"KMK" (space) message & send to 7575

بلاول کے بعد حمزہ شہباز اور ملتان… (آخری حصہ)

مخبر معتبر ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ حمزہ شہباز کے دورے سے قبل عبدالرحمان کانجو اور اویس لغاری نے ملک اسحاق بچہ سے ملاقات کی اور اسے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی دعوت دی‘ تاہم جب اسے ملاقات کے لیے اس ہوٹل میں آنے کی دعوت دی گئی جس میں حمزہ شہباز ٹھہرا ہوا تھا تو اس نے کہا کہ 2013 میں تو اسے خصوصی جہاز پر بلا کر بھی ٹکٹ کے سلسلے میں مایوس کیا گیا تھا‘ اب بھلا وہ خود چل کر کیوں ملنے جائے؟ جواب سن کر حمزہ شہباز مع لاؤ لشکر خود اسحاق بچہ کے گھر پہنچ گئے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسحاق بچہ اب چلے ہوئے کارتوس سے زیادہ نہیں ہے۔
اسی حلقہ سے ملتان میں گزشتہ کچھ عرصہ سے پینافلیکسز کی بنیاد پر خود ساختہ پاپولر لیڈر بریگیڈیئر(ر) قیصر مہے بھی قومی اسمبلی کا امیدوار ہے۔ موصوف نے اپنی اشتہاری مہم وسیب کے ساتھ روا رکھی جانے والی ناانصافی اور جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے نعرے سے شروع کر ر کھی تھی۔ وسیب کے لوگوں کا خیال تھا کہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلم لیگ (ن) تھی اور الیکشن 2018 میں جنوبی پنجاب اور خصوصاً ملتان میں مسلم لیگ (ن) کی شکست اور پی ٹی آئی کی کامیابی کے پیچھے اس خیال کا بہت بڑا کردار رہا۔ اب اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کے پاس کوئی مناسب امیدوار نہ ہونے کے تصور کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حلقے میں کئی لوگ مسلم لیگ (ن) کا امیدوار بننے کے طلبگار ہیں۔ واقفان حال کے مطابق ان میں ملک سکندر بوسن بھی شامل ہے بلکہ شنید تو یہ بھی ہے کہ شاید احمد حسین ڈیہڑ بھی 2023 میں مسلم لیگ کی ٹکٹ کا امیدوار ہو۔ صرف پیپلز پارٹی اس حلقے میں امیدواروں کی پھرتیوں سے محفوظ ہے‘ یہاں سے عبدالقادر گیلانی پیپلز پارٹی کا پکا امیدوار ہے۔
سکندر بوسن کے اس حلقہ سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہونے کے امکانات پر مخبر کہنے لگا: یہ ممکن نہیں۔ میں نے پوچھا: وہ کیسے؟ تو وہ کہنے لگا: پکی خبر یہ ہے کہ میاں صاحبان سکندر بوسن پر بڑے گرم ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ سکندر بوسن کو کسی صورت میں بھی مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ نہیں دیں گے ۔ میں نے ہنس کر کہا کہ اگر مسلم لیگ (ن) نے آئندہ الیکشن میں مفاہمت کی سیاست کو اپنایا تو مفاہمت کروانے والے سکندر بوسن کو کیسے لاوارث چھوڑیں گے؟ ویسے بھی فی الوقت سکندر بوسن سب سے مضبوط متوقع امیدوار ہے۔ مخبر نے دخل اندازی کرتے ہوئے میری بات کاٹی اور کہنے لگا: وہ کیسے؟ میں نے کہا: مسلم لیگ کے کمزور امیدوار نے گزشتہ الیکشن میں بیس ہزار ووٹ لیے جبکہ سکندر بوسن نے آزاد امیدوار کے طور پر سینتیس ہزار ووٹ لیے تھے‘ یعنی مسلم لیگ کے ووٹ اس حلقے میں بیس ہزار جبکہ سکندر بوسن کے ذاتی ووٹ سینتیس ہزار ہیں۔ جو امیدوار گھر سے چلتے وقت سینتیس ہزار ووٹ اپنی جیب میں لے کر نکلے تو ایسے امیدوار کو ہی الیکٹ ایبلز کہا جاتا ہے اور ان کی ہر دور میں چاندی ہوتی ہے۔ رہ گئی بات اصول پسندی کی تو عزیزم! ہمارے ہاں سیاست اور اصول دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں اور ان کا آپس میں دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ ہاں! ذاتی انا درمیان میں آ جائے تو اور بات ہے۔ ملک اسحاق بچہ، بریگیڈیئر (ر) قیصر مہے یا سکندر بوسن کے درمیان ٹائی پڑے تو سکندر بوسن کا پلڑا ہر صورت میں بھاری رہے گا۔ اگر سکندر بوسن خود اس بار بھی غلط فیصلہ کر لے یا فیصلہ کرنے میں تاخیر کر دے تو پھر اور بات ہے۔
شنید یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) آئندہ الیکشن میں اپنے سابقہ امیدوار حلقہ این اے 157 ملک عبدالغفار ڈوگر کو بدلنے پر غور کر رہی ہے اور اسے نیچے صوبائی اسمبلی پر لا رہی ہے۔ باوجود ہزار کوشش کے غفار ڈوگر کی شہرت کسی طور بہتر نہیں ہو رہی اور معززین کو اسے آسانی سے قبول میں تامل ہے۔ یہی حال حلقہ این اے 156 کا ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کے پاس میسر امیدوار رانا برادران ہیں اور ان کی شہرت! خاص طور پر برادر خورد کی شہرت ایسی ہے کہ مخالف امیدوار اپنے زور پر نہیں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی بدنامی کے باعث جیت جاتا ہے۔ شاہ محمود قریشی کو ملتان شہر کے اس حلقے میں یہی سہولت میسر ہے وگرنہ آئندہ الیکشن میں شاہ محمود قریشی کو اس حلقے میں ہرانا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ حلقہ این اے 155 میں مسلم لیگ (ن) کا مستقل امیدوار بھی انتخابی حوالے سے کوئی زیادہ مناسب چوائس نہیں مگر ان کے پاس اس کا کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔
متبادل سے یاد آیا۔ اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کا اگر کوئی امیدوار سب سے بہتر نتائج دے سکتا تھا تو وہ جاوید ہاشمی تھا مگر لگتا ہے کہ وہ اب مسلم لیگ (ن) میں بہت زیادہ کی اہمیت کے حامل نہیں رہے۔ اگر شکاری کارتوس کو ری لوڈ کرنے کے فن سے آگاہ ہو تو وہ پھر بھی اپنا چلا ہوا کارتوس اٹھا کر تھیلے میں ڈال لیتا ہے کہ اسے پھر لوڈ کر لوں گا مگر جب تھیلے میں کافی سارے کارتوس پڑے ہوں اور شکاری کو ری لوڈنگ کا فن بھی نہ آتا ہو تو ایسا چلا ہوا کارتوس اکثر اوقات شکاری کے بوٹ تلے مسلا جاتا ہے۔ یہی حال اس وقت ہاشمی صاحب کا لگتا ہے۔ ایک ذمہ دار آدمی نے بتایا کہ ملتان میں ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے حالیہ ورکرز کنونشن میں سٹیج پر اسی کرسیاں لگی تھیں اور ان پر ناموں کی چٹیں لگی ہوئی تھیں۔ اللہ جانے اس میں کتنا سچ ہے مگر اس نے بتایا کہ ان اسی کرسیوں میں کسی بھی کرسی پر جاوید ہاشمی کے نام کی چٹ نہیں لگی ہوئی تھی۔ ہاشمی صاحب دھکے سے سٹیج پر بیٹھ گئے تھے تاہم ان کو تقریر کی دعوت تک نہیں دی گئی تھی۔ اس سے آپ صورتحال کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بہادر آدمی کا ملتان کی مستقبل کی سیاست میں فی الوقت کیا مقام ہے۔
جس روز یہ کنونشن تھا (مورخہ 2 اکتوبر) اس روز صبح میں گھر سے نکلا تو سارے راستے میں ہورڈنگز، پینافلیکس، بورڈز اور استقبالیہ بینرز کی بہار تھی۔ آئندہ کے امیدواروں نے حمزہ شہباز شریف کو پسمانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا تھا۔ ان ہوڈنگز اور پینافلیکسز پر ایسے ایسے فارغ اور فالتو آدمی کی فوٹو لگی ہوئی تھی جس کو گھر میں بھی کوئی 'اوئے‘ کہے بغیر نہ بلائے۔ میں نے اس دوران درجنوں استقبالیہ بورڈز پر نظر دوڑائی تو ایک بات مشترک نظر آئی اور وہ یہ کہ ملتان میں ہونے والے مسلم لیگ ورکرز کنونشن کے ان بورڈز اور بینرز پر اویس لغاری تک کی تصویر تو لگی ہوئی تھی مگر جاوید ہاشمی کا مکمل بلیک آٹ کیا گیا تھا۔ واپسی پر کے کے مارٹ کے ساتھ ایک کمزور صحت کے حامل بینر پر جاوید ہاشمی کی واحد تصویر نظر آئی۔ اس تصویر کا ذکر کر دیا ہے کہ کہیں ہاشمی صاحب گلہ نہ کریں کہ میں نے ان کی اس اکلوتی تصویر کو نظر انداز کر دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ حمزہ شہباز نے اس اکلوتی تصویر کو یقینا نظر انداز کر دیا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں