"KMK" (space) message & send to 7575

چھوٹے چھوٹے خواب اور خواہشات

سچ پوچھیں تو اب خواہشوں اور خوابوں کی صورت بدلتی جا رہی ہے۔ خواب دیکھنا اور خواہش کرنا تو زندگی کی علامت ہے اور زندگی کی گھوڑا گاڑی اسی کے دم سے نئی منزلوں کی طرف رواں دواں رہتی ہے مگر اب اس حقیقت کے باوجود کہ خواب اور خواہش وہ مثبت قوت ہے جو آنے والے دنوں کی آنے والی نسلوں کیلئے ہر سہولت بناتی ہے۔ اب بھی دل میں زندہ تو ہیں مگر اس طرح کہ خوابوں اور خواہشوں کا کینوس سکڑتا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے خواب دیکھنے کو اور خواہشات پالنے کو دل تو کرتا ہے مگر دماغ اب دل کی باتوں کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ سو اب ایسا ہو رہا ہے کہ خواب اور خواہشات تھوڑے نچلے درجے پر آتے جا رہے ہیں۔ بڑے بڑے خواب اور خواہشات سے دل دستبردار ہونے کو تیار تو ہرگز نہیں مگر اب اسے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ لاحاصل کی جستجو میں اپنی کافی ساری زندگی تو خراب کر لی ہے اب دوسروں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے سے بہتر ہے کہ اپنا معیار تھوڑا قابلِ عمل حد تک نیچے لایا جائے۔ لہٰذا ابتدائی طور پر اپنی خواہشوں اور خوابوں کا معیار تھوڑا نیچے کرلیا ہے۔ اس سے پہلا فائدہ تو یہ ہو رہا ہے کہ فرسٹریشن کم ہو رہی ہے۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے چھوٹے چھوٹے چراغ امیدوں کے تھوڑے سے تیل سے روشن رکھے جا سکتے ہیں۔
جنہیں خواب دیکھنے اور خواہش کرنے کی عادت ہو وہ مرتے دم تک نہیں جاتی۔ یہی حال اس عاجز کا ہے مگر اب ان کو تھوڑی لگام ڈال دی ہے بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں لگام ڈالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ دہلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے خواب کا تو یہ ہوا ہے کہ خود سے ہی آنا بند ہو گیا ہے تاہم دیگر کئی خواب اب بھی تنگ تو کرتے ہیں مگر آہستہ آہستہ ان کے درجوں میں تنزلی کے باعث صورتحال میں کچھ بہتری آ رہی ہے۔ اب صرف اس قسم کے خواب دیکھتا ہوں کہ ٹریفک کا نظام درست ہو جائے‘ لوگ سرخ اشارے پر رک جائیں‘ ون وے ٹریفک کی خلاف ورزی نہ کریں‘ دودھ خالص مل جائے‘ سردیوں میں کہیں سے شہد خریدا جائے تو وہ اصلی نکل آئے‘ میری گلی میں ہر روز کھلنے والی نئی دکانوں پر کوئی روک لگ جائے‘ اندھا دھند شکار پر پابندی لگ جائے‘ رہی سہی حیاتِ جنگلی کو تحفظ مل جائے‘ سرکاری جنگلوں میں کٹتے ہوئے درختوں پر روک تھام لگ جائے‘ ایک سو تیس روپے کلو والی چنے کی دال سے بننے والے بیسن کی ایک سو دس روپے کلو میں فروخت کا عقدہ حل ہو جائے‘ ہزار روپے کلو والی ثابت مرچ سے آٹھ سو روپے کلو میں پسی ہوئی مرچ کیسے نکلتی ہے یہ بات سمجھ میں آ جائے‘ موٹروے پر اب جانور گھومنے لگ گئے ہیں ان کا کوئی حل نکل آئے‘ موٹروے کے ریسٹ ایریاز کے باتھ روم صاف ستھرے ہو جائیں‘ دکاندار ایماندار نہ ہوں بھلے سے خوش اخلاق تو ہو جائیں‘بازار دوپہر کے بعد کھلنے کے بجائے صبح کھلنا شروع ہو جائیں اور شام ڈھلے بند ہو جائیں‘ ضلعی انتظامیہ سڑکوں کے کنارے قائم تجاوزات ختم کروالے ‘دکاندار اپنی دکان کا آدھا مال فٹ پاتھوں سے اٹھوا کر واپس دکان میں رکھوا لیں‘ اور بس اسی قسم کے معمولی خواب اور سستی قسم کی خواہشات ہیں جو باقی رہ گئی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی آسانی اور سہولت یہ ہے کہ ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں جس کی تکمیل کی راہ میں گزشتہ حکومتوں کی کرپشن رکاوٹ بنتی ہو۔
ویسے خواب تو اس کے علاوہ بھی ہیں جو بظاہر معمولی ہیں مثلاً یہ کہ ملتان پریس کلب والوں نے اپنے سامنے کی فٹ پاتھ پر جو قبضہ کر رکھا ہے وہ واگزار کروا لیا جائے‘ ایس پی چوک سے کے ایف سی چوک تک جس سڑک کو وکلا نے پارکنگ لاٹ بنا کر قبضہ کر رکھا ہے وہ ختم ہو جائے اور مخلوقِ خدا کو سہولت مل جائے‘ چوک کچہری پر فلائی اوور کے نیچے ساری سڑک پر چار چار قطاروں کی صورت جو پارکنگ بنی ہوئی ہے اور گورنمنٹ کی سڑک کو پارکنگ بنا کر جو لوگ اس کی پارکنگ فیس وصول کر رہے ہیں ان کی جگا گیری بند کروائی جائے‘ یہ جو روزانہ کوئی نہ کوئی گروہ سڑکیں بند کرکے ڈنڈے کے زور پر اپنے ناجائز مطالبات منواتا ہے اس پر پابندی لگ جائے‘ لیکن جب سے حکومت کی رٹ نامی چیز کی وفات حسرت آیات کا پتا چلا ہے اس قسم کے خواب کچھ تو خود بخود نظر آنا کم ہو گئے ہیں اور کچھ کے دیکھنے پر از خود پابندی عائد کر دی ہے۔ ملک عزیز میں جتھوں کی روز افزوں بڑھتی ہوئی تعداد نے ایسے خوابوں کا ''نشٹ‘‘ مار دیا ہے۔
حالت یہ ہو گئی ہے کہ اب حکمرانوں سے خیر کی توقع کرنا‘ ان سے ملک و قوم کے مفاد کی امید کرنا اور ذتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنے کا خیال بھی دل میں لانا ان خواہشات میں شامل ہو گیا ہے جن کی تکمیل ناممکنات میں سے ہے۔ لیکن ٹریفک کے حالات ٹھیک کرنا کون سا مشکل کام ہے؟ ٹرک ڈرائیور عام سڑک پر آپ کو گزرنے کا راستہ نہیں دیتا مگر جونہی وہ موٹروے پر چڑھتا ہے اپنی لین میں آ جاتا ہے‘ لین تبدیل کرتے وقت اشارہ (انڈ یکیٹر)دیتا ہے۔ رکنا پڑ جائے تو سڑک کی سائڈ پر ہارڈ شولڈر پر جا کر ٹرک روکتا ہے۔ یہ ساری باتیں اسے خواب میں نہیں آتیں۔ اسے قانون کا پورا علم ہے مگر جہاں اس کا اطلاق نہیں ہو رہا وہاں من مانی کر رہا ہے اور جہاں اسے پتا ہے کہ چالان ہوگا اور کوئی رعایت نہیں ملے گی وہاں وہ سارے قوانین کی پابندی کرتا ہے۔ اسے علم ہے کہ کہاں قانون توڑنا ہے اور کہاں پابندی کرنی ہے۔
شہر میں ون وے ٹریفک کی خلاف ورزی ایسا جرم ہونا چاہئے جس کی نہ تو معافی ہو اور نہ ہی کوئی رعایت۔ یہ ٹریفک قانون کی ایسی خلاف ورزی ہے جو اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کے علاوہ ان کیلئے بھی خطرناک ہے جو قانون کی پابندی کرتے ہوئے اس قانون شکن کا سامنا کرتے ہیں۔دور نہ جائیں صرف خلیجی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں دیکھ لیں ہمارے ورکر کلاس سے تعلق رکھنے والے پاکستانی بھائی وہاں ان سارے قوانین کا احترام بھی کرتے ہے اور پابندی بھی مگر ادھر یہ حال ہے کہ لوگ فلائی اوورز پر مخالف سمت سے آ رہے ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں امریکہ آنے کیلئے اپنی فلائٹ پر سوار ہونے کی غرض سے ملتان سے لاہور آ رہا تھا تو موٹروے کے راوی ٹول پلازہ پر دیکھا کہ ٹول پلازہ پر ادائیگی کیلئے لگی ہوئی قطار میں ایک موٹرسائیکل والا بھی کھڑا تھا اور موٹروے پولیس کا اہلکار اس کو روکے ہوئے تھا۔ خدا جانے یہ موٹرسائیکل والا کہاں سے اور کیسے موٹروے پر آ گیا۔ اب اس موٹرسائیکل والے کا کیا رونا روئیں‘ کئی جگہوں پر بچوں کو بستہ اٹھائے موٹروے کراس کرتے دیکھا ہے۔ ملتان‘ لاہور سیکشن پر بے شمار مرتبہ کتوں سے ٹکرائی ہوئی گاڑیوں اور مرے ہوئے کتوں کو دیکھا ہے۔ کلر کہار کے قریب موٹروے کے کنارے گائیں چرتی ہوئی دیکھی ہیں۔ ان سب کو ٹھیک کرنا کیا اس لئے مشکل ہے کہ گزشتہ حکومتوں نے کرپشن بہت کی ہے اور تیس سال کا گند ساڑھے تین سال میں صاف کرنا ممکن نہیں ہے؟
اگر اس قسم کے معمولی معاملات کی درستی بھی لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی سے مشروط ہے تو پھر اس کا مطلب یہی نکلتا ہے ہم نے اپنی باقی زندگی بھی انہی حالات میں گزارنا ہوگی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہماری زیادہ گزر گئی ہے اور اب تھوڑی باقی رہ گئی لیکن کیا اب ہم ان چھوٹے چھوٹے خوابوں اور خواہشوں سے بھی دستبردار ہو جائیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں