"KMK" (space) message & send to 7575

قصہ ایک شہرِ قدیم کا…(2)

یہ تقریباً چھ سات سال پرانی بات ہے‘ میں امریکی ریاست مشی گن کے شہر گرینڈ ریپڈز میں اپنی بیٹی کو ملنے گیا ہوا تھا۔ تبھی مجھے وٹس ایپ پر کال آئی دوسری طرف ڈاکٹر عاطف رضوان تھے جنہوں نے میرا نمبر پاکستان سے حاصل کیا اور مجھے وٹس ایپ پر فون کر دیا۔ یہ محض اتفاق ہی تھا کہ ڈاکٹر عاطف گرینڈ ریپڈز کے اسی ہسپتال اور تعلیمی ادارے میں سینئر ڈاکٹر کے فرائض سر انجام دے رہے تھے جہاں میری بیٹی تب ریذیڈنسی کر رہی تھی۔ ڈاکٹر عاطف نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ فیصل آباد کے ڈاکٹر عاطف رضوان لائلپوریوں کی مانند بڑے مزے کے آدمی نکلے۔ ایسے ہی باتوں باتوں میں گرینڈ ریپڈز شہر کی تاریخ کا ذکر ہوا تو پتا چلا کہ یہ شہر 1826ء میں معرضِ وجود میں آیا۔ گویا تب اس شہر کی عمر تقریباً ایک سو نوے برس تھی۔ عاطف کہنے لگے :اگر آپ کو دلچسپی ہو تو شہر کے عجائب گھر میں چلتے ہیں۔ میں نے حیرانی سے کہا کہ بھلا ایک سو نوے سال کے شہر کے عجائب گھر میں خاک ہو گی۔ عاطف ہنسے اور کہنے لگے: قدامت نہ سہی‘ مگر آپ کی دلچسپی کی بے شمار چیزیں ہوں گی۔ عجائب گھر قائم کرنا ایک فن ہے اور اس فن میں مہارت رکھنے والے ایک سو نوے سال میں سے آپ کی دلچسپی کی اشیا ایسے نکال لیتے ہیں جیسے مداری رومال میں سے کبوتر نکال لیتا ہے۔
ڈاکٹر عاطف کی اس بات سے میرے ذہن میں اپنے شہرِ ناپرساں کا خیال آ گیا۔ اس شہرِ قدیم ملتان کی خوبی یہ ہے کہ یہ گزشتہ پانچ ہزار سال سے مسلسل آباد شہر ہے اور آباد بھی ایسا کہ خطے کا مرکزی نشان۔ پانچ سو پندرہ قبل مسیح میں جب یونانی محقق اور مصنف سکائی لکس ملتان سے گزرا تو اس نے شہر میں قائم سورج دیوتا ''سوریا‘‘ کے عالی شان مندر کا ذکر کیا۔ اسی مندر کا ذکر مشہور مورخ ہیروڈوٹس نے نے چار سو سال قبل مسیح اپنی مرتب کردہ تاریخ میں کیا۔ ہندو اساطیر کے مطابق ملتان کشیا پال نے آباد کیا اور مہا بھارت میں بیان کی گئی دیو مالائی کوروکشیتر جنگ کے وقت ملتان کٹوچ خاندان کے عہد میں تریگارتا بادشاہت کا حصہ تھا۔ ملتان سے کہیں کم قدامت کے شہر آج کھنڈر ہیں اور محض تاریخ کا حصہ ہیں جبکہ ملتان آج بھی شاد و آباد ہے۔
جنوری میں جب میں اور عاطف دریائے گرینڈ ریپڈز کے پل سے گزرے تو درجہ حرارت منفی بیس درجے سے بھی تھوڑا کم تھا۔ دریا سفید سڑک کی مانند پل کے نیچے ٹھٹھرا پڑا تھا۔ تصاویر سے ہٹ کر زندگی میں پہلی بار کسی چلتے ہوئے دریا کو اس طرح حالتِ برف میں بے جان پڑا دیکھا۔ عجائب گھر دریا کے کنارے پر واقع تھا۔ عاطف بتانے لگے کہ اس چھوٹے سے شہر میں کم از کم پانچ عجائب گھروں کے بارے میں تو مجھے علم ہے۔ ایک تو یہ گرینڈ ریپڈز پبلک میوزیم ہے‘ دوسرا عجائب گھر سابق امریکی صدر جیرالڈ فورڈ کے نام پر ہے۔ تیسرا عجائب گھر گرینڈ ریپڈز چلڈرن میوزیم ہے ‘ چوتھا گرینڈ ریپڈز آرٹ میوزیم ہے اورپانچواں اربن انسٹیٹیوٹ فار کنٹمپریری آرٹس ہے۔ یہ میوزیم تین منزلہ تھا اور کئی گھنٹے گزارنے کے بعد بھی نہ تو اکتاہٹ ہوئی اور نہ ہی بوریت محسوس ہوئی۔ مجھے تب اندازہ ہوا کہ عجائب گھر بنانا واقعی ایک فن ہے اور اگر اس فن سے آگاہی ہو تو محض ایک سو نوے سالہ نئے نکور شہر سے دکھانے کے لیے بے شمار چیزیں مل جاتی ہیں اور اگر نالائقی عروج پر ہو تو پانچ ہزار سال پرانے شہر سے تہذیب و تمدن اور ثقافت سے متعلق چار چیزیں بھی نہیں ملتیں۔ ملتان ایسا ہی بدقسمت شہر ہے۔
یہ عجائب گھر مشی گن سے جڑی ہوئی Native indianتاریخ سے ہوتا ہوا شہر کی سائنسی ترقی‘ ٹائم لائن کے مطابق ہونے والی صنعتی پیش رفت‘ تہذیب و تمدن اور خطے کے جانوروں سے لے کر زراعت اور ماہی گیری میں استعمال ہونے والے آلات کی قدیم و جدید اشکال اور شہر کی قدم بہ قدم ترقی کا سارا منظر نامہ ان تین منزلوں میں بکھرا پڑا تھا۔ گرینڈ ریپڈز کیا تھا اور کیا ہے؟ یخ بستہ شہر کے عین وسط میں واقع اس عجائب گھر میں یہ ایک سو نوے سالہ زندگی کی پوری حرارت کے ساتھ سانس لے رہے تھے۔ میں اس عجائب گھر کو دیکھ کر باہر نکلا تو ملتان کا سوچ کر ایک لمحے میں وہ ساری خوشی‘ راحت اور حیرت کی کیفیت ہوا ہو گئی۔ مجھے خیال آیا کہ جب کبھی ہمارا کوئی مہمان ملتان آتا تھا اور کہتا تھا کہ ملتان دیکھنا ہے تو ہمارے پاس اسے قلعہ کہنہ قاسم باغ دکھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ یہ لفظ ''تھا‘‘ کی بھی عجب کہیں۔ یہ اب بھی چل رہا ہے یعنی ہمارے پاس اب بھی کسی مہمان کو قلعہ کہنہ قاسم باغ دکھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
اس قلعہ کہنہ قاسم باغ کی بھی عجب کہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے کسی قلعہ کا نہیں کسی مزاروں بھرے آستان کا گمان ہوتا ہے۔ پہلے اس پورے علاقے میں دو مزارات تھے جو شہر بھر کی ہر جگہ سے نظر آتے تھے۔ قلعہ کہنہ شہر سے بیسیوں فٹ بلند ایک قدیم ٹیلے پر بنا ہوا ہے۔ اس پر حضرت بہاء الدین زکریا اور ان کے پوتے رکن الدین عالم کے مزارات تھے ‘پھر تو جس کا بھی زور چلا اس نے اپنا پیر یہاں دفن کیا اور مزار کھڑا کر لیا۔
یہاں ایک قدیمی پرہلاد مندر تھا۔ میں نے آخری بار اس مندر کو سلامت حالت میں منیر چودھری کے ساتھ دیکھا تھا۔ تب اس مندر کی نچلی منزل میں اسلامیہ کالج کے طلبہ کا ہوسٹل تھا اور اوپری حصہ ابھی پرانی شکل میں موجود تھا۔ 1992ء میں بابری مسجد کے سانحے نے اس مندر کو کھنڈر میں بدل دیا۔ قدیم تاریخ کے مطابق یہ مندر پرہلادا نے تعمیر کروایا تھا جو خدا ہونے کے دعویدار ملتان کے اسور حکمران ہیرانیا کاشیپو (Hiranyakashipu) کا بیٹا تھا جو مواحد تھا۔ دیو مالا میں اس کہانی کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ہیرانیا کاشیپو نے چلے تپسیا کی جس کے نتیجے میں برہما دیوتا نے اسے پانچ خصوصی طاقتیں عطا کر دیں پہلی یہ کہ اسے نہ تو کوئی انسان مار سکے گا اور نہ ہی کوئی جانور۔ دوسری یہ کہ نہ اسے اندرون خانہ مارا جا سکے گا اور نہ بیرون خانہ۔ تیسری یہ کہ نہ اسے دن کو مارا جا سکے گا اور نہ رات کو۔ چوتھی یہ کہ نہ اسے استرا (اڑنے والا ہتھیار) سے مارا جا سکے گا اور نہ ہی شاسترا (ہاتھ سے استعمال ہونے والا ہتھیار) سے اور پانچویں خصوصی طاقت یہ دی کہ نہ اسے زمین پر مارا جا سکے گا‘ نہ پانی میں اور نہ ہوا میں۔ اس نے موت پر قابو پا لیا‘ لافانی ہونے کی بنیاد پر خدائی کا دعویٰ کر دیا مگر خود اس کا بیٹا پرہلاد باپ کی خدائی کا انکاری ہو گیا۔ بادشاہ نے اس گستاخی پر اس کو ختم کرنا چاہا مگر ناکام رہا۔
تنگ آ کر اس نے اپنی بہن ہولیکا سے مشورہ مانگا۔ ہولیکا کے بارے میں افسانوی کہانیاں مشہور تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ اسے آگ نہیں جلا سکتی۔ دراصل آگ اس کے خاص لباس پر اثر نہیں کرتی تھی۔ اسے بھی اپنے بارے میں آگ کی دیوی ہونے کا گمان تھا۔ ہیرانیا کاشیپو نے لوہے کے ایک ستون کو آگ میں دہکا کر سرخ کروایا اور اپنے بیٹے پرہلادا کو کہا کہ اگر وہ اس کے خدا ہونے کے دعوے کوغلط سمجھتا ہے تو پھر اپنے خدا کی سچائی ثابت کرنے کے لیے اس دہکائے ہوئے لوہے کے ستون کو گلے لگائے۔ اگر اس کا برحق ہے تو اسے بچا لے گا بصورت دیگر وہ جل مرے گا۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں