"KMK" (space) message & send to 7575

سبزہ،درخت اور جنگل…(3)

ہمارا مسئلہ دوطرفہ ہے‘ پہلا یہ کہ ہمیں درخت لگانے سے ہی اول تو کوئی دلچسپی نہیں ۔ بچے کو نہ تو گھر میںدرخت یا پودے سے محبت کی تربیت دی جاتی ہے اور نہ ہی سکول میں اس قسم کی کسی ''بدعت‘‘ کی کوئی گنجائش ہے۔ بچپن سے لے کر اس بڑھاپے کی آمد تک ہر سال اخبارات اور اشتہارات میں شجرکاری کی مہم کو ہمیشہ سے دیکھتے اور پڑھتے آئے ہیں مگر اس کا عملی نتیجہ کبھی نکلتے نہیں دیکھا۔ ہر سال محکمہ جنگلات کاغذوں‘ کتابوں میں لاکھوں پودے لگاتاہے۔ اشتہارات کی مد میں لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے‘ نرسریوں اور سٹالز کے ذریعے لاکھوں پودے اور قلمیں فروخت کی جاتی ہیں لیکن نوے فیصد سے زیادہ پودے ''حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے‘‘ کی عملی تفسیر بن کر درخت بننے کے مرحلے سے کہیں پہلے ناپید ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے ایمرسن کالج کے سابقہ پرنسپل ملک اللہ یار مرحوم کو ‘صبح ہی صبح اپنی سرکاری رہائش گاہ سے نکلتے اور اپنے دفتر آنے تک ایک ایک پودے اور ایک ایک درخت کو بڑی توجہ سے دیکھتے۔ پانی کی کمی ہوتی تو بشیر مالی کو بلا کر ہدایات دیتے۔ توجہ کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی پودا مناسب رفتار سے بڑھ نہ پا رہا ہوتا یا کسی پودے کی شاخیں کسی نے توڑ دیں ہوتیں تو مالی کو خاصی ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کرے ‘تب ہم ان کی پودوں اور درختوں سے محبت اور نگہداشت دیکھ کر ان کو ''بیلدار پرنسپل‘‘ کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ اپنی اس جہالت پر اللہ کے حضور بارہا معافی مانگی اور آج پھر اس رحیم کے ہاں معافی کی درخواست ارسال کی ہے۔ کیا لوگ تھے اور کس طرح لگن اور محبت سے تعلیم و تربیت کے ساتھ عملی طور پر ہمیں کچھ نہ کچھ سکھانے کی کوششوں میں ہمہ وقت مصروف رہا کرتے تھے اور ہم ایسے بدقسمت کہ تب چکنے گھڑے بنے ہوئے تھے اور آج عشروں بعد شرمساری ہو رہی ہے۔
ہمارا ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اول تو شجر کاری ہماری قومی ترجیحات میں بہت ہی نچلے درجے پر ہے اور ہم اس سلسلے میں عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے زبانی جمع خرچ اور شجرکاری کی مہم میں نوٹ چھاپنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ درختوں کی کمی کے سلسلے میں دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے درخت لگانے پر توجہ دینے کے برعکس درخت کاٹنے پر بہت توجہ دی ہے اور اس معاملے میں زور آوروں نے اپنی سی کوشش کی ہے اور جو علاقے چند عشرے قبل سرسبز و شاداب تھے اب ٹنڈ منڈ اور گنجے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ٹنڈ منڈ ہونے سے یاد آیا کہ میرے اس کالم کی دو قسطیں پڑھ کر کسی ''شجر دوست‘‘ شخص نے مجھے پاکستان سے میل کی ہے اور ایک ہی جگہ کی گوگل ارتھ کی دو عدد تصاویر بھیجی ہیں۔ یہ دو تصاویر محض دو تصاویر نہیں‘ ایک المیے کو بیان کرتا ہوا تعزیتی پیغام ہے۔ یہ تصاویر ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے سیٹلائٹ امیجز پر مشتمل ہیں۔ ایک تصویر میں ریڈیو پاکستان راولپنڈی کی عمارت درختوں کے جھنڈ میں گھری ہوئی ہے اور اس کی مکمل چھت بمشکل دکھائی دے رہی ہے۔ گوگل ارتھ سے حاصل کی گئی یہ تصویر دسمبر 2021ء کی ہے۔ اس کے بعد والی دوسری تصویر میں سے درخت غائب ہیں۔ سرسبز و شاداب ریڈیو پاکستان راولپنڈی کی عمارت کے اردگرد محض گنتی کے چند درخت دکھائی دے رہے ہیں اور باقی سارا میدان صاف ہے اور ہر جگہ محض مٹی دکھائی دے رہی ہے۔ صرف اس جگہ سے قریب چھ سو تناور اور عشروں پرانے درخت کاٹ کر بیچ دیے گئے ہیں۔ یہ دوسری تصویر بھی گوگل ارتھ سے لی گئی ہے اور یہ مئی 2022ء کی ہے یعنی ان درختوں پر قیامت دسمبر 2021ء اور مئی 2022ء کے درمیان گزری ہے۔ درختوں کی اس کٹائی کے پیچھے جو کہانی ہے وہ بڑی المناک ہے۔
پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن پاکستان بھر میں چلنے والے ریڈیو سٹیشنز کی انتظامی مالک سرکاری کارپوریشن ہے اور بدترین مالی بحران کا شکار ہے۔ کارپوریشن نے اپنے ملازمین اور ریڈیو سے متعلقہ لوگوں کی ایک ارب کے لگ بھگ ادائیگی کرنی ہے اور اس کے پاس اس مقصد کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ کارپوریشن نے خسارے کو کم کرنے کی غرض سے اکتوبر 2020ء میں 749کنٹریکٹ ملازمین کی چھٹی کروا دی مگر اس کے باوجود بات نہ بنی تو فروری 2022ء میں یہ طے پایا کہ کارپوریشن کے فالتو اثاثے وغیرہ فروخت کر کے ملازمین اور متعلقہ افراد کے بقایا جات ادا کئے جائیں۔ اس مقصد کیلئے انتظامیہ کی پہلی نظر ان درختوں پر پڑی۔ اس پیسے اکٹھے کرنے کی مہم کا آغاز راولپنڈی اور پشاور ریڈیو سٹیشنز کے سینکڑوں درختوں سے کیا گیا۔ ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے اڑھائی ایکڑ رقبے سے سینکڑوں درخت کاٹ کر بیچ دیے گئے۔ جس المناک کہانی کا میں نے ذکرکیا تھا وہ یہ ہے کہ کٹنے والے درختوں میں سے چھ سو سے زائد درخت جو بہت پرانے اور قدیمی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت تناور اور صحت مند تھے‘ صرف سات لاکھ روپے میں کاٹ کر بیچ دیے گئے ہیں۔ اول تو مجھے گمان ہے کہ اس کی انکوائری ہی نہیں ہوگی۔ اگر بفرضِ محال ہو بھی گئی تو حسبِ معمول ایک آدھ کلرک‘ دو تین چپڑاسی و چوکیدار قسم کے درجہ چہارم کے ملازمین کو معطل یا برطرف کر دیا جائے گا جو دوسرے دن عدالت سے حکم ِامتناعی لے آئیں گے اور معاملہ ختم ہو جائے گا۔
میں یہ قصہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اوسلو میں اپنے دوست خالد محمود کے ساتھ گھوم رہا تھا کہ اس نے ایک گھر کے صحن میں لگے ہوئے درخت کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ جب یہ گھر فروخت ہوا تو نئے خریدار کو اس گھر کے صحن میں لگا ہوا یہ درخت کٹوانے کا خیال آیا۔ اس نے اس کیلئے سٹی گورنمنٹ سے اجازت مانگی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ مالک مکان نے سٹی گورنمنٹ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ اس کا موقف تھا کہ یہ مکان میرا ہے‘ میں اس کا درخت سمیت مالک ہوں اور یہ میری مرضی کہ میں اپنے ملکیتی درخت کو کاٹوں یا رکھوں۔ عدالت نے اس کا موقف مسترد کر دیا۔ وہ اپیل میں گیا اور وہاں بھی ہار گیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ آپ کے گھر کے صحن میں لگا ہوا درخت صرف آپ کی ملکیت نہیں یہ اوسلو شہر کے بائیس بچوں کیلئے آکسیجن فراہم کرنے کا قدرتی ذریعہ ہے اور آپ کا حقِ ملکیت وہاں ختم ہو جاتا ہے جہاں اوسلو کے بائیس بچوں کا اس درخت سے فراہم کردہ آکسیجن پر حقِ ملکیت شروع ہوتا ہے۔ اللہ جانے وہ والا مالک مکان اب اس گھر میں ہے یا نہیں‘ مگر وہ درخت موجود ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ درخت مالکِ مکان کے نہیں بلکہ اس علاقے کے تمام رہائشیوں اور شہریوں کی ملکیت ہوتے ہیں۔
ملتان میں نو نمبر چونگی کے ساتھ سرکاری گرین بیلٹ میں دو تین دیوہیکل شیشم کے درخت تھے۔ ایک روز دیکھا کہ درخت کٹ رہے ہیں۔ میں ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا۔ اس اللہ کے بندے نے جب تک روکنے کا بندوبست کیا تب تک ایک درخت کٹ چکا تھا۔ وجہ معلوم کی تو علم ہوا کہ یہ درخت چوک کی دوسری طرف ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے بڑے بل بورڈ کو دور سے دیکھنے میں رکاوٹ تھے اس لئے کاٹے جا رہے ہیں۔ تب تو ان درختوں میں سے ایک کے علاوہ باقی بچ گئے لیکن تھوڑا عرصہ بعد وہ درخت فلائی اوور کی زد میں آ کر کٹ گئے۔
گرمی کی شدت‘ گلوبل وارمنگ اور گاڑیوں سے خارج ہونے والی بے تحاشا کاربن مونوآکسائیڈ کو قدرتی طریقے سے کم کرنے کا واحد ذریعہ صرف اور صرف درخت ہیں۔ اس سلسلے میں صرف حکومت کو ہی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ اس مہم میں والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ خود والدین اور استاد بھی اس معاملے کی سنگینی اور اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں