"KMK" (space) message & send to 7575

ملتانِ ما‘ لودھراں اور ضمنی انتخابات … (3)

حقیقت تو یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رانا برادران دل سے سلمان نعیم کے ساتھ نہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ اگر سلمان نعیم اس بار مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جیت گیا تو یہ نوجوان نہ صرف ان کی آبائی قومی اسمبلی کی نشست تک جا پہنچے گا بلکہ پھر زندگی بھر یہ سیٹ دوبارہ ان کے خاندان کے پاس کبھی بھی نہیں آئے گی۔ دوسری طرف شاہ محمود جیسے قومی سطح کے لیڈر کو ہرا کر سلمان نعیم خود کو نہ صرف قومی سطح کا سیاستدان سمجھنے لگ گیا ہے بلکہ اچھا خاصاجامے سے باہر ہو گیا ہے ‘تاہم فی الحال صورتحال یہ ہے کہ اس حلقے میں گزشتہ کئی سال سے متحرک اور لوگوں کی خوشی غمی میں باقاعدہ شریک ہونے کے حوالے سے اپنے حلقے میں مقبول سلمان نعیم کے مقابلے میں زین قریشی کی پوزیشن کچھ خاص بہتر نہیں‘ اس کا اندازہ خود شاہ محمود قریشی کو بھی ہے کہ ان کے بیٹے کا سیاسی قد کاٹھ خود ان کے مقابلے میں کہیں نیچے ہے اور ان کی واحد پہچان ان کا شاہ محمود قریشی کا بیٹا ہونا ہے ‘ اس کے علاوہ کم از کم فی الحال وہ اورکچھ بھی نہیں۔ اس حلقے سے اب تک کی صورتحال کے مطابق تو ان کا جیتنا خاصا مشکل ہے‘ تاہم آئندہ چند دن میں کیا تبدیلی آتی ہے میں اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ویسے شاہ محمود اس الیکشن میں جتنی محنت کر رہے ہیں اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ابھی الیکشن کا رن پوری طرح گرم نہیں ہوا۔ شنید ہے کہ آٹھ جولائی کو مریم نواز شریف اور چودہ جولائی کو عمران خان ملتان آرہے ہیں۔ اب آئندہ صورتحال پر یہ بات بھی اثر انداز ہو گی کہ خان صاحب ملتان کے جلسہ میں اپنا بیانیہ کس حد تک بیچ پاتے ہیں۔ گو کہ سیاست میں پانسہ کبھی اور کسی وقت بھی پلٹ سکتا ہے لیکن شاہ محمود قریشی اب مایوسی میں اس حد تک آ گئے ہیں انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کمشنر ملتان تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے پیچھے ایک اور لمبی کہانی ہے۔ تب وہ وزیر خارجہ تھے اور موجودہ کمشنر ملتان ڈویژن عامر خٹک ادھر ڈپٹی کمشنر تعینات تھے۔ تاہم فی الحال یہ سٹوری ہمارا موضوع نہیں۔
پی ٹی آئی کے بیس منحرف ارکانِ صوبائی اسمبلی میں سے آٹھ کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ ملتان سے ایک‘ لودھراں سے دو‘ مظفر گڑھ سے دو‘ لیہ‘ ڈیرہ غازی خان اور بہاولنگر سے ایک ایک رکن صوبائی اسمبلی منحرف ہونے کے باعث فارغ ہوئے ہیں۔ لیہ سے آزاد جیت کر پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد منحرف ہونے والے طاہر رندھاوا کے خلاف 2018ء میں پی ٹی آئی کا دوسرے نمبر پر آنے والا امیدوار قیصر عباس خان مگسی اس بار پھر ان کے خلاف پی ٹی آئی کا امیدوار ہے۔ شنید ہے کہ یہاں قیصر عباس مگسی کی پوزیشن بہتر ہے۔
مظفر گڑھ کے حلقہ پی پی 272 مظفر گڑھ V سے 2018ء کے جنرل الیکشن میں باسط سلطان بخاری آزاد حیثیت سے اس سیٹ سے جیت گئے۔ باسط سلطان اس صوبائی حلقہ کے علاوہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 185 سے بھی آزاد الیکشن لڑ کر جیتے اور بعد ازاں تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی جس پر ان کی والدہ زہرہ بتول تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن میں کامیاب ہوئیں اور پھر بیٹے سمیت منحرف ہو گئیں۔منحرف صوبائی ارکان کے خلاف فیصلہ آیا تو صوبائی اسمبلی کی رکن والدہ تو نااہل ہو گئیں تاہم رکن قومی اسمبلی بیٹا ابھی بچا ہوا ہے۔ اب اس سیٹ پر باسط سلطان کی اہلیہ زہرہ باسط بخاری مسلم لیگ (ن) کی امیدوار ہیں۔ مظفر گڑھ سے دوسرا منحرف اور نااہل رکنِ صوبائی اسمبلی پی پی 273 سے سبطین رضا ہے اور وہاں مقابلے پر پی ٹی آئی کے یاسر خان جتوئی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پی پی 272 پر (ن) لیگ اور پی پی 273 پر پی ٹی آئی کی پوزیشن بہتر ہے۔
ادھر حلقہ پی پی 224 لودھراں 1 سے پی ٹی آئی کا جیتنے والا رکن صوبائی اسمبلی زوار حسین وڑائچ اور پی پی 228 لودھراں V سے نذیر احمد خان بھی منحرف ہونے کے باعث نااہل قرار پائے ہیں۔ حلقہ پی پی 224 میں بڑی مزیدار صورتحال ہے۔ یوں سمجھیں کہ اس حلقے میں دونوں پارٹیوں نے آپس میں اپنے امیدوار بدل لیے ہیں۔ پی ٹی آئی کا نااہل ہونے والا رکن صوبائی اسمبلی زوار حسین وڑائچ اب مسلم لیگ (ن) کا امیدوار ہے اور الیکشن 2018 ء میں ان سے ہارنے والا مسلم لیگ (ن) کا امیدوار عامر اقبال شاہ اب پی ٹی آئی کا امیدوار ہے۔ موصوف نے پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملنے سے صر ف آٹھ دن (میں یہ محاورتاً نہیں لکھ رہا) قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یاد رہے کہ انہی عامر اقبال شاہ کے والد اقبال شاہ نے لودھراں سے جہانگیر خان ترین کے بیٹے علی ترین کو 2018ء کے ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 161 لودھراں ii سے تقریباً بائیس ہزار ووٹ سے شکست دی تھی۔ یہ سیٹ جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی کے باعث خالی ہوئی تھی۔ جہانگیر ترین بھی اس سیٹ پر 2013ء کا الیکشن صدیق خان بلوچ سے ہار گئے تھے‘ تاہم ان کی نااہلی کے باعث اس حلقے میں ضمنی الیکشن ہوا جو جہانگیر ترین نے صدیق خان بلوچ کو انتالیس ہزار ووٹوں کے بڑے مارجن سے ہرا کر جیتا تھا۔ اب لودھراں سے پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی کے انحراف نے ساری گیم بدل دی ہے۔ اقبال شاہ اپنے بیٹے عامر اقبال سمیت پی ٹی آئی میں ہیں اور پی ٹی آئی کا سابقہ ایم پی اے اب مسلم لیگ (ن) کا امیدوار ہے۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے عامر اقبال شاہ کی پوزیشن خاصی بہتر ہے اور مسلم لیگ کے ایم این اے عبدالرحمن کانجو اور حکومت کے بے پناہ زور لگانے کے باوجود مسلم لیگی امیدوار کی حالت کچھ خاص اچھی نہیں ہے۔
دوسری طرف پی پی 228 میں بڑی دلچسپ صورتحال ہے۔ پی ٹی آئی کا منحرف رکن صوبائی اسمبلی نذیر احمد بلوچ اب مسلم لیگ( ن) کا امیدوار ہے۔ وہاں سے پی ٹی آئی کا ا میدوار عزت جاوید خان ہے جس نے الیکشن 2018 ء میں آزاد امیدوار کے طور پر 357 ووٹ لئے تھے۔ اس حلقے سے گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ کی طرف سے الیکشن لڑ کر چالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ لینے والے رفیع الدین بخاری اب آزاد امیدوار ہیں۔ رفیع الدین بخاری کا اپنا حلقہ اثر تو ہے ہی‘ تاہم مسلم لیگ (ن) کے ووٹروں اور اپنے دوستوں میں انہوں نے مشہور کر دیا ہے کہ وہ جیت کر یہ سیٹ مسلم لیگ (ن) کے حوالے کر دیں گے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ خواہ مسلم لیگ( ن) جیتے یا آزاد امیدوار‘ یہ سیٹ مسلم لیگ( ن) کے کھاتے میں جاتی نظر آ رہی ہے۔ تاہم بات پھر وہی کہ ابھی الیکشن میں دو ہفتے باقی ہیں اور صورتحال بدلنے کے لیے اتنے دن بہت ہوتے ہیں۔ ایک انگریزی محاورے کے مطابق ''کپ کے ہونٹوں تک پہنچنے کے درمیان کہیں بھی توازن بگڑ سکتا ہے‘‘۔ مرکزی حکومت اور پنجاب سرکار اپنا پورا زور لگا رہی ہے۔ ضمنی الیکشن والے حلقوں میں لوڈشیڈنگ زیرو ہے‘ سستے راشن کی بھرمار ہے اور مستقبل کے وعدوں کا طومار ہے۔
قارئین ! یہ تو وہ منظر نامہ ہے جو فی الوقت دکھائی دے رہا ہے مگر ہمارے ہاں سب کچھ دیدہ نہیں بہت کچھ نادیدہ بھی ہے۔ منحرفین کو گارنٹیاں دینے والے انہیں بیچ چوراہے لاوارث تو نہیں چھوڑیں گے اور الیکشن کو اغوا کرنے کا عشروں پر مبنی تجربہ رکھنے والے بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھے رہیں گے۔ جہاں مجھ جیسوں کے اندازے ختم ہوتے ہیں وہاں زور آوروں کی حد شروع ہوتی ہے۔ میرے لکھے کو حتمی جان کر مطمئن یا پریشان ہونے والے اپنے نفع و نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے۔
جاگدے رہناں‘ ساڈے تے نہ رہناں۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں