"KMK" (space) message & send to 7575

مغرب کی منافقت اور ہماری ناکام خارجہ پالیسی… (آخری حصہ)

طٰہٰ قریشی کو سابقہ ملتانی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے والد صاحب فیصل آباد سے ملتان آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ملتان کی مٹی ہی ایسی ہے کہ جو ایک بار آیا اس کا شیدائی اور اسیر ہو گیا۔ پھر برطانیہ چلے گئے مگر ملتان سے ناتا ایسا قائم ہے کہ ایک گھر ملتان میں بنا رکھا ہے اور پاکستان آئیں تو ملتان میں ہی قیام کرتے ہیں۔ برطانیہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلے تعلیمی ادارہ بنایا لیکن آج کل "FIRD" یعنی فرد کے نام سے ایک تنظیم چلا رہے ہیں جو Forum for International Relation Development کا مخفف ہے۔ وہ برطانیہ میں پاکستان کے حوالے سے مختلف فورمز پر اپنی محبت کا ثبوت دیتے رہتے ہیں مگر ان کی اصل پہچان خاتم النبیینﷺ سے محبت ہے۔ وہ ختمِ نبوت کے حوالے سے ہمہ وقت متحرک اور کوشاں رہتے ہیں اور قادیانیوں کی پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں کے سدباب کے لیے اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تعلیمی اور فلاحی خدمات کے اعتراف میں ملکہ برطانیہ نے انہیں MBE یعنی ممبر آف دی آرڈر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز عطا کیا۔ میری ان سے محبت کی بنیاد صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور عاشقِ رسولﷺ ہیں۔ ملتان میں ان کے آنے کی اطلاع اور پھر ان سے مل بیٹھنے کا اہتمام بھائی جان کے ذمے ہیں۔ ہمارے یہ بھائی جان محض اعزازی خطاب کی حد تک بھائی جان ہیں وگرنہ شوکت اشفاق میرا کالج فیلو اور بے تکلف دوست ہے۔ خدا اسے خوش رکھے‘ یہ آدھے شہر کا بھائی جان ہے۔
طٰہٰ قریشی بتا رہے تھے کہ وہ اس Fabricated رپورٹ کے خلاف برطانیہ میں بھی مہم چلا چکے ہیں۔ یہ لفظ Fabricated یعنی خود ساختہ اس لیے استعمال کیا ہے کہ اس رپورٹ کے اکثر مندرجات جھوٹ، کذب اور بے بنیاد الزامات پر مشتمل ہیں‘ مثلاً اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں کے ایک خاص فرقے (اس کو قادیانی نہ سمجھا جائے کیونکہ قادیانی مسلمانوں کا فرقہ نہیں بلکہ غیر مسلم اقلیت ہے) کو اعلیٰ ملازمتوں، عہدوں اور ریاستی ذمہ داریوں پر فائز نہیں کیا جاتا۔ جواباً طٰہٰ قریشی نے ایک سیمینار میں اسی فرقے سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ سرکاری سول و ملٹری افسران، صوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان، وزرا، وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم تک کا نام لے کر اس پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا۔ اسی رپورٹ میں مانچسٹر کے سابقہ میئر افضل خان‘ جو مانچسٹر سٹی کونسل کی سات سو سالہ تاریخ میں پہلے مسلمان میئر تھے اور بعد ازاں ممبر پارلیمنٹ رہے‘ کا بیان بھی شامل تھا جو انہوں نے دیا تک نہیں تھا، مگر ایک خود ساختہ بیان کو اس رپورٹ کا حصہ بنا دیا۔ اس رپورٹ کے آخر میں نتیجہ اخذ کرتے ہوئے پاکستانی حکومت سے جو مطالبات کیے گئے وہ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ اس رپورٹ کے پیچھے بھارتی اور قادیانی لابیاں سرگرم عمل ہیں۔ اس رپورٹ میں ریاستِ پاکستان کی جانب سے انتہا پسندی کی ترویج روکنے کے لیے ایک مطالبہ یہ تھا کہ آئینِ پاکستان میں کی جانے والی دوسری ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا جو آرٹیکل 260(3) شامل کیا گیا ہے‘ اسے ختم کیا جائے۔ اب بھلا اس سے زیادہ واضح دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس رپورٹ کا ماحصل قادیانیوں کو پاکستانی آئین کے تحت قرار دیئے گئے غیر مسلم کے سٹیٹس سے نکال کر انہیں دوبارہ 17 ستمبر 1974 سے پہلے کے مرتبے پر لے آنا ہے۔ اس رپورٹ پر پاکستانی حکومت، وزارت خارجہ اور خاص طور پر برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے مکمل خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔ دال میں آخر کچھ تو کالا ہے جو ہر چوتھے دن کوئی نہ کوئی اس قسم کی حرکت سامنے آ جاتی ہے۔
طٰہٰ قریشی نے مزید بتایا کہ وہ اس رپورٹ کے مندرجات اور سفارشات کو حقائق و شواہد کی روشنی میں رد کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کی جانب سے کسی عملی اقدام کے منتظر رہے مگر ایسا کوئی رد عمل سامنے نہ آیا۔ جب وہ پاکستان آئے تو اس سلسلے میں حکومت کو متحرک کرنے کی غرض سے وزارت خارجہ کے بہت ہی اونچے درجے کے ذمہ دار سے ملے۔ اب اس کا نام کیا لکھنا اور عہدہ کیا بتانا؟ اگر یہ لکھ دیں کہ وہ وزارت خارجہ کے مدارالمہام ہیں تو ظاہر ہے سب کا شک وزیر خارجہ پر جائے گا اور اگر سب سے بڑا افسر لکھ دیں تو شک کسی اور پر چلا جائے گا‘ لہٰذا نام اور عہدہ رہنے دیں۔ بس یہ جان لیں کہ وہ شخصیت اور عہدہ بہت بڑا تھا۔ اس سے ملے اور ساری تفصیل عرض کرتے ہوئے حکومت پاکستان، وزارت خارجہ اور پاکستانی ہائی کمیشن برطانیہ کو اس گمراہ کن رپورٹ کا توڑ کرنے اور اس کے جھوٹے مندرجات کو حکومتی سطح پر رد کرنے کی پالیسی بنانے پر زور دیا۔ جواباً ان صاحب نے دو بڑے افسران کو دفتر میں طلب کیا اور انہیں کہا کہ یہ طٰہٰ قریشی صاحب ہیں۔ آپ ان کا مسئلہ سنیں اور اس کا کوئی حل نکالیں۔ طٰہٰ قریشی کہنے لگے: میں حیران و پریشان رہ گیا کہ بھلا میرا کیا مسئلہ ہے؟ میں نے کہا: جناب! یہ میرا ذاتی نہیں، ریاستِ پاکستان کی ساکھ کا مسئلہ ہے۔ مجھے ذاتی طور پر تو اس سارے معاملے میں کوئی نقصان نہیں، ہاں! البتہ طٰہٰ قریشی کو بطور مسلمان اور بطور ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری اس رپورٹ پر شدید اعتراض ہے۔ یہ ریاست پاکستان اور آئین پاکستان پر حملہ ہے اور میں آپ لوگوں کو آپ کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے آیا ہوں اورآپ اسے میرا مسئلہ کہہ رہے ہیں۔
وزارت خارجہ غنودگی میں ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا معاملہ ہو یا برطانیہ میں کورونا کے باعث پاکستان کا غلط طور پر ریڈ لسٹ میں ہونے کا معاملہ‘ وزارت خارجہ کے بابو لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ اوپر سے بھارت نے پاکستان کو یورپ میں حاصل جی ایس پی پلس کے سٹیٹس سے نکلوانے کے لیے پورا زور لگا رکھا ہے۔ اس سٹیٹس کے حصول کے لیے کتنی بھاگ دوڑ کی گئی تھی اور کتنا زور لگایا گیا تھا‘ وہ سب ضائع ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کو یہ سٹیٹس اگلے سال یعنی 2022 تک حاصل ہے۔ بھارت پورا زور لگا رہا ہے کہ وہ پاکستان کو یورپ میں حاصل اس تجارتی سہولت اور خصوصی درجے سے نکلوا دے۔ یہ پاکستان کی اقتصادی ناکہ بندی کرنے کے مترادف ہے جو بھارت پاکستانی ایکسپورٹ کو نقصان پہنچا کر کرنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف گزشتہ دنوں ملتان میں شاہ محمود قریشی گورنمنٹ گرلز ہائی سکول پرانی چاند ماڑی یونین کونسل 62 کی اپ گریڈیشن کی تقریب میں مدعو تھے جہاں آخر میں بڑی بدمزگی ہوئی۔ وہاں ایک شخص عبدالخالق نے اٹھ کر الزام لگایا کہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہمہ وقت رہنے والے ملک صدام نے‘ جو اس وقت بھی ان کے ہمراہ یہاں تقریب میں موجود ہے‘ اس سے نوکری کا جھانسہ دے کر پانچ لاکھ روپے بٹور لیے ہیں اور اب نہ نوکری کا لیٹر دے رہا ہے اور نہ ہی پیسے واپس کر رہا ہے۔ یہ سن کر عرفان سیال نام کا ایک اور شخص بھی اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ ملک صدام نے اس سے ویزے لگوانے کا وعدہ کر کے مبلغ نو لاکھ اینٹھ لیے ہیں۔ ان الزامات پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ قریشی صاحب نے ساتھ موجود ملک صدام سے پوچھ تاچھ کرنے یا متاثرین کو پیسے واپس لے کر دینے کی یقین دہانی کروانے کے بجائے الٹا ان کو ڈانٹا کہ انہوں نے ملک صدام کو پیسے کیوں دیئے ہیں؟ اس کے بعد وہ ملک صدام کے ہمراہ وہاں سے شتابی میں رخصت ہو گئے۔ وہ خود تو چلے گئے مگر پیچھے افواہوں کا ایک جمعہ بازار چھوڑ گئے۔ اب سمجھ آئی کہ ہماری وزارت خارجہ کن کاموں میں مصروفیت کے باعث ناکامی سے دوچار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں