"KMK" (space) message & send to 7575

دوگھنٹے کا سفر …(آخری حصہ)

ہمارے حکمرانوں کو، ان کے طبلچیوں کو اور ان کی پارٹی کے بھونپوئوں کو ہمہ وقت اپنی حکومت کی تعریف کرنے کی پڑی ہوتی ہے۔ اس کیلئے کسی خاص پارٹی کا نام لینا بے معنی ہے، سبھی کا یہی حال ہے۔ ہر حکمران کو ہر دور میں ایسے بیشمار رضاکار چمچے اور طبلچی مل جاتے ہیں۔ ہر حکمران اور اس کے حواری ملک میں اشیائے صرف کی قیمتوں کا دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کرکے پاکستان میں مہنگائی سے پسنے والوں کو یہ خوشخبری سناتے رہتے ہیں کہ یہاں اشیائے ضرورت، دالیں، سبزیاں، پھل، گوشت، تیل و گیس وغیرہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک سے کہیں سستے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ برسوں گزرے نشتر ہسپتال و میڈیکل کالج ملتان میں ایک تقریب تھی۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی تب کے گورنر پنجاب جنرل (ر) خالد مقبول تھے۔ تقریب ختم ہونے کے بعد چائے پیتے ہوئے جنرل (ر) خالد مقبول مجھ سے ملے تو میرے ایک کالم کے حوالے سے کہنے لگے کہ آپ نے اس کالم میں لکھا تھاکہ پاکستان میں پٹرول کی قیمت عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہے‘ آپ ماشااللہ ملک سے باہر جاتے رہتے ہیں‘ آپ کوتو بخوبی علم ہوگا کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمت برطانیہ وغیرہ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ یہاں پٹرول انگلینڈ کی نسبت بہت سستا ہے۔
میں ہنس پڑا اور کہا: جنرل صاحب! قیمت ایک مختلف چیز ہے اور سستا مہنگا ہونا ایک بہت ہی مختلف چیز ہے۔ قیمت کی بات ہو تو چلیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت سے منسلک ہے اور اسی حساب سے کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے مگر یہ کہناکہ ہمارے ہاں پٹرول سستا ہے ایک صریح جھوٹ اور غلط بیانی ہے۔ مہنگائی کا تعلق قیمت خرید سے نہیں، قوت خرید سے ہے۔ برطانیہ سے تیل کی قیمت کا موازنہ کرتے ہوئے یہ بات دھیان میں رہے کہ وہاں لوگوں کی قوت خرید اور اوسط آمدنی ہم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس حساب سے وہاں تیل کی قیمت فروخت ہم سے بیشک زیادہ ہے لیکن چونکہ وہاں لوگوں کی قوت خرید ہم سے بہت زیادہ ہے لہٰذا وہاں پٹرول کی قیمت زیادہ ہونے کے باوجود ہماری نسبت پٹرول بہت سستا ہے۔
فی الوقت بھی سمجھیں یہی حال ہے۔ ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہمارے وزیروں، مشیروں اور حکمران طبقے کو یا تو سمجھ نہیں آتا یا وہ جان بوجھ کرمچلے بن جاتے ہیں۔ امریکہ میں اس وقت پٹرول کی قیمت پاکستان سے تقریباً چالیس روپے فی لٹر زیادہ ہے لیکن یہ موازنہ کرتے ہوئے ہم ایک آفاقی اصول بھول جاتے ہیں‘ یہ کہ موازنہ کرتے وقت سیب کا موازنہ سیب سے اور سنگترے کا موازنہ سنگترے سے کرنا چاہیے ہم پٹرول کی قیمت کا موازنہ تو امریکہ سے کرتے ہیں لیکن فی کس اوسط آمدنی کا موازنہ روانڈا سے کرنے لگ جاتے ہیں۔
امریکہ میں اس وقت کم سے کم فی گھنٹہ مزدوری پندرہ ڈالر ہے‘ یعنی ایک شخص اگر دن میں آٹھ گھنٹے کام کرے تو اسے مبلغ ایک سو بیس ڈالر مزدوری کی مد میں ملتے ہیں۔ یہ آمدنی کا کم از کم معیار ہے۔ ہاں کوئی کام ہی نہ کرنا چاہے تو اور بات ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ امریکہ میں کسی گیس سٹیشن یعنی پٹرول پمپ پر کام کرنے والے عام ورکر کی یومیہ آمدنی ایک سو بیس ڈالر ہے جبکہ ادھر پاکستان میں گو کہ سرکاری طورپر کم از کم ماہانہ تنخواہ کی حد بیس ہزار روپے ہے۔ زیادہ تر محنت کشوں کواس سرکاری مقررکردہ کم ازکم ماہانہ تنخواہ سے حالانکہ کہیں کم تنخواہ ملتی ہے؛ تاہم موازنے کیلئے ہم اس سرکاری مقررکردہ ماہانہ تنخواہ کو ہی اپنا معیار بنالیں توہمارے ہاں پٹرول پمپ پرکام کرنے والے ملازم کو بیس ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ اس حساب سے اس کی یومیہ آمدنی چھ سو چھیاسٹھ روپے بنتی ہے یعنی پاکستان میں پٹرول پمپ پرکام کرنے والے ورکرکی یومیہ آمدنی مبلغ چھ سو چھیاسٹھ روپے ہے جبکہ امریکہ میں پٹرول پمپ پرکام کرنے والے ورکر کی یومیہ آمدنی ایک سو بیس ڈالر ہے جو پاکستانی روپوں میں آج کل مبلغ اکیس ہزار چھ سو روپے بنتی ہے۔ امریکہ میں پٹرول پمپ پرکام کرنے والا ورکر ایک ڈالر فی لٹر کے حساب سے اپنی ایک روزہ آمدنی سے ایک سو بیس لٹر پٹرول خرید سکتا ہے جبکہ پاکستان میں پٹرول پمپ پر کام کرنے والا ورکر اپنی یومیہ آمدنی سے محض پونے پانچ لٹر پٹرول خرید سکتا ہے‘ یعنی پٹرول کے حوالے سے امریکی ورکرکی قوت خرید پاکستانی ورکرکی قوت خرید سے پچیس گنا زائد ہے۔ اب اس حقیقت کے باوجود ہمارے وزیر‘ مشیر یہ فرمائیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے توان وزیروں‘ مشیروں اور حکمرانوں کی عقل پر ہنسی اور اپنی قسمت پر رونا آتا ہے۔
ہمارے وزیر اس ڈھٹائی اور اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں کہ سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ کیا کوئی شخص اس قدر جھوٹا اور دروغ گو بھی ہو سکتا ہے۔ یقین کریں جھوٹ بولنے کے باعث ایک افسانوی حیثیت اختیارکر جانے والا ہٹلر کا وزیر آنجہانی گوئبلز اگر زندہ ہوتا تو ہمارے حکمرانوں اور ان کے طبلچیوں کے پائوں چھو کر شاگردی اختیار کرتا؛ تاہم دو چار دن بعد ہی بھاگ جاتاکہ اس قدر اعتماد اور یقین کے ساتھ جھوٹ بولنا ایسی صورت میں قطعاً ممکن نہیں کہ بندے کے اندر ضمیر کی ایک آدھ رتی باقی رہ گئی ہو۔ میں عام طور پر امریکہ یا یورپ وغیرہ سے کالم لکھتے ہوئے یہ احتیاط کرتا ہوں کہ یہاں کے زیادہ اچھے حالات کا تذکرہ نہ کروں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض قارئین اس پر بڑے سیخ پا ہوتے اور سمجھتے ہیں کہ میں ان پراپنی امریکہ یا یورپ یاترا کا رعب ڈال کر انہیں متاثر کرنے کی کوشش کررہا ہوں اور وہ جواباً ایسی ایسی سناتے ہیں کہ بندے کی طبیعت صاف ہوجاتی ہے۔ وہ کالم نگار کو طعنے مارتے ہیں کہ اگر دیارِ غیر و عالمِ کفر اتنا ہی اچھا ہے تو آپ پاکستان چھوڑ کر چلے کیوں نہیں جاتے؟ کچھ طنز کے تیر چلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ لوگ پاکستان کی اس اکثریت کو‘ جس کو آپ جیسی سہولتیں اور مراعات میسر نہیں‘ احساس کمتری میں مبتلا کرتے ہیں۔ ایسے قارئین کی تشفی کے لیے میں بہت سی باتیں گول بھی کر جاتا ہوں مگر بہرحال جب ملکِ عزیز میں حکومتوں کی بری گورننس، حکمرانوں کی لوٹ مار، عوام کے مسائل سے لاتعلقی، وزرا وغیرہ کے جھوٹ اور بے حسی دیکھتا ہوں تو دل کرتا ہے کہ عوام کو آگاہی دی جائے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
سو قارئین! حال یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور وزرا وغیرہ کو یہ احساس تک نہیں کہ پاکستان میں عام آدمی کی آمدنی کیا ہے اور اس حساب سے ان کی قوت خرید کم ہوتے ہوتے کس نچلے درجے تک پہنچ چکی ہے۔ چھ سو چھیاسٹھ روپے دیہاڑی کمانے والے ملک میں انڈے دو سو روپے درجن اور دودھ ایک سو پچپن روپے لٹر ہے جبکہ اکیس ہزار چھ سو روپے روزانہ کمانے والے کے ملک میں دودھ ایک سو چالیس روپے اور اڑھائی درجن انڈوں کا کریٹ دو ڈالر میں مل جاتا ہے۔ اس حساب سے ایک درجن انڈے ایک سو چوالیس روپے میں دستیاب ہیں۔ اس سارے موازے کے باوجود اگر خان صاحب یہ کہیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے اور فواد چودھری ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری پر فرمائیں کہ پی ٹی آئی نے الیکشن سے پہلے ایک کروڑ نوکریوں کا جو وعدہ کیا تھا وہ نہ صرف پورا کر دیا ہے بلکہ بات کروڑ نوکریوں سے بھی کہیں آگے جا چکی ہے تو پھر کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ بھلا اس سفید جھوٹ کے بعد کیا کہا جا سکتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں