"KMK" (space) message & send to 7575

سائیکل کہانی

گاڑی کا میک اور ماڈل ہماری جھوٹی انا کی تسکین تو کر سکتا ہے مگر خوشی بالکل مختلف چیز ہے۔ میں نے جتنا مزہ اپنی ہنڈا 125 موٹر سائیکل پر کیا ہے‘ اس کا تصور محال ہے۔ اسی طرح میں نے اپنی سوزوکی مہران پر بچوں کے ساتھ جو لمحات سفر میں گزارے ہیں ان کا نعم البدل بعد میں کسی اور گاڑی میں نہیں پا سکا۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ موٹر سائیکل کے زمانے میں کار کا کیڑا دماغ میں کہیں دور دور بھی نہیں تھا اور سوزوکی مہران پر مزے لیتے ہوئے کبھی قریب سے گزرتی ہوئی مہنگی اور بڑی گاڑی کی حسرت نے ہمارے سفر کا مزہ کرکرا نہیں کیا تھا۔ اس عاجز نے اپنی ساری زندگی لمحۂ موجود کا لطف کشید کرتے ہوئے گزار دی بلکہ اس ہنڈا 125 سے پہلے ابا جی والی پرانی ریلے سائیکل پر جو دن گزارے وہ اپنی جگہ ایک رنگین دنیا ہے۔ تب پورے گلگشت ہائی سکول کے سائیکل سٹینڈ پر چالیس پچاس سائیکلیں ہوتی تھیں۔ موٹر سائیکل یا سکوٹر کا پورے سکول میں نام و نشان تک نہیں تھا۔ میرے اس سکول میں پانچ سالہ قیام کے دوران چار ہیڈ ماسٹرز تعینات رہے۔ پہلے ہیڈ ماسٹر غلام ربانی شوکت صاحب تھے۔ دوسرے عبدالمالک بھٹہ صاحب تھے۔ تیسرے فیض محمد بلوچ صاحب اور چوتھے سربلند خان صاحب تھے۔ غلام ربانی شوکت اور سربلند خان صاحب کا تو پتا نہیں کہ کہاں سے آتے تھے‘ مگر آتے وہ بھی سائیکل پر تھے۔ فیض خان صاحب کا گھر عثمان آباد میں تھا جو نزدیک ہی تھا اور وہ سکول پیدل آتے تھے۔ عبدالمالک بھٹہ صاحب اپنے گھر نواں شہر سے سائیکل پر ہی سکول آتے تھے۔ سکول میں سب سے شان دار‘ چمک دار اور سب سے زیادہ صاف ستھری سائیکل ہمارے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر عبداللہ صاحب کی ہوا کرتی تھی۔ استاد کو تب بھی اتنا ہی بلکہ شاید آج سے زیادہ معزز تصور کیا جاتا تھا۔ استاد کی عزت میں سائیکل کبھی حائل نہیں ہوتی تھی۔
یہی حال ایمرسن کالج کا تھا۔ میں نے سکول کے زمانے میں ایمرسن کالج کے پرنسپل میاں محمود کو دیکھا۔ ان کے پاس ایک عدد سبز رنگ کی مورس مائینر گاڑی ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس کا رنگ گہرا سبز اور نمبر 6666 تھا۔ تاہم وہ اپنی سرکاری رہائش گاہ سے کالج پیدل جاتے تھے۔ میاں محمود صاحب کے بعد درمیان میں چھ ماہ میں دو پرنسپل آئے‘ پھر کیپٹن عبدالکریم صاحب پرنسپل بنے۔ وہ بھی گھر سے پیدل آتے اور شہر میں سائیکل پر جاتے تھے۔ تب پورے ایمرسن کالج میں صرف پروفیسر ڈاکٹر عبدالخالق کے پاس ایک نیلے رنگ کی گاڑی تھی۔ پانچ چھ پروفیسروں کے پاس سکوٹر وغیرہ تھے۔ تب معززین سکوٹر پر سواری کیا کرتے تھے۔ ابا جی کے پاس ویسپا تھا۔ ان کے علاوہ پروفیسر ریاض خدائی‘ پروفیسر جاوید پراچہ‘ پروفیسر عبدالرحمان اور فارسی کے استاد یوسف خورشید صاحب کے پاس بھی ویسپا سکوٹر تھا۔ مشہور شاعر‘ ادیب اور ''اسے کہنا دسمبرآ گیا ہے‘‘ جیسی نظم کے خالق پروفیسر عرش صدیقی‘ جن کا اصل نام ارشاد الرحمان تھا‘ کے پاس لمبریٹا سکوٹر ہوتا تھا۔ سائیکل سٹینڈ پر کل پانچ چھ سکوٹر اور ایک دو موٹر سائیکلیں اور سینکڑوں سائیکل ہوتی تھیں۔ پروفیسر عبدالخالق صاحب کی اکلوتی گاڑی کالج کی بلڈنگ کے سامنے گول لان کی سائیڈ پر کھڑی ہوتی تھی۔
اسی دوران پروفیسر رفیع انور‘ شیخ فیروز حسن اور ملک محمد یار صاحب بطور پرنسپل تعینات رہے۔ یہ سب لوگ سائیکلوں پر آتے تھے۔ یہ جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے اور قدیم تعلیمی ادارے کے سربراہوں کی کہانی ہے۔ سکول کے سارے استاد ماسٹر گلزار صاحب‘ ماسٹر غلام رسول صاحب‘ ماسٹر ارشاد صاحب‘ ماسٹر نذیر صاحب‘ ماسٹر قادر صاحب‘ ماسٹر منظور بٹالوی‘ ماسٹر ظہور الحق‘ ماسٹر عبدالرحمان‘ فیض محمد صاحب‘ ماسٹر نیاز صاحب‘ ماسٹر علامہ سعید صاحب اور ماسٹر محمد عالم صاحب‘ سب اساتذہ سائیکلوں پر آتے تھے اور لطف آباد‘ بند بوسن اور نیل کوٹ سے آنے والے سارے طلبہ بھی سائیکلوں پر ہی آتے تھے۔ میں تقریباً پانچ کلو میٹر دور سے سائیکل پر آتا تھا۔ سردیوں کی صبح سکول آنا اور گرمیوں میں شدید دھوپ اور گرمی میں واپسی پر طبیعت صاف ہو جاتی تھی‘ مگر کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ کاش ہمارے پاس موٹر سائیکل ہی ہوتی۔ زندگی میں جو سکون‘ تسلی‘ اطمینان اور قناعت تھی اب اس کا عشرِ عشیر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ سوشل سٹیٹس اور اپنے متعلق جعلی عکس ڈالنے کا فیشن ابھی معاشرے میں متعارف نہیں ہوا تھا۔ سواری کی بنیاد پر کسی کو با عزت یا بے عزت ہوتے نہ دیکھا تھا اور نہ سنا تھا۔ کسی دوسرے کی سائیکل کے کیریئر یا ڈنڈے پر سفر کرتے ہوئے کبھی شرم نہیں آتی تھی۔ تب زیادہ سے زیادہ یہ مقابلہ ہو جاتا تھا کہ ایگل سائیکل کی بریک سہراب سائیکل سے اچھی ہے۔
کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ بستہ زیادہ بڑا ہو جاتا اور کیریئر پر لگی ہوئی سپرنگ دار گرفت میں پورا نہ آتا تو تھوڑی پریشانی ہوتی تھی یا سالوں بعد ایسا ہوتا کہ پچھلے پہیے میں لگے ہوئے سائیکل کے ''کُتے‘‘ فیل ہو جاتے تھے۔ ہمیں کتے فیل ہونے پر ذرا بھی پریشانی نہ ہوتی تھی کہ اس کا آسان سا حل ہمارے پاس ہوتا تھا۔ یہ حل کیا ہوتا تھا؟ اس کا ذکر رہنے ہی دیں تاہم جب کبھی یہ نسخہ کام نہ کرتا تو تھوڑی مشکل پیش آتی اور سائیکل کو پیدل ساتھ گھسیٹنا پڑتا تھا۔ لیکن یہ سب ایک پیکیج ڈیل تھی اور ذاتی سائیکل کی ''عیاشی‘‘ ان ایک دو مشکلات کے باعث کم نہ ہوتی تھی۔ تب سب سے اعلیٰ سائیکل ریلے کی ہوتی تھی اور یہ اپنے فل چین کور کی وجہ سے دور سے پہچانی جاتی تھی۔ کیا زمانہ تھا! سائیکل کے ہینڈل کے نیچے والی راڈ پر آگے نکلے ہوئے ہک پر لائٹ لگی ہوتی تھی جو ڈرائی بیٹری سیلوں سے چلتی تھا یا پچھلے ٹائر کے ساتھ لگے ہوئے ''ڈینمو‘‘ سے جلتی تھی۔ ڈینمو عنقا ہوئی‘ سائیکل کی گھنٹی گم ہوئی۔ سکوٹر شرفا کی سواری تھی۔ پہلے لمبریٹا سکوٹر رخصت ہوا‘ پھر ویسپا اور آہستہ آہستہ سائیکل بھی ہماری ''جینٹری‘‘ کے استعمال سے فارغ ہو گئی۔
قریب بیس سال قبل برطانیہ گیا‘ برادرم طارق حسن کے پاس ایک سائیکل کھڑی تھی۔ ریڈنگ میں اس سائیکل پر گھومتا رہا اور واپسی پر اسے کھول کر ایک گتے کے کارٹن میں پیک کیا اور پاکستان لے آیا۔ کئی سال سردیوں میں اس پر چڑھ کر ایک دو کلو میٹر کے اندر اندر والے کام سر انجام دے لیتا تھا۔ تب بڑا عجیب تجربہ ہوا۔ سائیکل پر دیکھ کر جاننے والے پریشان ہو جاتے اور روک کر پوچھتے کہ خیریت ہے؟ سائیکل پر ہیں خیر تو ہے؟ دو چار سال پہلے یہ سائیکل خراب ہو گئی۔ اب سوچ رہا ہوں‘ اسے مرمت کروا لوں۔ ابا جی کی ریلے سائیکل جب مجھے ملی تب اس کی عمر کم و بیش ستائیس اٹھائیس سال تھی۔ تقریباً دس سال میرے پاس رہی۔ پھر ابا جی کے پرانے لائبریری اٹینڈنٹ ابراہیم کی سائیکل چوری ہو گئی تو میری سائیکل اسے دے دی گئی۔ اس سائیکل کے ہینڈل پر ابا جی کا نام A.M.Khan Sajid کُھدا ہوا تھا۔ پہلے پہل تو ابراہیم کبھی کبھار اس سائیکل پر عید‘ شبرات پر گھر آتا رہا۔ پھر آنا بند ہو گیا۔ پتا چلا کہ فوت ہو گیا ہے۔ کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ اس سائیکل کا ہینڈل جس پر ابا جی کا نام کندہ تھا اللہ جانے کس کباڑ میں پڑا ہو گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں