"KMK" (space) message & send to 7575

جنگل کی محبت اور خواری …(3)

انگریزی کے شہرہ آفاق شاعر جان کیٹس (John Keats) نے اپنی ایک نظم ''Endymion‘‘ میں ایک مصرع لکھا جو بعد ازاں ضرب المثل بن گیا۔ یہ مصرع ہے :A Thing of Beauty is a Joy Forever یعنی خوبصورتی کو دیکھنا ایک سدا بہار مسرت کا نام ہے۔ خوبصورت چیز ختم بھی ہو جائے تو بھی اس کو دیکھنے کا لطف تادیر آپ کو شاد رکھتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہے اور میں اپنے دل پر نقش اس خوبصورت تصور کو برباد ہونے سے بچانے کے لیے بعض اوقات دل چاہنے کے باوجود کئی جگہوں پر دوبارہ جانے سے احتراز کرتا ہوں‘ مگر بسا اوقات اس کلیے کو ایک طرف رکھ دیتا ہوں۔ اسے میری بدقسمتی سمجھیے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں اس جگہ پر دوبارہ جا کر‘اسے دوبارہ دیکھ کر شدید مایوسی کا شکار ہوتا ہوں اور اس بات پر پچھتاتا ہوں کہ میں دوبارہ یہاں کیوں آیا؟ ہمارے ہاں کسی چیز کا دھیان رکھ کر اسے اصلی حالت میں رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کا شاید کوئی تصور ہی نہیں۔ نہ حکومتی سطح پر اور نہ ہی عوامی سطح پر۔ کسی کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہے اور اس میں قصور بھی کسی کا نہیں کہ ہمیں اخلاقیات‘ معاشرت اور صفائی کی اہمیت بارے کبھی بتایا ہی نہیں گیا۔ سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی کتابیں ان موضوعات سے پاک ہیں اور پڑھانے والے اس کا عملی مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں۔ عملی زندگی میں آنے والی نسل کا کیا قصور ہے‘اسے دیا ہی کیا گیا ہے جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے؟ قطار بنانے کا تصور‘ اپنی باری کا انتظار کرنے کا کلچر‘ صفائی کی اہمیت‘ راستے کے بارے میں حقوق و فرائض اور باہمی معاملات کے بارے میں آگاہی کا ہمارے ہاں شاید کوئی تصور ہی نہیں اور گزشتہ چوہتر سال سے کسی کو نصاب میں معاشرت‘ شہریت اور اخلاقیات کی الف ب ڈالنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔
کس کس بات کا رونا رویا جائے؟ جہاں لوگ اپنی بہنوں کا جائیداد کا حصہ کھا جائیں‘ جہاں باپ بیٹوں سے ان کا حقِ شرعی زبردستی معاف کروا لیں۔ جہاں لوگ یتیم بھتیجوں اور بھانجوں کے حقوق غصب کر جائیں وہاں کسی سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ سڑک یا گلی پر قبضہ نہیں کرے گا‘ ہمسائے کے حقوق کی پاسداری کرے گا یا ''صفائی نصف ایمان ہے‘‘ پر عمل کرے گا۔
میں شادی کے چند روز بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ سوات آیا تھا۔ سید و شریف سے تھوڑا آگے مرغزار اور سفید محل (White Palace) جو والیٔ سوات میاں گل عبدالودود نے 1940ء میں تعمیر کروایا تھا‘ ایک خوبصورت جگہ تو تھی ہی لیکن اتنی پُرسکون کہ دل کھل اٹھے۔ پتلی سی سڑک کا اختتام اس خوبصورت محل پر ہوتا تھا۔ سامنے صحن میں پڑے ہوئے سنگ مرمر کی دودھیا میز کرسیاں‘ صوفہ نما نشستیں اور سبزے کا تختہ۔ جے پور سے لائے گئے سنگ مر مر‘ بلجیم سے لائی گئی کانسی کی سجاوٹی اشیااور ترک ہنر مندوں کی مہارت کا یہ شاہکار محل سوات کے فرمانروا ؤں کی رہائش گاہ تھی۔ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم اور ان کے شوہر شہزادہ فلپ جب 1961ء میں پاکستان کے دورے پر آئے تو اس محل کے رائل سوئٹ میں تین دن مقیم رہے۔ بعد میں اس محل کو عوام کے لیے سیرگاہ اور ہوٹل بنا دیا گیا۔ اس بار دل کیا کہ جا کر اس خوبصورت محل کو دیکھوں‘ سنگ مر مر کے خوبصورت نقش و نگار والے صوفے پر بیٹھ کر خوبصورت لان کا نظارہ کروں لیکن وہاں تو حالت ہی اور تھی۔ محل سے تقریباً دو فرلانگ پہلے الٹی سیدھی پارکنگ کے طفیل ٹریفک جام کا آغاز ہوا۔ تنگ سی سڑک کے دونوں طرف کھوکھے اور دکانیں اس بے ڈھنگے پن سے بنائی گئی تھیں کہ گزرنے کا راستہ بھی نہیں رہا تھا۔ بمشکل سفید محل تک پہنچے تو وہاں لان میں ایک ہجومِ بے کراں تھا اور ہر طرف کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ سکون‘ خاموشی اور صفائی کا نام و نشان نہیں تھا۔ ٹکٹ کے پیسوں سے وصولی کے لالچ نے اسے سیرگاہ سے زیادہ کسی میلے کی صورت دے رکھی تھی۔ محل کے اندر بھی ایک دکان کھلی ہوئی تھی۔ وزیروں کی رہائش گاہ والے کمرے ہوٹل میں تبدیل ہو چکے تھے۔ سوچا کہ یہاں ایک کمرہ لے لیں مغرب کے بعد سکون ہو جائے گا تو پر سکون اور خاموش لان میں بیٹھ کر قدرت سے ہمکلام ہوں گا‘ مگر کمرہ دیکھا تو ایسا برا حال کہ میاں گل جہانزیب کی روح تڑپ اٹھے۔ مایوسی اتنی شدید تھی کہ دو منٹ بھی نہ ٹھہرا گیا۔
اب اس صورتحال کا کیا حل ہونا چاہیے؟ ممکن ہے قارئین میں سے کچھ ''عوام دوست‘‘ قاری مجھ پرتبرا کریں کہ آیا بڑا لاٹ صاحب! سارے پاکستان کو گویا ایسا بنانا چاہتا ہے کہ جیسے بقول حافظ برخوردارع
سنجیاں ہو جان گلیاں‘ تے وچ مرزا یار پھرے
لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ایسی جگہوں کیلئے دن بھر میں ٹکٹ جاری کرنے کی ایک مخصوص تعداد مقرر کر دی جاتی ہے اور اس سے زیادہ ٹکٹ جاری ہی نہیں کیے جاتے۔ اس طرح غیر ضروری رش اور بے پناہ ہجوم جیسے مسئلے پر قابو پا لیا جاتا ہے۔
میاں گل عبدالودود 1918ء سے 1949ء تک اکتیس سال حکمران رہنے کے بعد اپنے بیٹے میاں گل جہانزیب کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ میاں گل جہانزیب 1949ء سے 1969ء تک ریاست کے سربراہ رہے پھر وہاں عوامی بے چینی کے باعث پاکستان میں ضم شدہ ریاست کے والی کی حیثیت منسوخ کر دی گئی۔ ریاستِ سوات کے ولی عہد میاں گل اورنگ زیب جو سابقہ صدر پاکستان محمد ایوب خان کے داماد تھے محض ٹائٹل کے حوالے سے والیٔ سوات کہلاتے رہے۔ میاں گل اورنگ زیب شمالی مغربی سرحدی صوبہ (حالیہ خیبرپختونخوا) اور بلوچستان کے گورنر رہنے کے علاوہ دو بار مغربی پاکستان اسمبلی اور تین بار قومی اسمبلی کے ممبر رہے۔ سفید محل کی ملکیت میاں گل اورنگ زیب کے بعد میاں گل عامر زیب کے پاس رہی اور بعد ازاں ان کے بیٹے میاں گل اسفند یار عامر زیب کے پاس چلی گئی۔ میاں گل اسفند یار عامر زیب 28 دسمبر2007ء کو طالبان کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔ یہ سوات میں طالبان کے ہاتھوں کسی بڑی شخصیت کا پہلا قتل تھا۔ بعد میں حالات بہت ہی خراب ہو گئے۔ سوات نے اپنی تاریخ کا بدترین دور 2009ء اور 2010ء کے دوران دیکھا۔ سیرینا سوات میں صبح ناشتہ کرتے ہوئے میں نے گزشتہ تین عشروں سے زیادہ عرصے سے سیریناہوٹلز کے ساتھ وابستہ اقبال سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ ان دنوں یہیں رہے تھے یا چلے گئے تھے؟ اس نے بتایا کہ 2009ء کا سال تو کسی نہ کسی طرح ادھر ہی گزارا مگر پھر 2010ء میں ہم ہوٹل بند کر کے اسلام آباد چلے گئے اور حالات ٹھیک ہونے کے بعد واپس آ ئے۔ اب الحمد للہ حالات ٹھیک ہیں۔
میری منزل ِمقصود تو کالام کا میدانی جنگل تھا۔ پہلی بار اس جنگل کو 1979ء میں دیکھا لیکن 1986ء میں جب میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ادھر آیا تو کالام سے پیدل ہم ادھر آ جاتے اور گھنٹوں اس جنگل میں بیٹھ کر یا گھوم کر گزار دیتے۔ ایسا سکون‘ خاموشی‘ شانتی اور ٹھہراؤ کہ تصور سے باہر۔ سینکڑوں سال پرانے چیڑ کے درخت۔ بے تحاشا اور لاتعداد۔ بلند ایسے کہ محاورے کے مطابق اوپر دیکھیں تو پگڑی گر جائے۔ دن بھر پرندوں کی چہچہاہٹ اور شام ڈھلے جھینگروں کی آوازیں۔ پہاڑوں کی ڈھلوانوں اور ترائیوں میں لگے ہوئے جنگل دیکھنے کا بارہا اتفاق ہوا مگر اس طرح کسی مسطح زمین پر اس طرح کے گھنے جنگل کو دیکھنے کا اس سے پہلے کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ گڑھی حبیب اللہ کے پاس بٹراسی اور شوگران کی بغل میں کوائی کا جنگل‘ لیکن کالام کا یہ جنگل! یہ اپنی نوعیت کا انوکھا ہی جنگل تھا۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں