونخوا کی عمومی سڑکوں کی طرح بڑی اچھی ہے، تاہم پہاڑی سڑکوں کی طرح بہت زیادہ موڑ اور چڑھائی کی وجہ سے سفر پر وقت زیادہ لگتا ہے۔ میں مالم جبہ تقریباً تیس سال بعد دوبارہ آیا تھا۔ اس دوران مینگورہ تو کئی بار آنا ہوا مگر دوبارہ مالم جبہ نہ آ سکا۔ اس بار ایک طویل عرصے کے بعد یہاں آیا تو سب کچھ ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ اگلے روز ہم کالام کے لیے روانہ ہو گئے۔ مینگورہ تا کالام سڑک پہلے کی نسبت بہت ہی زیادہ بہتر ہو چکی ہے۔ پہلے کی نسبت یوں سمجھیں کہ کم از کم ڈیڑھ گنا چوڑی ہو چکی ہے اور بہت اچھی حالت میں ہے تاہم ایک تو وہی پرانی مصیبت کہ سڑک کے کناروں پر سارے بازار ہیں اوپر سے بے ہنگم ٹریفک اور شتر بے مہار قسم کی پارکنگ نے راستے میں آنے والے شہروں کے اندر سے گزرنے کے مرحلے کو مشکل تر کر دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر بننے والے ہوٹل، ان کے آگے کھڑی گاڑیاں اور دکانداروں کی تجاوزات نے گزرنا مشکل کر دیا ہے۔ پہلے جو بازار پچاس گز کا تھا اب وہ دو اڑھائی سو گز کا ہو چکا ہے۔ نہ کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی کوئی پوچھ تاچھ۔ جس کا جہاں دل کرتا ہے وہاں جیسی چاہتا ہے تعمیر کر لیتا ہے۔ مینگورہ سے کالام جاتے ہوئے راستے میں فضا گٹ، منگلور، فتح پور، چار باغ، خوازہ خیلہ، مدین اور بحرین سے گزرتے ہوئے نانی یاد آ گئی۔
میں پہلی بار سوات 1979ء میں گیا تھا جب میرے ساتھ منیر چودھری، قائد اقبال اور ایوب خان تھے۔ مناسب سے بھی کم پیسے جیب میں تھے اور مناسب سے بڑھ کر کسی ہوٹل میں قیام کی استطاعت نہیں تھی۔ تھکاوٹ نام کی کسی چیز سے تب تک شاید آشنائی بھی نہیں ہوئی تھی۔ بحرین سے کالام تک کا پینتیس کلومیٹر کا پیدل سفر نو گھنٹے میں مکمل ہوا اور ہم رات کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب کالام پہنچ گئے۔ تب وہاں پر ایک پرانا ہوٹل ہوتا تھا مجید ہوٹل۔ وہاں چائے پی اور کمرہ ملاحظہ کیا۔ کمرے کی حالت، بستر کی صورتحال اور چالیس روپے کرایہ سن کر اپنا رک سیک کمر پر لادا اور ڈاک خانے کے چوکیدار کو بیس روپے دے کر کمرے میں اپنی میٹرس بچھا کر سلیپنگ بیگ میں سونے کا سستا سودا اس وعدے پر کر لیا کہ صبح آٹھ بجے ہم کمرہ چھوڑ دیں گے۔ تب کالام کے اوپر نکلی ہوئی پہاڑی کگر پر صرف پی ٹی ڈی سی کا ریسٹ ہائوس اور فلک سیر ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ ہم بغیر سانس لیے اس بلند میدان تک پہنچ جایا کرتے تھے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں