"KMK" (space) message & send to 7575

نیا پنڈورا بکس

ہمارے ایک دوست ہیں‘ اللہ انہیں سدا خوش رکھے‘ ہمیشہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر بندے کو تھانیدار بننے کا اور تھانیداری کرنے کا شوق ہے۔ پہلی بار تو ہمیں ان کی بات پوری طرح سمجھ ہی نہ آئی کہ ان کی اس بات سے کیا مراد ہے۔ وضاحت مانگی تو فرمانے لگے: دراصل تھانیدار ہونا مطلق اختیارات کو پوری طاقت اپنی خواہش کے مطابق استعمال کرنے کا نام ہے۔ یہاں ہر شخص تھانیدار بن کر اختیارات کو ان کی آخری حد تک جا کر از خود استعمال کرنا چاہتا ہے۔ عالم یہ ہے کہ تھانے میں موجود تھانیدار تو ہے ہی تھانیدار‘ اس ملک میں چپڑاسی سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک تھانیدار بننا چاہتا ہے۔ ایس پی حتیٰ کہ آئی جی پولیس تک تھانیدار بننا چاہتاہے۔ منصف بھی تھانیدار بننا جاہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ تو رہا ایک طرف‘ وزیراعظم تک تھانیدار بننا چاہتا ہے اور تمام تر آئینی بے اختیاریوں کے باوجود صدر مملکت کے دل میں بھی تھانیدار بننے کی خواہش انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں ہر شخص مطلق العنانی‘ بے پناہ اختیارات اور انہیں استعمال کرنے کیلئے بے چین ہے۔ میں اس فہرست کو اور بھی طویل کر سکتا تھا مگر پھر سوچا کہ بہتر ہے اس فہرست کو مختصر کرنے کیلئے ایڈیٹر کو تکلیف نہ دی جائے کوئی کام خود بھی کر لیا جائے۔
ہمارے جمہوری حکمران ہمہ وقت آمریت کے لتے لیتے رہتے ہیں اور آمروں پر نکتہ چینی کرتے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ جب موقع پڑتا ہے تو وہ سکہ بند قسم کے آمروں سے زیادہ مطلق العنانی کی خواہشات کے اسیر نظر آتے ہیں اور اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کیلئے قواعد و ضوابط کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں یا کم از کم من مانی کرنے کی کوششیں ضرور کرتے ہیں کوئی سر پھرا ان کی راہ میں رکاوٹ بن جائے اور ان کی دلی مراد پوری نہ ہونے دے تو یہ علیحدہ بات ہے وگرنہ حال یہ ہے کہ کوئی حکمران اس ملک کو مغلیہ بادشاہ بن کر چلانا چاہتا ہے اور کوئی اسے اپنی کپتانی کے دور میں چلائی جانے والی ٹیم کی مانند چلانا چاہتا ہے۔ درمیان میں رکاوٹ کھڑی کر دے‘ مشکل پیدا کر دے یا قانونی چارہ جوئی کر کے لامحدود خواہشات والی حکمرانی کے آگے بند باندھ دے تو دوسری بات ہے وگرنہ دلی خواہشات تو ایسی ہیں کہ ہٹلر‘ مسولینی‘ نپولین‘ سٹالن اور شاہ بوکاسا کی روح بھی شرمندہ ہو جائے۔
دور کیا جائیں ابھی تازہ تازہ مسئلہ دیکھ لیں۔ یہ افغانستان سے آنے والے امریکی‘ یورپی اور دیگر غیر ملکیوں کے علاوہ امریکہ‘ برطانیہ اور اتحادی افواج کے مخبر اور معاون افغانوں کی ٹرانزٹ کا معاملہ ہے۔ ہزاروں لوگ افغانستان سے نکل کر دنیا بھر میں جانے کے منتظر ہیں اور ان کو وہاں سے نکال کر کسی قریبی ملک میں لانا اور وہاں سے آگے بھیجنا ایک پیچیدہ اور مشکل مرحلہ ہے۔ اتنے زیادہ لوگوں کو کسی ملک میں لانا‘ ان کی مانیٹرنگ کرنا اور انہیں غائب ہونے سے بچانے کا پورا میکنزم طے کرنا ایک نہایت ہی الجھا ہوا اور نازک طریقہ کار ہے جسے نہایت غور و خوض اور باریک بینی سے بنایا جانا اور اس پر عمل کرنے کے لئے ایک پورا نظام وضع کرنا ضروری ہے لیکن ہوا کیا؟ اللہ جانے کس نے ہم سے درخواست کی (یہ بھی میری خوش گمانی ہے۔ ممکن ہے حکم ہی ملا ہو) اور کیا مطالبات کئے؟ تاہم ہم نے اس درخواست کو بھی تقریباً اسی طرح مان لیا جس طرح ہمارے صدر پرویز مشرف نے آدھی رات کو آنے والی رچرڈ آرمٹیج کی کال پر سارے مطالبے مان لئے تھے۔
کیا عجیب صورتحال ہے کہ جب کسی نے اڈوں کیلئے درخواست ہی نہیں کی تھی ہم نے نہایت ہی بہادرانہ انداز میں نعرہ مستانہ بلند کیا اور کہا ''Absolutely Not‘‘یعنی ''قطعاً نہیں‘‘۔ جب ادھر سے مطالبہ ہوا تو ہم نے نہایت ہی خاموشی اور تابعداری سے کہا۔ جی حضور ''Absolutely Yes!‘‘۔ ہم ہر خدمت کیلئے حاضر ہیں۔ جب مطالبہ ہی نہیں ہوا تھا ہم نے صاف انکار کر دیا اور جب مطالبہ ہوا تو ہم نے فوراً ہاں کر دی۔ ابھی تک سب کچھ پردہ غائب میں ہے کہ ہم سے درخواست یا مطالبہ کرنے والا کون تھا۔ کس درجے کے امریکی افسر نے ہمارے کس درجے کے حامل شخص سے بات کی۔ اس کی منظوری کس نے دی؟ یہ امریکی مطالبہ کس حکومتی فورم پر پیش ہوا اور اس پر کیا بحث ہوئی؟ اتنا اہم معاملہ اول تو پارلیمنٹ میں پیش ہونا چاہئے تھا؛ تاہم اگر پارلیمنٹ میں پیش نہ بھی ہوتا تو کابینہ میں تو ہر حال میں پیش ہونا چاہئے تھا۔ دنیا بھر میں عزت و آبرو کی حامل اقوام میں ایسے فیصلے بند کمروں یا فرد واحد نہیں کرتے بلکہ قوم کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ چلیں قوم کو تو چھوڑیں کم از کم اسے کسی حکومتی فورم پر تو زیر بحث لایا جاتا تا کہ دنیا کو پتا چلتا کہ ہم ایک مقتدر ریاست سے بات کر رہے ہیں جو ہمارے مطالبے کو فوری طور پر تسلیم کرنے کے بجائے اپنے قومی اور جغرافیائی مفادات کو سامنے رکھ کر کسی قاعدے ضابطے کے تحت کر رہی ہے مگر تقریباً وہی ہوا جیسے بیس سال قبل امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ کی کال پر پرویز مشرف کے چھکے چھوٹ گئے تھے۔ اس بار تو گمان ہے کہ کال ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ سے بھی کہیں نچلے درجے کے امریکی اہلکار نے کی ہوگی۔ حالانکہ اس موقع پر اور کچھ بھی نہ حاصل کیا جاتا؛ تاہم ہم صدر جوبائیڈن کو کال کرنے پر مجبور کر کے اپنی دلی خواہش پوری کر سکتے تھے‘ مگر ہم سدا کے نہایت ہی نکمے سودے باز رہے ہیں۔ اس بار بھی کوئی ڈھنگ کی سودے بازی نہ کر سکے۔
جب عمران خان صاحب نے بلامطالبہ ہی Absolutely Not کا شہرہ آفاق جملہ بولا تو دو چار دن بعد ہمارے پیارے شیخ رشید نے فرمایا کہ جو بہادری عمران خان نے دکھائی ہے کاش پرویز مشرف نے بھی ایسی بہادری دکھائی ہوتی۔ حالانکہ شیخ رشید اگر اس وقت بہادری دکھاتے تو پرویز مشرف کو دلیر بننے کا درس دے کر حق گوئی کا مظاہرہ کر سکتے تھے مگر وہ تب سچ بولنے کے بجائے وزارتوں کے مزے لیتے رہے۔ ہمارے حکمرانوں‘ وزیروں اور مشیروں کو مکا جنگ کے اور بہادری وقت گزرنے کے بعد یاد آتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور میں واشنگٹن کے سفارتخانے نے پاکستان آنے والے امریکی ایجنٹوں‘ کنٹریکٹروں‘ بلیک واٹر کے کرائے کے قاتلوں اور مشکوک قسم کے امریکیوں کو بلاتصدیق اور بلا تحقیق دھڑا دھڑ ویزے جاری کئے۔ اس بات پر بعد میں شور بھی اٹھا مگر اب کی بار کیا ہوگا؟ کیا کسی کو علم ہے کہ جن کو ویزے دیے جائیں گے وہ کون ہیں؟ جب وہ پاکستان ہی آ گئے تو پھر ویزے کے قواعد و ضوابط‘ طریقہ کار اور تحقیق کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ یہ ساری چیزیں تو ملک میں داخلے سے قبل جاری ہونے والے ویزے کیلئے ہوتی ہیں۔ جب کوئی شخص بغیر ویزے کے اسلام آباد‘ لاہور یا کراچی آ جاتا ہے تو پھر اس سے کسی قسم کی پوچھ گچھ کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟ یہ سب لوگ ہمارے نہیں‘ امریکی اور مغربی افواج اور ان کے مفادات کے محافظ اور معاون تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت کے دوران بھارت سے تعاون کرتے تھے اور ان کی ساری تگ و دو پاکستان کے خلاف کئے جانے والے اقدامات پر مشتمل تھی۔ اب یہ سب مشکوک‘ دو نمبر اور بھارت سے تعاون کرنے والے لوگ بلاتحقیق و تفتیش پاکستان آ رہے ہیں۔ ہمارا سکیورٹی نظام جس حد تک فول پروف ہے اس کا سب کو علم ہے۔ جہاں سیف سٹی پروجیکٹ پر اربوں روپے صرف ہونے کے بعد جب بھی کوئی وقوعہ ہو جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہاں کے سارے سی سی ٹی وی کیمرے خراب تھے بھلا وہاں ان تیز طرار اور منجھے ہوئے غیر ملکی ایجنٹوں کی رکھوالی کون کرے گا؟ اللہ ہم پر رحم کرے یہ ایک نیا پنڈورا بکس ہے جو اگر ایک بار کھل گیا تو ہمارے حکمرانوں سے تو بند نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں