"KMK" (space) message & send to 7575

قصہ ایک شہرِ قدیم کا… (1)

آپ لوگ بھی کہیں گے کہ یہ کیسا شخص ہے؟ ہر وقت اپنے دل کے دکھڑے روتا رہتا ہے۔ اسے سوائے ادھر ادھر کی فکر میں گھلنے کے اور کوئی کام ہی نہیں؟ اب بھلا الٹے سیدھے کام ہوتے دیکھوں تو کیا کروں؟ خاموش رہوں یا اس پر اپنی استطاعت کے مطابق آواز اٹھائوں؟ خاموشی کو گناہ سمجھتا ہوں لہٰذا آواز اٹھائے بغیر رہ نہیں سکتا۔ ملتان میں آج کل ملتان کے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کا شور مچا ہوا ہے اور اس ہنگام ملتان کے ثقافتی ورثے کی بحالی کی ذمہ داری ''والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی‘‘ کی جھولی میں ڈال دی گئی ہے۔ والڈ سٹی آف لاہور کا دائرہ کار یار لوگوں نے بزدار صاحب سے اسی طرح کھینچ تان کر بڑا کروا لیا ہے جس طرح کاریگروں نے ایل ڈی اے یعنی لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا دائرہ کار لاہور سے کھینچ تان کر قصور اور شیخوپورہ کے اضلاع تک بڑھوا لیا تھا۔ یہ کام تب میاں شہباز شریف سے لیا گیا تھا، اب عثمان بزدار سے والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کا دائرہ کار ملتان، بہاولپور اور فیصل آباد تک بڑھوا لیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ابھی والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کا بنیادی کام‘ جس کے لیے یہ اتھارٹی قائم کی گئی تھی نہ صرف یہ کہ مکمل نہیں ہوا بلکہ ابھی اصل کام کا دس فیصد بھی نہیں ہوا اور اتھارٹی اپنی اتھارٹی کو مزید تین شہروں میں آزمانے پر تلی ہوئی ہے۔ اللہ ہم پر اپنا کرم ہے۔
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی 2012 میں درج ذیل کاموں کے لیے بنائی گئی تھی:
1۔ اندرون فصیل پرانے لاہور کی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کرنے کے لیے خصوصی ادارہ جاتی اقدامات اور اسے قانونی تحفظ کی فراہمی۔
2:۔ اندرون لاہور کے رہنے والوں کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کو بڑھانا اور انہیں رواں کرتے ہوئے یہاں کے رہائشیوں کا معیار زندگی بلند کرنا۔
3:۔ اندرون لاہور کی خاص ثقافت کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاحت کو فروغ دینا۔
اب آپ خود بتائیں 2012 میں اس خود مختار ادارے کو بناتے ہوئے جن مقاصد کے لیے پنجاب اسمبلی سے بل منظور کروا کر مینڈیٹ اس کے سپرد کیا گیا تھا اس میں ملتان، بہاولپور اور فیصل آباد کی کہاں گنجائش نکلتی ہے؟ ملتان کے ثقافتی ورثے کو بحالی کے لیے لاہور کی اتھارٹی کے حوالے کرنا ایک لطیفے سے کم نہیں۔ اگر دنیا کے قدیم ترین آباد شہر کو اس سے کہیں کم قدامت کے حامل شہر کی ثقافتی بحالی کے لیے قائم کیے جانے والے ادارے کے زیر نگیں کرنا ہے تو پھر یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچ چکا!
ملتان ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ پانچ ہزار سال سے مسلسل آباد شہر ہے۔ بعض محققین اسے 7 ہزار سال قدیم تہذیب و تمدن کا مرکز قرار دیتے ہیں؛ تاہم اس پانچ ہزار سال کو ہی درست مان لیں تو بھی یہ شہر اپنی قدامت میں لاہور سے کم از کم دو گنا زیادہ قدیم ٹھہرتا ہے۔ مجھے لاہور کی اہمیت سے انکار نہیں، مگر جب ثقافتی ورثے اور تہذیب و تمدن کی بات ہو گی تو پھر دنیا بھر میں یہی طریقہ رائج ہے کہ قدامت ہی فیصلہ کن کردار انجام دیتی ہے۔ ساڑھے تین سو سال قبل مسیح میں جب مقدونیہ کا سکندر ملتان کے معرکے میں زخمی ہوا تھا تب لاہور نامی شہر یا قصبے کا روئے ارض پر وجود بھی نہیں تھا۔ سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ اپنی کتاب ''کشف المحجوب‘‘ میں لاہور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''لاہور یکے از مضافات ملتان‘‘ یعنی لاہور ملتان کے نواح میں واقع ہے۔ تب ملتان اس خطے کے دیگر شہروں اور قصبوں کے لیے بطور نشانی بتایا جاتا تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ اس کی قدامت کو کہیں بعد میں وجود آنے والے شہر کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ میرا یہ اعتراض تو صرف نام کی حد تک تھا تاہم اس کے علاوہ بھی کئی باتیں قابل غور ہیں اور تصحیح طلب بھی۔
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے پاس ملتان، بہاولپور اور فیصل آباد کی تہذیب و ثقافت کی بحالی کے لیے درکار مینڈیٹ ہی نہیں اور اسمبلی سے پاس کردہ قواعد کو محض ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تبدیل کرنا قطعی طور پر غلط ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں مگر چونکہ اس کام کے لیے ادھر اْدھر سے کافی سارے فنڈ آ گئے ہیں اس لیے اس اتھارٹی کو ایسے کام کا مینڈیٹ دے دیا گیا ہے جو اس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ ایک حیران کن بات یہ ہے کہ ''والڈ سٹی اتھارٹی‘‘ کے ماتحت ایک ایسا شہر بھی کر دیا گیا ہے جس میں والڈ سٹی سرے سے موجود ہی نہیں اور یہ شہر فیصل آباد ہے۔ اگر اس قسم کی کوئی اتھارٹی قائم ہی کرنی ہے تو اس کے لیے قانون سازی کی جائے اور جنوبی پنجاب کے لیے ایک علیحدہ ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جنوبی پنجاب میں برباد ہوتے ہوئے آثار قدیمہ کے لیے ایک علیحدہ اور خود مختار اتھارٹی کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ صرف فصیل والے شہروں کا ذکر کروں تو ملتان پاکستان کا شاید واحد اور آخری شہر ہے جس کے گرد ابھی اس کی پرانی فصیل مکمل طور پر قائم ہے اور اس فصیل کی دیوار کے اوپر ایک سڑک موجود ہے جو ''النگ‘‘ کہلاتی ہے۔ لوہاری دروازے سے شروع ہونے والی النگ یا فصیل بوہڑ دروازے سے ہوتی ہوئی حرم دروازے سے گزر کر پاک دروازے کو اپنے دامن میں لیتی دہلی دروازے کو اپنے اندر سمیٹتی دولت دروازے پر ختم ہو جاتی ہے۔ دولت دروازے سے حسین آگاہی اور وہاں سے لوہاری دروازے تک فصیل یا النگ شاید کبھی بھی موجود نہیں تھی۔ یہ جگہ دراصل شہر پناہ کا وہ حصہ تھی جو قدیمی قلعہ المعروف قلعہ کہنہ قاسم باغ سے ملی ہوئی تھی اور شہر اس جگہ قلعہ سے جڑا ہوا تھا۔ شہر کی فصیل اپنی پوری صحت کے ساتھ چھ دروازوں کے درمیان موجود ہے اور تجاوزات ہٹائے جانے کی منتظر ہے۔
اگر صرف ملتان کے ان چھ قدیمی دروازوں کے درمیان موجود فصیل کے باہر کی جانب قائم تجاوزات ختم کر دی جائیں تو نہ صرف یہ کہ شہر کی سینکڑوں سال پرانی فصیل اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے آ جائے گی بلکہ شہر کے رہائشیوں کو درپیش ٹریفک کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ اب بھی یہ ساری دیوار ان تجاوزات کے پیچھے سے نظر آتی ہے اور شہر کا پرانا بندوبست ریکارڈ نکال کر ساری ناجائز تعمیرات ختم کی جا سکتی ہیں‘ مگر اس کے لیے ارادہ بھی چاہیے اور ہمت بھی جبکہ یہ دو ایسی نایاب چیزیں ہیں جو ہمارے حکمرانوں میں ایک عرصے سے نظر نہیں آ رہیں۔ یہ قصہ نہ تو تین سال پرانا ہے اور نہ ہی تیس سال بلکہ یہ قصہ تب سے جاری ہے جب سے اس عاجز نے ہوش سنبھالا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں بچپن میں دہلی دروازے اور دولت دروازے کے درمیان واقع شاہ محمود قریشی کے جدی پشتی گھر کے سامنے سے گزرا کرتا تھا تو اس گھر کے عین سامنے ایک کھلی جگہ تھی جس کے پار ایک قدیمی پل نظر آتا تھا‘ جو غالباً شہر سے پانی کے اخراج کی جگہ تھی اور اس سے پرے شہر کی فصیل نظر آتی تھی۔ سڑک اور فصیل کے درمیان نہ کوئی تعمیرات تھیں اور نہ تجاوزات۔ آج وہاں سے فصیل کو دیکھنا ناممکنات میں سے ہے۔ یہ صرف ایک جگہ کا ذکر ہے ایسی کئی جگہیں تھیں جو میری یاد میں محفوظ ہیں۔ میری جنریشن کے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہی یادوں کے یہ دریچے اور جھروکے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں