"KMK" (space) message & send to 7575

ایک سوال جس کا جواب درکار ہے!

کچھ تو کالم نویس کو خود یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ اسے ہر بات کا علم ہے، ہر چیز کا پتا ہے اور وہ صرف اپنا تجزیہ، نتیجہ اور فیصلہ سنا سکتا ہے۔ اوپر سے قارئین بھی اس سے یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ جس موضوع پر بھی لکھے اپنا حتمی اور آخری فیصلہ ضرور سنائے؛ تاہم میرا خیال ہے کہ کالم نویس کا کام صرف تشنہ سوالات کے جوابات دینا اور ہر بات کا نتیجہ نکالنا نہیں بلکہ سوالات اٹھانا بھی ہے۔ صحت مند مباحثہ بہت سے غیر حل شدہ معاملات کا حل نکالتا ہے۔ ہم عموماً اس طرف جاتے ہی نہیں اور اپنے تبحرِ علمی کا رعب ڈالنے کے زعم میں سوال اٹھانے سے گریز کرتے ہیں اور اپنے علم میں اضافہ محض اس لیے نہیں کر پاتے ہیں کہ ہمیں اپنے بارے میں علم کُل ہونے کی خوش فہمی ہوتی ہے۔
آج کل ایک سوال بہت زوروں پر ہے کہ امریکہ اس طرح افراتفری میں اپنا بوریا بستر اٹھا کر افغانستان سے کیوں بھاگا ہے؟ یہ سوال کافی اہم ہے اور ابھی اس کا حتمی جواب تلاش کرنے میں وقت لگے گا۔ چیزیں آہستہ آہستہ کھلیں گی؛ تاہم اس گرما گرم سوال پر ڈھیرم ڈھیر تجزیے اور جائزے آنا شروع ہوگئے ہیں اور ایک عرصہ تک چلیں گے۔ حقائق آہستہ آہستہ اپنے چہرے سے پردہ ہٹائیں گے اور بہت سی خوش فہمیاں اور غلط فہمیاں دور ہوں گی لیکن جیسا کہ میرا خیال ہے ابھی اس میں وقت لگے گا۔ میرا سوال اس کے بالکل الٹ ہے۔ میرا سوال نہ تو افغانستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں ہے اور نہ ہی امریکہ کی تازہ تازہ ہزیمت و پسپائی یا طالبان کی کامیابی سے متعلق ہے‘ بلکہ میرا سوال تو بیس سال پرانی حکمت عملی کے متعلق ہے۔ میرا سوال بڑا سادہ سا ہے کہ آخر امریکہ افغانستان میں آیا کیوں تھا؟
ایمانداری کی بات ہے کہ میں یہ سوال گزشتہ کئی ماہ سے اپنے دوستوں سے، محفلوں میں موجود شرکا اور دانشوروں سے کر چکا ہوں لیکن میں یہ بات شرح صدر سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے کسی جواب نے مطمئن نہیں کیا۔ اب خدانخواستہ اس سے یہ مطلب نہ نکال لیا جائے کہ اگر مجھے کسی جواب نے مطمئن نہیں کیا تو میرے پاس شافی یا تسلی بخش جواب موجود ہے۔ میرا سوال اب بھی تشنہ ہے اور مجھے اپنے اس سوال کا جواب اب بھی درکار ہے۔ آخر بیس سال پہلے امریکی افغانستان میں کیوں آئے تھے؟ انہیں افغان تاریخ کا‘ برطانیہ کی ''چھترول‘‘ کا‘ روس کی شکست کا، افغانستان کے جغرافیے کا اور افغانوں کی طبیعت کا علم تھا۔ ہر کام کی تفصیلی تحقیق و تفتیش اور اعلیٰ پائے کے ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینکس کی مدد و تعاون سے اپنی پالیسی بنانے والوں نے کیا سوچ کر افغانستان میں آنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کے پیچھے وہ کیا محرکات تھے جو امریکہ کے افغانستان میں آنے کا باعث بنے اور وہ کیا منصوبے تھے جن کی تکمیل کے لیے امریکہ نے افغانستان کی دلدل میں پائوں دھرنے کا فیصلہ کیا؟
آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں یہ سوال بہت سے دوستوں سے کر چکا ہوں۔ مجھے اس کے درجنوں مختلف جواب بھی ملے ہیں لیکن میری ان جوابات سے تسلی نہیں ہوئی۔ میرے اس سوال کے جواب میں وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ ایسا ہے کہ نہ دل کو لگتا ہے اور نہ دماغ کو۔ ان کے جوابات سے یہ تشنہ سوال مزید بے چینی کا سبب بنتا ہے۔ سوال تو یہی ایک ہے کہ امریکہ افغانستان کیوں اور کیا لینے آیا تھا؟ بظاہر اس کے جوابات کافی زیادہ ہیں۔ مثلاً یہ کہ امریکہ نے نائن الیون کا بدلہ لینے کی غرض سے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اب اس جواب سے مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نائن الیون کے بدنام زمانہ حملوں میں ایک بھی افغان شامل نہیں تھا اور نہ ہی حملہ آور افغانستان سے گئے تھے۔ حملہ آوروں کا کھرا افغانستان میں نہیں تھا۔ سارے کے سارے مبینہ حملہ آور عرب تھے اور امریکہ میں رہائشی تھے یا عرب ممالک سے گئے تھے۔ ان کا افغانستان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں تھا۔ تو پھر امریکہ افغانستان پر کیوں چڑھ دوڑا؟ اگر ایسا تھا بھی تو اس کے جواب میں فوری طور پر افغانستان پر امریکی بمباری، ٹام ہاک میزائلوں سے اندھا دھند حملے، ڈیزی کٹر بم، حتیٰ کہ بائیس ہزار پائونڈ وزنی ''مدر آف آل بمز‘‘ (GBU-438/B) جو ایٹم بم کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اور ہلاکت خیز بم ہے‘ افغانستان پر آزما لیا۔ تورابورا کا بھورا بھورا کر دیا۔ طالبان کے ٹھکانے برباد کر دئیے۔ ڈرونز حملوں سے اپنے اہداف کو فلوریڈا سے کنٹرول کرکے نشانہ بنا لیا۔ ایسی صورت میں اسے افغانستان آکر اس مصیبت میں پھنسنے کی کیا ضرورت تھی؟ جب وہ اپنے یہی سارے مقاصد شمسی ایئرپورٹ، خلیج میں اپنے اڈوں اور بحرہند میں کھڑے اپنے جنگی بحری جہازوں سے اڑنے والے جہازوں اور داغے جانے والے میزائلوں سے پورے کر سکتا تھا، تو اسے افغانستان میں دو کھرب ڈالر سے زائد رقم ضائع کرنے کی، ساڑھے تین ہزار فوجی مروانے کی، بیس سال تک مسلسل خوار ہونے کی اور بالآخر ذلیل ہونے کی کیا ضرورت تھی؟
ایک دوست نے کہا کہ امریکہ یہاں اپنے اڈے قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس سے پوچھا: پھر بیس سال میں کتنے اڈے قائم ہوئے؟ افغانستان سے کتنی مہمات اردگرد کے ممالک کو بھیجی گئیں؟ افغانستان سے کتنے طیاروں نے اڑ کر عراق پر حملہ کیا؟ ایک دانشور دوست نے سوال دے مارا کہ آخر امریکہ نے عراق پر کیوں حملہ کیا تھا؟ میں نے کہا: عراق پر حملے کا واحد مقصد یہ تھا کہ عراق کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کو ختم کر دیا جائے کیونکہ طاقتور عراق اسرائیل کے لیے خطرہ تھا اور اسرائیل کو کوئی گزند پہنچے، یہ امریکہ اور مغربی ممالک کو کسی صورت منظور نہیں۔ اوپر سے تیل کی لوٹ مار ایک اضافی نفع تھا۔ ایک دوست کہنے لگا: امریکہ افغانستان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے آیا تھا، میں نے سوال کیا: کون سے قدرتی وسائل؟ تھوڑی روشنی ڈالیں تو جواباً خاموشی سے پالا پڑا۔ میں نے پوچھا کہ آخر ویتنام کے بعد امریکہ کو ایک اور ویتنام میں پھنسنے کی کیا آن پڑی تھی؟ جواب ملا: ویت نام میں امریکہ کی جنگ کسی نظریاتی کشمکش کی بنیاد پر نہیں تھی جبکہ افغانستان میں وہ اسلام کو نشانہ بنانے آیا تھا۔ میں نے کہا: کون کہتا ہے کہ ویتنام میں ہونے والی جنگ نظریاتی تصادم نہیں تھا‘ تب یہ امپیریلزم اور کمیونزم کی جنگ تھی۔ امریکہ ہمہ وقت کوئی نہ کوئی دشمن تخلیق کرتا رہتا ہے تا کہ اس کی جنگی مشین کام کرتی رہے۔ آج امریکہ ویت نام کا سب سے بڑا بزنس پارٹنر ہے۔
ایک دوست کہنے لگا: امریکہ نے افغانستان سے چین وغیرہ کی نگرانی کرنی تھی۔ میں نے کہا: یہ کام بغیر لڑے بھڑے، بنا اپنے فوجی مروائے اور دو کھرب ڈالر خرچ کیے بغیر بڑی صلح صفائی سے ازبکستان، تاجکستان وغیرہ میں اڈے بنا کر حاصل کر سکتا تھا۔ اس جنجال اور مصیبت میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی جس کا انجام رسوائی نکلا؟ ایک اور سمجھدار نے کہا: یہ دراصل سی پیک کی نگرانی کیلئے تھا۔ میں ہنسا اور کہا کہ مصنوعی سیاروں سے ہمارے گھر کے صحن میں گھومنے والی مرغی کے چوزوں کی تعداد گننے پر قادر سیٹلائٹ نظام اور ملک کے اندر موجود اپنے ان گنت وفادار مخبروں اور جاسوسوں کے ہوتے ہوئے اسے افغانستان کی کیا ضرورت تھی؟
کل دوستوں نے میرے اس سوال سے تنگ آ کر مجھ سے پوچھا کہ پھر تم ہی بتائو کہ اس کے پیچھے اصل وجہ کیا تھی؟ میں ہنسا اور ان سے کہا، آپ کا کیا خیال ہے؟ میں آپ سے کوئی کسوٹی کھیل رہا تھا؟
قارئین! ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اپنے اس سوال کا واقعتاً کوئی ایسا جواب درکار ہے جو مجھے افغانستان میں امریکی آمد کے مقصد بارے مطمئن کر سکے۔ انسان ایک دوسرے سے سیکھتا ہے اور ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل ہی علمی جمود کا توڑ ہے اور زندگی ہمہ وقت رواں رہنے کا نام ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں