"KMK" (space) message & send to 7575

ادھار پر لائے گئے ماہرین

مجھے یقین ہے کہ ہمارے موجودہ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے آئی ایم ایف کی نوکری کے دوران مصر کی معیشت کو بھلے نقصان پہنچایا ہو مگر انہوں نے کم از کم ایسے بیان کبھی نہیں دیے ہوں گے جس قسم کے بیانات وہ بطور گورنر سٹیٹ بینک پاکستان دے رہے ہیں۔ چلیں بندہ یہ بات تو مان سکتا ہے کہ حکمران‘ وزیر اور عام تام معاونِ خصوصی وغیرہ نالائق اور جاہل ہو سکتے ہیں لیکن اتنے ذمہ دار عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص سے اس قسم کی گفتگو کی امید بہر حال نہیں کی جا سکتی لیکن اب صرف ہماری امید سے کیا ہوتا ہے؟ گورنر صاحب نے جو فرمایا ہے وہ کل عالم نے سنا ہے۔
میرا خیال ہے گورنر سٹیٹ بینک کا بھی شاید کوئی قصور نہیں۔ ان کو گزشتہ سترہ ماہ کی صحبت نے اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ہمسایے کا روپ تو نہیں آتا‘ لیکن اس کی ''مت‘‘ ضرور آ جاتی ہے۔ معاف کیجیے میں نے پنجابی کے لفظ ''مت‘‘ کا مناسب اردو متبادل نہ ہونے کی وجہ سے پنجابی میں ہی لکھ دیا۔ مَت ایک کثیرالمعانی لفظ ہے۔ اس سے عقل‘ سوجھ بوجھ‘ بھلائی کی بات اور اسی قسم کے کئی دیگر مطالب نکلتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ہمسایے کی صحبت آپ کی شکل پر تو اثر نہیں کرتی مگر آپ کی عقل پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔ اپنے رضا باقر صاحب گزشتہ سترہ ماہ سے جس قسم کی صحبت میں بیٹھے تھے اور جس قسم کی کمپنی سے ان کا پالا پڑا ہوا تھا اس کے بعد ان سے ایسے ہی بیانات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ بندہ آخر کتنی دیر تک اردگرد سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا ہے؟
اخبار میں ان کے بیان کے چھپنے سے ایک روز قبل ہی مجھے لندن سے ملک خالد کا فون آیا۔ وہ بتانے لگے کہ کل وہ ایک کھانے میں مدعو تھے۔ یہ کھانا لندن میں ایچ بی ایل یو کے اورانیل مسرت نے مل کر کیا تھا۔ تقریباً چار سو سے زائد پاکستانی بلمور ہوٹل مے فیئر میں ہونے والے اس کھانے میں شریک تھے جن میں وہ بھی شامل تھے۔ وہ مجھے بتانے لگے کہ رضا باقر نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ روپے کی قیمت گرنے سے آہستہ آہستہ درآمدات کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں حتیٰ کہ غیر ضروری اشیا کی درآمد نچلی ترین سطح پر پہنچ جاتی ہے اور اس مد میں صرف ہونے والا زر مبادلہ کم ہوتے ہوتے بہت نیچے آ جاتا ہے۔ اشیا کی درآمد جب اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ جاتی ہے تو پھر ہم روپے کی قیمت بہتر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بصورتِ دیگر ہمیں روپے کی قیمت بہتر رکھنے کے لیے مارکیٹ میں ڈالر لانا پڑتے ہیں نتیجتاً ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں لہٰذا زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے اور درآمدات کو کم کرنے کے لیے یہی ایک طریقہ ہے جس پر ہم عمل کر رہے ہیں۔ جیسے ہی درآمدات اپنی نچلی سطح پر پہنچ جائیں گی ہم روپے کی قیمت بڑھانا شروع کر دیں گے۔ ہم تھوڑا عرصہ پہلے بھی یہی کچھ کر چکے ہیں۔یہ بات بتانے کے بعد ملک خالد کہنے لگا :یہ بات بڑی منطقی ہے اور دل کو لگتی ہے۔ میں نے کہا: اور جو اس دوران روپے کی قدر کم ہونے سے درآمدی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور مہنگائی کا ایک طوفان آیا ہے اس کا کیا بنے گا؟ ہمارے ہاں جو چیز ایک بار مہنگی ہو جائے وہ دوبارہ ہم نے سستی ہوتے نہیں دیکھی۔ اس کے علاوہ ملکی قرضوں میں روپے کی قدر کم ہونے سے جو اضافہ ہوا ہے اس کا کیا بنے گا؟ ملک خالد کہنے لگے: جب ڈالر دوبارہ سستا ہو جائے گا تو سب کچھ واپس ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نے ملک خالد سے پوچھا کہ تقریب کے دوران ملنے والا کھانا کیسا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ کھانا بہت ہی عمدہ‘ لذیذ اور وافر تھا۔ میں نے ہنس کر کہا کہ تبھی تو آپ ڈالر اور روپے کے معاملات کا عقل کے بجائے پیٹ سے تجزیہ کر کے مجھے متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔ ملک خالد جواباً ہنسنے لگ گئے۔
میں نے ملک خالد کو کہا کہ ایک مشاعرے میں منتظمین نے ایک بزرگ شاعر سے‘ جس کے گھٹنے میری طرح جواب دے چکے تھے‘ پوچھا کہ کیا وہ سٹیج کے فرش پر بیٹھ جائیں گے؟ شاعر نے مسکراتے ہوئے منتظمین کو کہا کہ بھائی بیٹھ تو جائیں گے‘ لیکن پھر اٹھ نہیں پائیں گے۔ ہمارے لیے بیٹھنا نہیں‘ اٹھنا مسئلہ ہے۔ یہی حال ہمارے روپے کا ہے۔ بیٹھ تو گیا ہے اب اٹھنا اس کے بس میں نہ ہوا تو پھر کیا ہو گا؟
اگلے روز ہمارے گورنر سٹیٹ بینک کا ایک اور بیان سوشل میڈیا کی مہربانی سے اخبارات کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس میں انہوں نے فرمایا کہ روپے کی قیمت گرنے سے بیرونِ ملک رہنے والے ان پاکستانیوں کو جو پاکستان ڈالروں میں پیسہ بھجواتے ہیں بڑا فائدہ ہوگااور ان کی بھیجی ہوئی ڈالروں والی رقم کو جب روپوں میں تبدیل کیا جائے گا تو روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے یہاں مقابلتاً زیادہ روپے ملیں گے۔ بقول رضا باقر‘ اگر اس سال بیرونِ ملک سے تیس ارب ڈالر کا زرمبادلہ آئے تو روپے کی قیمت میں حالیہ گراوٹ کے باعث پاکستان میں پانچ سو ارب روپے زیادہ آئیں گے۔
پاکستان رقم بھیجنے والوں کی تین اقسام ہیں۔ ایک وہ جو باہر نوکری کرنے گئے ہیں اور وہاں سے ہر ماہ پیسے پاکستان اپنے گھر والوں کو بھیجتے ہیں۔ دوسرے وہ جو مستقل باہر رہائش پذیر ہیں؛ تاہم اپنے والدین کو ہر ماہ ایک مقررہ رقم بھجواتے رہتے ہیں اور تیسرے وہ جو باہر سے پاکستان میں پراپرٹی وغیرہ خریدنے کے لیے پیسے بھجواتے ہیں۔ صرف اس تیسری قسم کو اس سے فائدہ ہو گا۔ پہلی قسم کے لوگوں کو روپے کی قیمت گرنے کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کے باعث ایکسچینج میں ملنے والے زیادہ روپوں کا عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ پہلے وہ ڈالر کے عوض ملک میں جتنے روپے لے رہے تھے اب نسبتاً زیادہ ملنے والے روپوں کے باوجود رو رہے ہیں کہ ان کے گھر والوں کا گزارہ اب زیادہ پیسوں میں نہیں ہو رہا جتنا تھوڑا عرصہ پہلے ملنے والے کم روپوں میں ہو رہا تھا۔ دوسری قسم والے سب سے زیادہ گھاٹے میں رہے ہیں۔ ان کے بچے ان کو ماہانہ رقم ڈالروں یا پونڈوں کے حساب سے نہیں بلکہ پاکستانی روپوں کے حساب سے بھجواتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا کہ برطانیہ میں لوگ ویسٹرن یونین کے دفتر میں آ کر پوچھتے تھے کہ آج ایکسچینج ریٹ کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں بیس ہزار روپے بھجوانے ہیں۔ اب ان کے والدین کو تو وہی پیسے مل رہے ہیں جو ان کے بچے باہر سے ان کو بھجوا رہے ہیں لیکن روپے کی قدر کم ہونے سے مہنگائی میں اضافے کے نتیجے میں ان کا گزارہ مشکل تر ہو گیا ہے۔
اور آخری بات یہ ہے کہ بیٹھے بٹھائے ہر روز روپے کی قدر کم ہونے سے ملکی قرضوں میں جو اضافہ ہو رہا ہے وہ کس کھاتے میں جائے گا؟ گورے ہر بری بات کا آغاز ''ون فائن مارننگ‘‘ سے کرتے ہیں۔ رضا باقر کا کیا ہے‘ اسی طرح ''ون فائن مارننگ‘‘ وہ سٹیٹ بینک کی گورنری چھوڑیں گے اور واپس آئی ایم ایف میں رپورٹ کر دیں گے کہ بندہ ڈیوٹی پر واپس حاضر ہے اور جوائننگ دینا چاہتاہے‘ ہم بھی عجب بد قسمت لوگ ہیں کہ ہمارے ہاں ٹیکنو کریٹ حضرات نالائق حکمرانوں کو کچھ سمجھانے یا سکھانے کے بجائے خود ان کے نقش قدم پر چلنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس میں تعجب کیسا؟ ادھار اور مستعار پر لائے گئے ماہرین ایسے ہی ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں