"KMK" (space) message & send to 7575

توشہ خانہ سے کھلنے والے نئے کٹے … (آخری)

توشہ خانہ کی لوٹ مار سے مستفید ہونے والے شرفا کا طریقۂ واردات ایک دوسرے سے مختلف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف ادوار میں توشہ خانہ کے قوانین تبدیل ہوتے رہے ہیں اور ہر بار طریقۂ واردات اسی قانون کو مدنظر رکھ کر اپنایا گیا تھا‘ اسی لیے ہر بار نئی پتلی گلی تلاش کی گئی۔
میاں نواز شریف صاحب 2002ء سے 2023ء تک کی پہلی جاری ہونے والی اس تفصیلی فہرست والے عرصہ میں جون 2013ء سے جولائی 2017ء تک چار سال وزیراعظم پاکستان رہے۔ توشہ خانہ کی جاری ہونے والی تفصیل میں سن 2008ء کی فہرست میں سیریل نمبر 34کے آگے درج ہے کہ ایک عدد مرسڈیز بینز گاڑی جن کی مالیت تب 4255919روپے تھی (مرسیڈیز کی لگائی گئی قیمت سے چور بازاری کا اندازہ کر لیں)۔ میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان نے یہ گاڑی مورخہ 20اپریل 2008ء کو اس کی تخمینہ شدہ قیمت کا 15فیصد مبلغ 636888روپے جمع کروا کر حاصل کی۔ سوال یہ ہے کہ مورخہ 20اپریل 2008ء کو تو میاں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم تھے ہی نہیں تو انہوں نے یہ گاڑی کس حساب سے وزیراعظم پاکستان کے کھاتے میں حاصل کی؟ اس وقت تو ہمارے گرائیں سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ میاں صاحب نے تب کی پیپلز پارٹی کی حکومت سے ملی بھگت کرکے سرکاری خزانے کو چونا لگایا اور اپنا الو سیدھا کرتے ہوئے کروڑوں کی گاڑی چند لاکھ میں مار لی۔ موصوف 1999ء میں وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہوئے تھے۔ اگر یہ گاڑی ان کو تب ملی تھی تو قواعد کی رو سے وہ اسے چار ماہ کے اندر حاصل کر سکتے تھے بصورتِ دیگر یہ گاڑی بحق توشہ خانہ ضبط ہو جاتی۔
میاں نواز شریف نے 2016ء میں بارہ لاکھ روپے کی زنانہ گھڑی اور 2017ء میں دس لاکھ روپے کا زنانہ ڈائمنڈ نیکلس بھی توشہ خانے سے خریدا۔ انہوں نے بائیس لاکھ روپے سے زائد مالیت کی دونوں زنانہ اشیا محض چار لاکھ بیس ہزار میں پار کر لیں۔ تب وزیراعظم اور صدر کے علاوہ دس لاکھ روپے سے زائد کا تحفہ کوئی اور شخص نہیں لے سکتا تھا لہٰذا میاں صاحب نے بیگم کو ملنے والے تحفے اپنے کھاتے میں کھسکا لیے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ درجنوں مرد حضرات نے زنانہ میک اَپ‘ جس میں نیل پالش وغیرہ شامل تھیں‘ سستے داموں ہتھیا لیا۔
اسی دوران ہمارے معاشی جادوگر اور حساب کتاب کے ماہر اکاؤنٹنٹ جناب اسحاق ڈار نے اپنی ہوشیاری سے ہندسوں کو ادھر ادھر گھما پھرا کر سرکار کو اٹھائیس لاکھ روپے سے زیادہ کا چونا ایسا صفائی سے لگایا کہ میرے گھر کی عرصہ تیس سال سے سفیدی کرنے والا شبیر رنگساز بھی یہ مہارت دیکھ لے تو حیران و پریشان رہ جائے۔ موصوف اگست 2017ء میں شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ان کے سعودی عرب کے پہلے سرکاری دورے پر جانے والے وفد میں شریک تھے۔ وہاں ان کو بھی معزز مہمان سمجھتے ہوئے مبلغ چونسٹھ لاکھ روپے کے تحائف‘ جن میں کرسٹوفر کلارٹ کی گھڑی‘ انگوٹھی‘ کف لنکس‘ پین اور تسبیح شامل تھی‘ ملے جو موصوف مبلغ بیس فیصد ادائیگی کر کے گھر لے گئے۔ قانون کی رو سے وہ یہ سارے تحائف بیس فیصد پر خریدنے کے مجاز ہی نہیں تھے۔ تب قانون کی رو سے کوئی بھی شخص علاوہ صدر یا وزیراعظم کے علاوہ کوئی بھی ایک دورے میں دس لاکھ سے زائد اور ایک سال کے اندر خواہ وہ کتنے ہی بیرونی دورے کیوں نہ کرے‘ پچیس لاکھ روپے سے زائد کے تحائف اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا؛ تاہم مستفید ہونے والوں نے اس میں ترمیم کی کہ زائد رقم والا تحفہ پینسٹھ فیصد ادائیگی کر کے لیا جا سکتا ہے لیکن اسحاق ڈار نے اپنے ہندسوں کے ہیر پھیر والا تجربہ بروئے کار لاتے ہوئے چونسٹھ لاکھ والے تحفوں پر پینسٹھ فیصد کے حساب سے اکتالیس لاکھ ساٹھ ہزار روپے کی ادائیگی کرنے کے بجائے محض بارہ لاکھ اسی ہزار روپے ادا کر کے حکومت کو مبلغ اٹھائیس لاکھ اسی ہزار روپے کا کلچہ لگا گئے۔ یاد رہے تب ڈالر 105روپے کا تھا۔
دس لاکھ روپے سے کم مالیت کے تحفے کی پابندی کو چکر دینے کے لیے تحفوں کی قیمت کا تخمینہ لگاتے ہوئے ڈنڈی ماری گئی اور 2017ء میں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ دورے پر جانے والے فواد حسن فواد‘ ملٹری سیکرٹری اکمل عزیز‘ سفیر ہاشم بن صدیق‘ اسحاق ڈار‘ سرتاج عزیز وغیرہ کو ملنے والی گھڑیاں خواہ وہ رولیکس اوئسٹر تھی‘ یاٹ ماسٹرتھی یا پرپچوئل تھی‘ سب کا باٹا ریٹ لگاتے ہوئے قیمت کا تخمینہ نو لاکھ اسی ہزار روپے لگایا گیا۔ رولیکس کی قیمتوں میں ایسا بھائی چارہ اور سستا پن دنیا میں اور کہیں دیکھنے میں نہیں آ سکتا۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ ہاتھ کی صفائی ہمارے شاہد خاقان عباسی نے دکھائی۔ وزیراعظم بننے کے بعد سعودی عرب کے پہلے سرکاری دورے پر گئے تو بال بچوں کو ساتھ لے گئے۔ ہمارے سارے حکمران عرب ممالک میں جاتے ہوئے اپنا سارا ٹبر ہمراہ لے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ تحفے سمیٹے جا سکیں۔ خیر سے وہ اپنی اہلیہ اور تین بیٹوں کو ساتھ لے گئے۔ حسبِ توقع تحفے تو ملے لیکن مصیبت یہ ہو گئی کہ تحفے توقع سے بھی کہیں زیادہ قیمتی تھے۔ ان کی بیگم کو تحفے میں ملنے والے زیورات کی قیمت نو کروڑ ننانوے لاکھ‘ بیٹے عبداللہ خاقان کو ملنے والے تحفوں کی قیمت دو کروڑ ستر لاکھ کے لگ بھگ‘ دوسرے بیٹے نادر خاقان کے تحفوں کی قیمت دو کروڑ پندرہ لاکھ اور تیسرے برخوردار حیدر خاقان کو صرف اسی لاکھ کے تحفے ملے۔ اب یہ کل تحفے پندرہ کروڑ روپے سے زیادہ کے ہو گئے تو شاہد خاقان صاحب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ہاں! یاد آیا انہیں خود جو تحفے ملے وہ ان کے علاوہ تھے۔ قانوناً ان کے گھر والے دس لاکھ سے زیادہ رقم کا تحفہ لے نہیں سکتے تھے اور ادھر معاملہ کروڑوں تک چلا گیا تھا۔ وہ 23اگست 2017ء کو دورے پر روانہ ہوئے تاہم اگست کے مہینے میں واپس آنے کے باوجود انہوں نے اپنے تحفے نہ تو توشہ خانہ میں جمع کروائے اور نہ ہی ڈکلیئر کیے۔ تاوقتیکہ انہوں نے 13اکتوبر 2017میں توشہ خانہ قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے صدر اور وزیراعظم کے علاوہ دیگر تمام لوگوں کے لیے بھی تحفوں کی مالیت کی حد ختم کر دی اور ادائیگی کی شرح بیس فیصد کرتے ہوئے اگست میں وصول کیے گئے تحفے سترہ اکتوبر اور اٹھائیس نومبر 2017ء کو ڈکلیئر کر کے خرید لیے۔ اس ڈیل میں انہوں نے پینسٹھ فیصد کے بجائے بیس فیصد ادائیگی کرکے اپنی ہی حکومت کو مبلغ چھ کروڑ پچھتر لاکھ روپے کا رگڑا لگایا۔
پائن ایپل کے ڈبوں پر فخر سے اپنی صفائی اور ایمانداری کے نعرے لگانے والی مریم نواز شریف کا معاملہ سب سے عجیب ہے۔ ان کا توشہ خانے کے کسی تحفے کو ہتھیانے میں نام نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے کوئی تحفہ پار نہیں کیا۔ ہاں! البتہ انہوں نے توشہ خانے سے واقعی کچھ نہیں لیا۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تحفہ توشہ خانے میں جمع ہی نہیں کروایا تھا۔ پانامہ پیپرز کی جے آئی ٹی کے صفحہ 333اور 334کے مطابق ان کو یو اے ای کے شاہی خاندان نے ایک BMW گاڑی تحفے میں دی جو وہ توشہ خانے میں جمع کروانے کے بجائے سیدھی گھر لے گئیں۔ یعنی اس تحفے کی تو سرکاری قیمت بھی نہ لگی جس کی بیس فیصد ادائیگی کی جاتی۔ انہوں نے یہ گاڑی صرف پینتیس لاکھ کسٹم ڈیوٹی کے عوض رکھ لی۔ بعد ازاں انہوں نے بھی یہ تحفہ نہ صرف دو کروڑ اسی لا کھ روپے میں فروخت کر دیا بلکہ اس ساری خریدو فروخت کو اپنی اس سال کی انکم ٹیکس ریٹرن میں بھی ظاہر کیا۔
قارئین! ابھی میں نے توشہ خانے کے بہت سے کٹوں میں سے چند کٹے کھولے ہیں۔ دیکھتے ہیں اب کوئی یہ کٹے باندھتا ہے یا ذبح کرتا ہے۔ ہم نے تو اپنا فریضہ سرانجام دے دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں