"KMK" (space) message & send to 7575

مشکل کام

آج چودھری بھکن کافی دنوں کے بعد آیا اور سلام دعا کے فوراً بعد چھوٹتے ہی کہنے لگا کہ اس حکومت کا بھی کوئی حال نہیں۔ میں نے پوچھا: خیر ہے کہ تم نے آتے ہی اتنا بڑا الزام لگا دیا۔ چودھری کہنے لگا: وزیروں کی ایک فوج ظفر موج بھرتی کر رکھی ہے مگر مجال ہے کسی وزیر کو بات کرنے کا طریقہ اور سلیقہ آتا ہو۔ حرام ہے اگر کسی وزیر میں دور اندیشی، معاملہ فہمی یا آنے والے دنوں کیلئے کوئی اچھا خیال یا منصوبہ دماغ میں ہو۔ میں نے پوچھا: کیا کوئی نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے؟ چودھری کہنے لگا: مسئلہ تو خیر سے روز کا معمول ہے‘ ان کے ہوتے ہوئے اتنے مسئلے کھڑے ہوئے ہیں کہ اب کوئی ''مسئلہ‘‘ کم از کم مجھے تو مسئلہ نہیں لگتا۔ پہلے غلام سرور خان نے اسمبلی میں پی آئی اے کے سینکڑوں پائلٹوں کے ہوا بازی لائسنس جعلی قرار دے کر پی آئی اے کا انٹرنیشنل آپریشن برباد کر کے رکھ دیا۔ یورپ میں پروازوں پر پابندی لگ گئی۔ بعد میں چار چھ لائسنس جعلی نکلے لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ کسی ملک کا وزیر قومی اسمبلی جیسے مؤقر فورم پر نہایت ہی ذمہ داری سے نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ بیان جاری کرے اور دنیا اسے سنجیدگی سے نہ لے‘ لہٰذا ہوا یہ کہ ہم نے بلا تحقیق پہلے الٹا سیدھا بیان جاری کیا پھر اسے دھکے سے ثابت کرنے کی کوشش کی مگر کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا معاملہ ہوا۔
غلام سرور خان نے کہا کہ پی آئی اے کے تیس فیصد پائلٹوں کے ہوا بازی کے لائسنس جعلی یا مشکوک ہیں اور صرف پی آئی اے ہی اس معاملے میں ملوث نہیں بلکہ دیگر پرائیویٹ ایئر لائنز کے پائلٹ بھی اس جعلی لائسنسوں والی فہرست میں شامل ہیں اور غیر ملکی ایئر لائنز میں کام کرنے والے کئی پاکستانی پائلٹ بھی دو نمبر لائسنس کے حامل ہیں۔ اس سے نہ صرف پی آئی اے کی شہرت داغدار اور اعتبار ختم ہوا بلکہ کئی غیرملکی ایئر لائنز نے پاکستانی پائلٹوں کو جہاز اڑانے سے روک دیا۔ جو کام پہلے کرنا چاہئے تھا وہ بعد میں کیا‘ اور بیان سے ہونے والے نقصان کے بعد تحقیقات کی گئیں۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ بیان دینے سے پہلے تحقیقات کی جاتیں اور ان تحقیقات کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر کارروائی ہوتی اور یہ کارروائی قومی اسمبلی میں بیان کی جاتی لیکن ظاہر ہے عقل بازار سے ملنے والی چیز تو ہے نہیں کہ خرید لی جائے۔
اب ٹی ایل پی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور ان کے تمام تر مطالبات علاوہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مان لیے گئے ہیں اور پولیس کے جان بحق ہونے والے سات اہلکاروں کا معاملہ کھوہ کھاتے ڈال دیا گیا ہے؛ تاہم حکومت اپنی اس ہزیمت پر نہ صرف یہ کہ رتی برابر شرمندہ نہیں بلکہ حکومت کے بزرجمہر اپنی شرمندگی کو چھپانے کیلئے نت نئے بیانات دے کر اب اس معاملے کو دوسرے حوالے سے خراب کر رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے فرمایا ہے کہ ملک کو خطرہ انتہا پسندی سے ہے اور یہ مدرسوں کے ذریعے نہیں بلکہ سکولوں، کالجوں کے ذریعے معاشرے میں پھیل رہی ہے۔ مزید فرمایا کہ 80 اور 90 کی دہائی میں سکولوں اور کالجوں میں انتہاپسند اساتذہ کی تقرریوں نے معاملہ خراب کیا اور ان انتہا پسند اساتذہ سے تعلیم لینے والے طلبہ اس معاشرے میں انتہا پسندی کے فروغ کا اصل ماخذ ہیں۔ اب وزیر موصوف نے بیرون ملک تعلیم کی غرض سے جانے والے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلبہ کے مستقبل کو برباد کرنے کی اپنے تئیں بھرپور کوشش کی ہے۔ ہوگا یہ کہ اب مغرب کے تعلیمی ادارے ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلبہ کو اپنے ہاں داخلے دینے پر پابندیاں لگا دیں گے۔ بھلا اپنی ہزیمت اور شرمندگی کو چھپانے کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ نیا کٹا کھول دیا جائے؟
126 دن تک دھرنا دے کر پورے وفاقی دارالحکومت کو مفلوج کرنے والے اب خود حکومت میں آئے ہیں تو سارے اصول، قاعدے اور ضابطے ہی تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں۔ بظاہر نہایت ہی معقول اور سمجھدار سمجھے جانے والے اسد عمر اپوزیشن کی جانب سے اسلام آباد آنے اور لانگ مارچ کی بات پر کہتے ہیں کہ اسلام آباد آنے والوں کو ''کُٹ‘‘ لگائی جائے گی۔ چودھری کہنے لگا: دراصل اسد عمر کا قصور نہیں‘ صحبت کا اثر ہے اور صحبت کے اثرات بد کا یہ عالم ہے کہ ایک کاہل، سست الوجود اور کام چور شخص کو محنتی اور کام کرنے کے شوقین لوگوں میں بھیج دیا گیا تاکہ وہ ان سے کچھ سیکھ سکے اور اپنی عادات قبیحہ پر قابو پا سکے۔ تھوڑے عرصے کے بعد جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کاہل، نکمے اور سست الوجود شخص کو محنتی اور کام کے عادی افراد کے درمیان بھیجنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ محنتی اور کام کے عادی لوگ بھی اس کام چور کے ساتھ رہ کر اسی کی طرح نکمے اور کاہل بن گئے ہیں۔
یہ واقعہ سنا کر چودھری کہنے لگا: ان وزراء اور حکومتی شخصیات کا دور اندیشی اور حکمت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ میں نے پوچھا: اب کیا ہوا ہے؟ کہنے لگا: یہ جو تین چار روز پیشتر حکومت نے فٹافٹ قسم کی قانون سازی کی ہے اس کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے اور اس قانون سازی کا دائرہ مستقبل تک پھیلایا جا سکتا تھا مگر افسوس حکومتی مشیروں اور وزیروں میں مستقبل کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ چودھری بھکن کی یہ بات میرے پلے نہ پڑی۔ میں نے کہا: چودھری! کیا تم اپنی بات وضاحت سے بیان کر سکتے ہو؟ چودھری کہنے لگا: کیوں نہیں! اب تم دیکھو حکومت نے گھیر گھار کر بندے تو پورے کر لئے تھے‘ لگے ہاتھوں اس گھیری گئی اکثریت کے بل پر محض یہ والے تینتیس بل منظور کروانے پر اکتفا کرنے کے بجائے اسی عددی اکثریت کے بل پر ایک بل یہ بھی پاس کروا لیا جاتا کہ اس گھیری گئی عددی تعداد کو آئندہ کی قانون سازی کیلئے بھی اکثریتی گنتی تصور کیا جائے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: چودھری یہ تم کس قسم کی احمقانہ اور ناقابل عمل قسم کی گفتگو کر رہے ہو؟ چودھری کسی قسم کی شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے مجھ سے پوچھنے لگا کہ ماضی میں ہونے والے اقدامات کو قانونی تحفظ دینے کیلئے بعض اوقات ان فیصلوں کے سابقہ تاریخ سے اطلاق کیلئے ایک انگریزی ٹرم استعمال ہوتی ہے۔ اللہ جانے کیا بھلا سا لفظ ہے‘ ریٹرو یا میٹرو ٹائپ لفظ ہے۔ میں نے کہا: غالباً تم Retrospetive کہنا چاہ رہے ہو۔ چودھری نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہا: کبھی کبھی تم سمجھداری کا مظاہرہ کر دیتے ہو‘ یہی لفظ تھا جو میں کہنا چاہتا تھا۔ اگر قانون کا اطلاق اسی لفظ کے طفیل ماضی کی غلطیاں درست کر سکتا ہے تو آئندہ کیلئے ہونے والے اقدامات کو اسی طرح قانونی تحفظ دینے میں کیا حرج ہے؟ اگر آمروں کو بنا مانگے آئین میں ترمیم کا اختیار مل سکتا ہے تو قانون ساز اسمبلی آئندہ پیش آنے والی قانون سازی کو پیشگی گنتی کا تحفظ کیوں نہیں دے سکتی؟ میں نے کہا: چودھری! قانون کو ایک طرف رکھو‘ اس بات کی تو اخلاقیات بھی اجازت نہیں دیتی۔ چودھری زور سے ہنسا اور کہنے لگا: یہ جو کچھ ہوا ہے اخلاقیات میں تو اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ جہاں باقی کام کرتے ہوئے اخلاقیات یاد نہیں آئی تو بھلا اب اسے یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہر بار اتنے بندے گھیر کر لانا بھلا کون سا آسان کام ہے؟ خود کو روز روز مشکل کاموں میں نہیں ڈالنا چاہیے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں