"KMK" (space) message & send to 7575

صوفوں کی تبدیلی

گلوری نامی بحری جہاز کا کپتان فلپ عرشے سے نچلے ڈیک پر پہنچا جہاں جہاز کے سارے ملاح پسینے سے شرابور خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ جہاز کے نچلے ڈیک پر ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ غالباً یہ جہازیوں کو تو محسوس نہیں ہو رہی تھی کیونکہ وہ بڑے مزے اور سکون سے بیٹھے ہوئے تھے۔ کپتان اوپر کھلی فضا سے آیا تھا لہٰذا اسے یہ بدبو زیادہ محسوس ہوئی۔ اس نے ناک کو دو تین بار سکیڑا اور اچھی طرح تفتیشی انداز میں چار پانچ بار فضا کو سونگھ کر اندازہ لگایا کہ بو کہاں سے اور کس وجہ سے آ رہی ہے۔ اس نے تمام ملاحوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جانگیے گندے ہو چکے ہیں اور ان کی وجہ سے سارے ڈیک پر بدبو پھیلی ہوئی ہے۔ اس نے تمام ملاحوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے گندے جانگیے تبدیل کریں۔ وہ کل ان کی انسپکشن کے لئے دوبارہ ڈیک کا دورہ کرے گا اور حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف تادیبی کارروائی کرے گا۔
اگلے روز کپتان فلپ نیچے ڈیک پر آیا تو بدبو اسی طرح پھیلی ہوئی تھی بلکہ آج تو بدبو کل کی نسبت تھوڑی زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ پہلے پہل تو کپتان کو لگاکہ شاید اس کا بدبو کے مخرج کے بارے میں اندازہ غلط ثابت ہوا ہے اور اس کا منبع گندے جانگیے نہیں کچھ اور ہے، تاہم اس نے مناسب سمجھاکہ وہ اپنے ملاحوں سے ان کے جانگیوں کے بارے میں بھی دریافت کرلے۔ اس نے تمام ملاحوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ نچلے ڈیک میں بدبو اسی طرح پھیلی ہوئی ہے کیا انہوں نے اپنے جانگیے تبدیل کئے ہیں؟ سب نے یک زبان ہوکر کہا: جی سر! ہم نے آپ کے حکم کے عین مطابق جانگیے تبدیل کر لئے ہیں۔ یہ سن کر کپتان نے سامنے بیٹھے ہوئے ملاحوں سے کہاکہ وہ انفرادی طور پر بتائیں‘ کس کس نے جانگیہ تبدیل کیا ہے۔ ملاح رچرڈ نے کھڑے ہوکر بتایا کہ اس نے اپنا جانگیہ وکٹر سے تبدیل کیا ہے۔ ملاح ڈیوڈ نے بتایاکہ اس نے اپنا جانگیہ ایلن سے تبدیل کیا ہے۔ ہیری نے بتایاکہ اس نے اپنا جانگیہ پیٹرسے تبدیل کیا ہے۔ اولیور نے بتایا کہ اس نے اپنا جانگیہ بھی کپتان کے حکم کے مطابق جارج سے تبدیل کرلیا ہے۔ اللہ جانے اس کے بعد کیا ہوا۔ راوی حسب معمول اتنی بات بتاکر ہی خاموش ہوگیا ہے۔ باقی آپ خود ہی اندازہ لگا لیں تو بہتر ہوگا۔
جب ہمارے ہاں کابینہ کی غیرتسلی بخش کارکردگی کی بنیاد پر وزرا کے قلمدان آپس میں تبدیل کئے جاتے ہیں تو مجھے درج بالا واقعہ دوبارہ سے یاد آجاتا ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ جیہڑے ایتھے بھیڑے، اوہ لاہور وی بھیڑے (جو یہاں برے ہیں وہ لاہور جاکر بھی برے ہی رہیں گے) اب بندہ پوچھے کہ جو وزیر ایک وزارت میں ناکام ہے وہ دوسری وزارت میں کیا تیر چلائے گا جبکہ اسے علم اپنی پہلی وزارت کے معاملات کا بھی نہیں تھا اور نئی والی بھی اس کیلئے اتنی ہی اجنبی ہے۔ جو بندہ ایک وزارت میں مال پانی بنانے کے جرم میں دوسری وزارت کی ذمہ داری سنبھالے گا تو بھلا وہ وہاں بھی وہی کام نہیں کرے گا تو پھر کیا کرے گا؟ اسے یہی ایک کام آیا ہے جو وہ کر سکتا ہے تو پھر وزارت تبدیل کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟ سوائے اس کے کہ پہلے وہ یہ کام وزارت الف میں کرتا تھا اب وہ یہی کام وزارت بے میں کرے گا۔ بدبودار جانگیے لانڈری میں بھیجنے کے بجائے آپس میں تبدیل کئے جائیں تو بدبو کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ کسی کو ایک آدھ ماہ کا آرام دیا جاتا ہے اور پھر اسے نئی وزارت کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ کسی کو مرکز سے صوبے میں بھیج دیا جاتا ہے اور کسی کو صوبے سے مرکز میں۔ ہمارے ہاں تبدیلی اور گلوری نامی جہاز کے ملاحوں کے جانگیوں کی تبدیلی میں رتی برابر فرق نہیں۔
پنجاب میں عجیب سرکس لگی ہوئی ہے۔ صوبہ مبارک چل نہیں رہا اور ہمارے پیارے اور عزیز از جان عثمان بزدار صاحب دو چار مہینے بعد چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو تبدیل کرنے کی فرمائش لے کر اسلام آباد جاتے ہیں اور بچوں کی طرح مچل جاتے ہیں کہ بس اس بار بندے تبدیل کر دیں پھر دیکھیں میں کیا کرتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے مجھ میں تو بیشمار خوبیاں اور صلاحیتیں پیدا کی ہیں مگر یہ نااہل بیوروکریٹ مجھے چلنے نہیں دے رہے۔ ادھر اپنے اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے خان صاحب کا یہ عالم ہے کہ وہ بھی ہربار صوفہ تبدیل کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خرابی کو جڑ سے اکھیڑ دیا ہے اور اب صوبے کے معاملات بخیروخوبی چل پڑیں گے۔ ڈرائیور نیوٹرل میں کھڑی بس کا ایکسیلیٹر دبائے جارہا ہے۔ نہ اس سے گیئر لگ رہا ہے اور نہ سٹیرنگ سنبھالا جا رہا ہے اور گاڑی کا مالک ہے کہ کبھی کنڈیکٹر بدل دیتا ہے اور کبھی بس کا کلینر۔ کبھی اڈے میں کھڑے ہاکر کو بدل دیتا ہے اور کبھی کھڑکی میں بیٹھے ہوئے بکنگ کلرک کی چھٹی کروا دیتا ہے‘ حتیٰ کہ ہوسٹس بھی فارغ کر دیتا ہے اگر نہیں بدلا جاتا تو ڈرائیور کو نہیں بدلا جاتا جسے زور زبردستی سے ڈرائیونگ لائسنس تو جاری کروا دیا گیا ہے مگر جسے بس چلانی نہیں سکھائی۔ بھلا ایسی بس کس طرح چل سکتی ہے؟
قارئین! آپ کا کیا خیال ہے یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے اپنے بارے میں کوئی خوش فہمی ہوگئی ہے کہ اس کالم کے بعد سردار عثمان بزدار کو ہٹاکر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پر کوئی باصلاحیت وزیراعلیٰ متعین کر دیا جائے گا؟ آپ یقین کریں مجھے اس کا گمان چھوڑ شائبہ تک نہیں کیونکہ خان صاحب نے عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کو اپنے لئے اس طرح ناک کا مسئلہ بنا رکھا ہے‘ جس طرح ہمارے میاں شہباز شریف نے میٹرو بس ملتان کو اپنی عزت و آبرو کا مسئلہ بنا لیا تھا اور بلاضرورت اسے بنا کر ہی دم لیا۔ اسی طرح مجھے بھی ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ اول تو اس قسم کے کالم خان صاحب پڑھتے نہیں بلکہ اس قسم کے تو چھوڑیں وہ سرے سے ایسی فضولیات کے شدید خلاف ہیں اور اسے رتی برابر اہمیت نہیں دیتے تاہم یہ عاجز تو صرف اپنا فرض پورا کر رہا ہے۔
میٹرو سے محبت پر شہباز شریف کی یاد آئی تو یہ بھی یاد آیاکہ اسی پنجاب میں ان کے دور میں مسلسل تین چار سال تک ایڈیشنل چیف سیکرٹری رہنے والے میجر (ر) اعظم سلیمان جب ہمارے ہونہار اور باصلاحیت حالیہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ذاتی فرمائش پر پنجاب میں سیکرٹری لگائے گئے تو وہ محض پانچ ماہ میں ہی ان کے دل سے اترگئے اور یہ صوفہ تبدیل کردیا گیا۔ یاد رہے کہ اعظم سلیمان شہباز شریف کے گزشتہ دور میں تین چار سال تک سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو) رہے‘ یعنی تقریباً سات آٹھ سال میں محض دو پوسٹنگز۔ ادھر یہ عالم ہے کہ گزشتہ تین سال میں تین چیف سیکرٹری تبدیل ہو چکے تھے‘ دو روز قبل چوتھا بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ آئی جی پنجاب کا حال اس سے بھی برا ہے۔ دو روز قبل تک اس اہم پوسٹ پر پانچ لوگ تبدیل کئے جا چکے تھے۔ اب یہ سکور چھ ہو چکا ہے۔ سید کلیم امام کا عرصہ محض تین ماہ تھا۔ محمد طاہر نے تو ریکارڈ ہی توڑ دیئے۔ وہ صرف ایک مہینہ چار دن تک اس کرسی پر رونق افروز رہے۔ امجد جاوید سلیمی کی آئی جی شپ کا پھول چھ ماہ میں ہی مرجھا گیا۔ عارف نواز سات ماہ سے چند دن زیادہ نکال سکے۔ شعیب دستگیر کو نو ماہ بعد ہی سی سی پی او لاہور سے چپقلش لے ڈوبی۔ انعام غنی کو تو پنجاب کے آئی جی بنے ویسے بھی کافی عرصہ ہو گیا تھا۔ آپ یقین کریں انعام غنی کو آئی جی بنے پورا ایک سال ہوگیا ہے جبکہ جواد رفیق کا ریکارڈ بطور چیف سیکرٹری پنجاب موجودہ دور حکومت میں تو اتنا زیادہ ہوگیا تھاکہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونے کے قابل ہو چکا تھا۔ موصوف کو حیران کن حد تک چیف سیکرٹری بنے ہوئے پورا ایک سال چار ماہ اور تیرہ دن ہو گئے تھے۔ اتنے عرصے کے بعد تو بزدار صاحب کی فرمائش پر صوفہ تبدیل کرنا بنتا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں