"KMK" (space) message & send to 7575

شاہ جی اور نسیان کا مرض

شاہ جی بلا تکان حکومت کے خلاف بولے جا رہے تھے۔ حکومت پر گرنے والے نزلے کا اسی فیصد عمران خان اور بقیہ بیس فیصد ان کی ٹیم پر گر رہا تھا۔ کہنے لگے کہ خان صاحب نے جو نالائق ٹیم بھرتی کی ہوئی ہے اس کے سارے قصور، نا لائقیاں اور نا اہلیاں بھی خان صاحب کے کھاتے میں ہی گنی جائیں کہ ان ہیروں کا انتخاب بھی سو فیصد خان صاحب نے کیا ہے۔
میں نے پوچھا کہ اس خلاف معمول والے غصے کی کوئی خاص وجہ؟ شاہ جی کہنے لگے: یہ سارا قصور تمہارا ہے۔ میں نے کہا: قبلہ! بھلا میں نے کیا ایسا کیا ہے کہ آپ نے اس کا سارا الزام ہی اس حقیر پر عائد کر دیا۔ شاہ جی کہنے لگے: تمہارا قصور یہ ہے کہ میں بازار سے گروسری لے کر کے گھر جانے کے بجائے تمہارے پاس آ گیا ہوں، دالیں، گوشت، چکن، مسالے ‘ دو چار ٹن پیک آئٹم اور آئل وغیرہ مبلغ چودہ ہزار دو سو روپے میں آئے ہیں۔ کبھی اس سے زیادہ چیزیں چھ سات ہزار روپے میں آ جاتی تھیں۔ میں اس مہنگائی پر کڑھتا ہوا تمہارے پاس آیا کہ تم ٹھنڈا کرو گے مگر تم نے کافی پلا کر اندر کی گرمی کو مزید بھڑکا دیا۔ اب بتائو قصور تمہارا ہے یا میرا؟۔
میں نے معذرت کرتے ہوئے فوراً تسلیم کیا کہ سارا قصور میرا ہے اور کہا کہ بے شک آپ مہنگائی بھی میرے کھاتے میں ڈال دیں۔ شاہ جی کے چہرے پر تھوڑی سی مسکراہٹ آئی اور کہنے لگے: اب بہانے سے تم بھی اپنا شمار مافیا میں کروانا چاہتے ہو؟ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگے: اس ملک میں مہنگائی کرنے کا اختیار اور سہولت صرف مافیاز کو حاصل ہے۔ تم جیسے معمولی آدمی کی اتنی اوقات ہی نہیں کہ اس قسم کا بڑا اور ہمت والا کام کر سکے۔ تمہیں تو مجسٹریٹ پکڑ کر اندر کر دے گا۔ مافیا وہ ہے جس کو وزیر اعظم تڑی لگائے تو اگلے روز وہ اپنی چیز کی قیمت میں اضافہ کر دے۔ تمہاری اتنی اوقات کہاں سے آ گئی؟ پھر کہنے لگے: اب شکنجبین پلوائو تاکہ طبیعت میں ٹھنڈ پڑے۔
شاہ جی شکنجبین کا تیسرا گلاس پی رہے تھے جب میں نے پوچھا کہ شاہ جی! یہ اپنے وزیر اعظم عمران خان صاحب میں کوئی خوبی بھی ہے؟ شاہ نے آخری گھونٹ بھر کر گلاس میز پر رکھا اور زور سے ایک ڈکار مارنے کے بعد فرمانے لگے: عمران خان میں دو خوبیاں بلا کی ہیں۔ پہلے میں خان صاحب کی صرف ایک خوبی کا معترف تھا‘ اب آہستہ آہستہ ان کی دوسری خوبی کا علم ہوا ہے تو میری عقیدت میں خاصا اضافہ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا: شاہ جی وہ دو خوبیاں کون کون سی ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے: ایک تو وہ تقریر بلا کی کرتے ہیں۔ کبھی کبھار صرف تبّحر علمی کا رعب ڈالتے ہوئے جاپان اور جرمنی کی سرحدیں ملا دیتے ہیں یا فرماتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں حضرت موسیٰؑ کا ذکر تو ہے مگر حضرت عیسیٰ ؑ کا نہیں ہے‘ تاہم اگر وہ علمی، تاریخی اور جغرافیائی معاملات پر خاموش رہیں اور صرف کرپشن کے خلاف تقریر کریں تو ان جیسی تقریر کرنے والا کوئی فرد اس وقت روئے ارض پر تو موجود نہیں ہے۔ اپنے اس پسندیدہ موضوع کے علاوہ اعلیٰ اخلاقیات پر درس دینا بھی ان پر ختم ہے۔ مغرب کی مثالیں دے کر لوگوں کو متاثر کرنے کی جو خدا داد صلاحیت ان میں ہے ویسی صلاحیت کم از کم میں نے تو اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ اگر وزیر اعظم کی کارکردگی کا معیار صرف اور صرف تقریریں ہوتا تو اپنے خان صاحب دنیا کے بہترین وزرائے اعظم کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہوتے۔ میں تو کہوں گا کہ آئین میں ترمیم کر کے دو وزرائے اعظم کو آئین کا حصہ بنانا چاہیے۔ ایک وزیر اعظم صرف تقریریں کرے۔ قوم سے ہفتہ وار خطاب، عالمی فورمز اور کانفرنسوں میں ماہانہ خطاب، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے سالانہ خطاب اور ملکی جلسوں میں روزانہ دھڑا دھڑ خطاب۔ رہ گیا کام! تو اس کے لئے ایک علیحدہ وزیر اعظم ہونا چاہئے۔ پھر دیکھیں ملک کے اندر کیسی ترقی ہوتی ہے اور بیرون ملک پاکستان کا امیج کیسے بہتر ہوتا ہے۔
میں نے پوچھا: اور شاہ جی خان صاحب کی دوسری خوبی گیا ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: خان صاحب کی یادداشت بلا کی ہے اور انہیں اپنی گزشتہ بیس بائیس سال کے دوران کہی گئی ایک ایک بات پوری صحت اور جزئیات کے ساتھ یاد ہے۔ میں نے کہا: شاہ جی! آپ اب چھوڑنے پر آ گئے ہیں۔ خان صاحب تو اپنی ہر کہی گئی بات ایسے بھول گئے ہیں جیسے انہوں نے کبھی کہی نہ ہو، اور آپ فرما رہے ہیں کہ ان کی یادداشت بے پناہ شاندار ہے۔ شاہ جی مسکرائے اور کہنے لگے: بندۂ خدا! کبھی کسی چیز کو مثبت انداز میں بھی دیکھ لیا کرو۔ خان صاحب نے اپنی ہر بات کو جس طرح یاد رکھا اسے ''فوٹو گرافک میموری‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ ''تبدیلی‘‘ کے علم بردار ہیں لہٰذا انہوں نے اپنی ہر کہی ہوئی بات کو اقتدار میں آنے کے بعد تبدیل کر دیا۔ اب اس سے بڑی تبدیلی اور کیا لاتے؟ اصل خوبی یہ ہے کہ اپنی کہی ہوئی کسی بات میں بھی تبدیلی لانی نہیں بھولے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کسی کو ایکسٹینشن نہیں دیں گے۔ آپ کو پتا ہے کہ انہوں نے ایکسٹینشن دی اور اب ایک اور ایکسٹینشن دینے کے چکر میں ہیں۔ بجلی کے بل کی قیمت بڑھانے پر بل جلانے کی بات کی، اپنے دور میں بجلی کی قیمت ایسی بڑھائی کہ کڑاکے نکال دیئے۔ گیس اور پٹرول کی قیمتوں کو کم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ حال آپ کے سامنے ہے۔ پھر کہا: قرضہ نہیں لوں گا۔ قرضوں کی اخیر کر دی۔ میٹرو کے خلاف تقریریں کیں پھر پشاور میں بنا دی۔ ڈالر کو مہنگا نہ کرنے کا اعلان کیا، ڈالر تاریخی مہنگا ہو چکا ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی کے خلاف تقریریں کیں اور خود دوبارہ ایمنسٹی دی۔ ہمیشہ آزاد امیدواروں کو حکومت سازی میں شامل کرنے کے خلاف رہے اور اپنی حکومت آزاد ارکان کے زور پر بنائی۔ جن جن کو چور کہہ کر رد کیا ان کو چن چن کر اپنی حکومت میں شامل کیا۔ بیرون ملک دوروں کے خلاف بیانات دیئے اور پھر خود دورے کیے۔ کابینہ کے مختصر ہونے کا اتنی بار کہا کہ کان پک گئے۔ اب یہ حال ہے کہ ملکی تاریخ کی شاید سب سے بڑی کابینہ ہے اور اس میں بھی غیر منتخب افراد ریکارڈ تعداد میں ہیں۔ پھر شاہ جی کہنے لگے: اب آپ یادداشت کے بہترین ہونے کا یہ دیکھیں کہ خود نواز شریف اور زرداری پر توشہ خانہ سے تحفے سستے داموں ہتھیانے پر ریفرنس قائم کروا چکے ہیں اور خود غیر ملکی سربراہوں سے ملنے والے تحفوں کی اپنی خرید کی تفصیل دینے سے انکاری ہیں۔ پھر شاہ جی نے اپنے کان کے اوپر انگلی رکھ کر گھمائی اور کہنے لگے: بس اب یادداشت جواب دے چکی ہے اور باتیں بھی بے شمار ہیں مگر مجھے یاد نہیں آ رہیں۔ خان صاحب کی یادداشت کمال کی ہے تاہم مجھے لگتا ہے مجھے نسیان ہو گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں