"KMK" (space) message & send to 7575

پیریزبرگ میں ہارون آباد کی شکرکی یاد

سرپرائز دینے میں ایسا مزہ ہے کہ بعض اوقات تو میں بھی بچہ بن جاتا ہوں۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ میں بچوں کے طے شدہ سرپرائز میں حصہ دار بن جاتا تھا اور میری اس حصہ داری کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مجھے اس سرپرائز میں حصہ دار بنانا بچوں کی مجبوری ہوتی ہے؛ تاہم اس بار جو سرپرائز تھا‘ میں اس کا حصے دار نہیں بلکہ بنیادی کردار اور بانی تھا۔ طے یہ پایا کہ اس بار امریکہ جاؤں تو میری آمد کو سیفان اور ضوریز سے پوشیدہ رکھا جائے اور انہیں ایئر پورٹ لانے تک میری آمد کی بھنک بھی نہ پڑنے دی جائے اور ان سے اچانک مل کر ان کو سرپرائز دوں اور ان کی خوشی سے لطف اندوز ہوں۔ سرپرائز کا یہی وہ مزہ ہوتاہے جس سے بار بار لطف اندوز ہونے کو دل کرتا ہے۔
اس بار میرا امریکہ جانے کا پروگرام بالکل ہی اچانک بنا تھا اور میں نے سوچا کہ اس غیر متوقع اور اچانک پروگرام سے دونوں نواسوں کوسرپرائز دیا جائے‘ لیکن اسد کہنے لگا: آپ نے کومل کو بتا دیا تو پھر آپ کا یہ سرپرائز قائم نہ رہ سکا۔ اسد کی اس بات میں دم تھا کہ باقی تینوں بہن بھائی توسرپرائز نبھا سکتے ہیں لیکن کومل کے بارے میں تینوں کا اتفاق ہے کہ وہ کسی نہ کسی کو تو بہرحال بتا ہی دے گی بلکہ زیادہ گمان یہی ہے کہ وہ اس کو ہی بتائے گی جس سے بتانے کیلئے اسے منع کیا جائے۔ بعد میں وہ بڑی آسانی سے کہہ دیتی ہے کہ بس میرے منہ سے نکل گیا تھا میں کیا کرتی؟ میں نے اسے ہنس کر کہا کہ اس نے بہرحال کسی نہ کسی بچے کو یہ بات بتانی ہی ہے تو میری طرف سے اسے اجازت ہے کہ وہ اس سرپرائز کے بارے میں مانو کو بتا دے۔ پھر میں نے اسے کہا کہ مانو بہرحال اس سرپرائز کو سرپرائز ہی رکھے گی اور اپنے دونوں بھائیوں میں سے کسی کو کچھ بھی نہیں بتائے گی۔ مجھے اس کی رازداری پر اس لیے یقین تھا کہ ابھی اس کی عمر چھ ماہ ہے اور وہ اس راز کو راز رکھ سکتی ہے۔ کومل ہنس پڑی اور کہنے لگی: سچ تو یہ ہے کہ میرے منہ سے کئی باریہ بات نکلتے نکلتے رہ گئی ہے۔
اس روزبچے سہ پہر کے بعد پارک چلے گئے اوروہاں کھیل کھیل کر تھک گئے تھے وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی سو گئے اور ان کی آنکھ تب ہی کھلی جب وہ ایئرپورٹ پہنچ گئے مسافروں کی آمد والے دروازوں کے سامنے آنے والے مسافروں اور انہیں لینے والوں کی گاڑیوں کی لمبی قطار تھی جب عہد آفریں نے مجھے دیکھ کر آواز دی اور عین اسی وقت ضوریز کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ نیم غنودگی کے عالم میں چلایا: میرا خیال ہے وہ سامنے تو بڑے بابا ہیں۔ سیٹوں میں بندھے ہونے کی وجہ سے وہ اٹھ تو نہیں سکتے تھے مگر ان کی خوشی اوربے قرار ی دیدنی تھی۔ ان کی نیند بالکل ہوا ہو گئی۔ میں نے دروازہ کھول کران کی سیٹ بیلٹس کھول دیں اور وہ دونوں مجھ سے لپٹ گئے۔ سیفان کہنے لگا کہ اس نے مجھے خواب میں دیکھا تھا‘ ضوریز بھلا کیسے پیچھے رہ جاتا‘ اس نے بھی فوراً اعلان کیا کہ اس نے بھی مجھے خواب میں دیکھا تھا۔ کومل ان دونوں کے دعوے پر ہنس پڑی۔
شفیق کے ساتھ کل صبح ناشتے کیلئے سردار جی کی دکان پر جا کر آلووالے پراٹھے‘ دہی اور لسی کا آرڈر دیا تو بات ماں جی کے بنائے ہوئے پراٹھوں سے ہوتی ہوئی اس باورچی خانے تک جا پہنچی جس میں زمین پر ایک چولہا پڑا ہوتا تھا اورہم چوکیوں پر بیٹھ کر توے سے اترتے ہوئے گرما گرم پراٹھے دہی یا چنوں وغیرہ کے ساتھ کھایا کرتے تھے۔ چوک شہیداں میں صبح چچا یار محمد عرف چاچا یاری سے دہی اور اس کی دکان کے تقریباً سامنے ہی لگے ہوئے چچا غلام رسول عرف چاچا گاماں کے پھٹے سے چنے یا دال مونگ خرید کر گھر لاتے تھے اور ایسا تازہ ہ تازہ ناشتہ کرتے تھے کہ مزہ آ جاتا تھا۔ تب اکثر گھروں کی طرح ہمارے گھر بھی صرف ایک سالن بنا کرتا تھا۔ دوپہر کو پکنے والا سالن رات کے کھانے میں بھی کام آتا تھا۔ 1964ء میں جب میں پانچ سال کا تھا ہمارے گھر فریج آ گیا ‘مجھے اچھی طرح یاد ہے یہ سنگر کا فریج تھا اور ملتان میں اندرون شہرکپ تھانے کے ساتھ والی گلی میں سنگر کی ایجنسی سے خریدا گیا تھا۔ گھر میں فریج ہونے کے باوجود ہفتے کے چار پانچ دن روزانہ ایک پاؤ چھوٹا گوشت تازہ گھر آتا تھا اور سبزی کے ساتھ پکتا تھا‘ اکٹھا گوشت لا کر فریج میں رکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ گھر میں جو پکتا تھا وہی کھانا پڑتا تھا‘ نخرے کرنے والا بھو کا سوتا تھا۔
سیفان بڑا ہونے کے باوجود چھوٹے دل کا ہے‘ میں کومل سے ہنس کر کہتا ہوں کہ تمہارا یہ بیٹا تو محبت کرنے اور دکھی ہو جانے میں تمہارے ننھیال پر چلا گیا ہے یہ ضوریز نے اتنا سخت دل کس سے لیا ہے؟ وہ ہنس کر کہتی ہے: آپ کو ایسی باتوں کا مجھ سے زیادہ علم ہے۔ میری اس روز صبح ساڑھے سات بجے فلائٹ تھی اس لیے میں علی الصبح چھ بجے ایئر پورٹ روانہ ہو گیا۔ رچمنڈ پہنچا تو کومل کا فون آیا کہ صبح جب سیفان اٹھا اور آپ اس کے ساتھ بستر پر موجود نہیں تھے تو وہ خوب رویا۔ اسے بڑی مشکل سے چپ کروایا گیا کہ بڑے بابا جلد ہی واپس آ جائیں گے۔ میں نے پوچھا :اور ضوریز نے کیا کہا؟ کومل کہنے لگی: جب سیفان رو رہا تھا تو وہ مزے سے اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ بڑے بابا انکل اعجاز کے پاس اٹلانٹا گئے ہیں اور دو چار دن کے بعد واپس آ جائیں گے‘ اللہ جانے اسے انکل اعجاز کا خیال کیسے آ گیا۔
میں نے آلو والا پراٹھا کھاتے ہوئے شفیق کو بتایا کہ ماں جی ہفتے میں ایک آدھ بار آلو والے پراٹھے بناتی تھیں اور ایمانداری کی بات ہے کہ ویسا آلو والا پراٹھا ان کے جانے کے بعد کبھی نصیب نہیں ہوا۔ میری اہلیہ نے ماں جی سے یہ فن سیکھا تو تھا مگر ان جیسا تردد اور اہتمام کرنا کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی‘ اس لیے ایک انچ کی کسر رہ گئی تھی۔ میں نے سامنے پڑے ہوئے پراٹھے کی ایک تہہ کو اٹھاتے ہوئے اس کا پوسٹ مارٹم کیا اور شفیق کو کہا کہ سردار جی نے آلو ابالنے کے بعد ملیدہ بنانے کے بجائے Hash Brownکی طرز پر پہلے آلوؤں کو کدوکش کیا ہے اور بعد میں ابالا ہے۔ شفیق نے میری آلو والے پراٹھوں پر تکنیکی مہارت اور دسترس پر داد دی اور کہنے لگا: کیا خیال ہے کل اس سامنے والے سردار جی کے پراٹھے نہ کھائے جائیں ‘وہ آلوؤں کو کدوکش کرنے کے بجائے Mash کر کے پراٹھے بناتا ہے۔ میں نے کہا :ماں جی کے بعد آلو والے پراٹھے محض اپنی عادت پوری کرنے کیلئے کھاتا ہوں اور بس‘ لہٰذا کل کی بات چھوڑو‘ کل صبح براؤن شوگر اور میپل والا اوٹ میل کھاؤں گا‘ سفر میں بندے کو اپنی عادتیں خراب نہیں کرنی چاہئیں۔
میں نے شفیق کو بتایا کہ جب ضوریز پیدا ہونے والا تھا‘ میں ادھر امریکہ آ گیا تھا۔ ظاہر ہے اگر کومل کی ماں حیات ہوتی تو وہ ضرور آتی۔ وہ نہیں تھی تو کسی کو تو آنا تھا۔ سو میں آ گیا‘ جب کومل ہسپتال گئی تو دو سال کا سیفان میرے پاس تھا۔ میں نے اسے پاکستان سے اپنے ساتھ لائی ہوئی شکر میں گھی ڈال کر پراٹھا کھانے کی عادت ڈال دی تھی۔ یہ شکر رانا شفیق نے خاص طور پر ہارون آباد سے منگوا کر دی تھی۔ چند دن کے بعد میں واپس پاکستان چلا گیا شکر ختم ہو گئی اور سفیان نے بن میں نیوٹیلا (چاکلیٹ) لگا کر کھانے کی عادت اپنا لی۔ اس بار سوچا تھا کہ اسے دوبارہ شکر سے پراٹھا کھانے کی عادت ڈالوں گا مگر اس بار شکر ساتھ لانا ہی بھول گیا۔ براؤن شوگر میں بھلا وہ بات کہاں جوہارون آباد سے آئی ہوئی شکر میں تھی۔ سوچا ہے اگلی بار آؤں گا تو دیسی شکر ساتھ لاؤں گا اور اسے صبح ناشتے میں گھی شکر کے ساتھ پراٹھا کھلانے کی کوشش کروں گا‘ آخر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں