"KMK" (space) message & send to 7575

ہیں مدتوں سے کہیں لاپتہ کمال کے دن… (آخری)

مال روڈ کے اس سرے پر میری آخری منزل چڑیا گھر ہوتا تھا۔ آپ یقین کریں میں ہر تیسرے چوتھے روز ایک بار ضرور چڑیا گھر جاتا تھا۔ خیر سے ماموں کے گھر سے تو پیدل کا راستہ تھا‘ میں تو شادباغ سے بھی چوتھے پانچویں دن چڑیا گھر جانے کی ضد کرتا۔ بڑا ہونے پر تائی اقبال میرا بڑا مذاق اڑاتی تھیں لیکن میرا کیا ہے‘ میں تو اب بھی ہر ایک ڈیڑھ سال بعد چڑیا گھر چلا جاتا ہوں۔ راستے میں چیئرنگ کراس والی بارہ دری میں بیٹھنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ بعد میں اس جگہ اسلامی سربراہی کانفرنس کا مینار اور چھوٹا سا نمائشی تہہ خانہ بن گیا۔ پھر سکیورٹی کے مسائل کے باعث سب کچھ بند کر دیا گیا۔ کبھی لاہوری اس کے لان میں شیشے کی بوتلیں کھنکھناتے مالشیوں کے فن سے لطف اندوز ہوتے تھے‘ اب خاردار تار کے پیچھے سے اس لان کو حسرت سے دیکھتے ہیں۔
انارکلی سے لوئر مال کی جانب والا مال روڈ کا ٹکڑا دوسرے حصے کی نسبت بہت مختصر تھا۔ انارکلی سے نکلے‘ سامنے ٹولنٹن مارکیٹ تھی‘ اس کے ساتھ عجائب گھر پھر نیشنل کالج آف آرٹس اور آخر میں لاہور میونسپل کارپوریشن کا دفتر اور قصہ ختم۔ کارپوریشن کی عمارت کے سامنے گول باغ تھا بعد میں جس کا نام ناصر باغ رکھ دیا گیا۔ یہ لاہور کے قدیم ترین باغات میں سے ہے۔ اس میں اور لارنس گارڈن میں ایسے ایسے درخت تھے کہ کہیں اور دکھائی نہ دیتے۔ میں شاید پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس باغ میں مَیں نے چڑیا گھر سے باہر آزاد فضا میں پہلی بار دھنیس (Hornbill) دیکھا۔ عجائب گھر اتنی بار دیکھا کہ حفظ ہو گیا۔ زمزمہ توپ کو ہر بار چھو کر دیکھا جاتا اور اس کے سامنے لگے ہوئے سر ایلفرڈ وولنر کے مجسمے کو ضرور دیکھا جاتا۔ یہ مسافر آج بھی ادھر سے گزرے تو اسی بچپن والی حیرت اور شوق سے اس مجسمے کے پاس ضرور ٹھہرتا ہے۔
الفرڈ کوپر وولنر نے 1903ء میں پچیس سال کی عمر میں بطور رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی جوائن کی۔ سنسکرت کا یہ عالم بعد ازاں اورینٹل کالج کا پہلا پرنسپل تعینات ہوا۔ 1928ء میں الفرڈ وولنر پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلر بن گیا اور 1936ء میں اپنی وفات تک اس عہدے پر فائز رہا۔ نمونیہ کے باعث انتقال کرنے والے الفرڈ وولنر کو گورا قبرستان لاہور میں دفن کیا گیا۔ وولنر کی اہلیہ میری ایملی وولنر کی وفات 1944ء میں ہوئی اور اس نے اپنی وصیت میں اپنی جائیداد کا بیشتر حصہ پنجاب یونیورسٹی کو عطیہ کردیا۔
بارہ‘ چودہ روز پہلے لاہور جانا ہوا تو حسبِ عادت مال روڈ پر پیدل گھومنا شروع کردیا۔ پہلے ارادہ کیا کہ چیئرنگ کراس تک پیدل جاؤں مگر جی پی او کے آگے ٹریفک پھنسی ہوئی تھی۔ کسی نے بتایا کہ عمران خان کی ہائی کورٹ میں آمد کے پیش نظر میڈیا کی گاڑیوں اور تحریک انصاف کے حامیوں کی آمد کے باعث راستہ تقریباً بند ہی ہے۔ تو میں پھر دوسری طرف چل پڑا۔ ٹولنٹن مارکیٹ‘ جو اَب میوزیم بنا دی گئی ہے‘ حسبِ معمول بند تھی۔ میں نے عجائب گھر کے سامنے سے سڑک پار کی اور زمزمہ والے تھڑے پر چڑھ گیا۔ بیسیوں مرتبہ کے پڑھے ہوئے توپ کے تعارفی کتبے کو پڑھنے کی کوشش کی مگر کبوتروں کی بیٹوں نے سب کچھ اپنے نیچے چھپا لیا تھا۔ ادھر سے میں لاہور کے تب کے اکلوتے مجسمے کے سامنے پہنچ گیا۔ یہ ڈاکٹر الفرڈ وولنر کا مجسمہ تھا۔ سات فٹ نو انچ قامت کا یہ مجسمہ مئی 1937ء میں برطانیہ کے مجسمہ ساز گلبرٹ لِڈوارڈ نے بنایا۔ اس مجسمے کو بھی اس جگہ سے ہٹانے کیلئے 1951ء میں کوشش کی گئی مگر ناکام رہی؛ تاہم اب لاہور میں کئی مجسمے ہیں۔ الحمرا کمپلیکس اپر مال میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے علاوہ بھی ایک آدھ اور مجسمہ لگ چکا ہے۔ بلکہ باقی تو چھوڑیں‘ شاہی قلعہ میں راجہ رنجیت سنگھ کا گھوڑے پر سوار مجسمہ تک سج گیا ہے‘ لیکن لاہور اپنے پرانے اور تاریخی مجسموں سے محروم ہو چکا ہے۔
پنجاب کے پہلے گورنر جنرل اور بعد ازاں برٹش انڈیا کے گورنر جنرل سرجان لارنس کا نہایت ہی شاندار مجسمہ‘ جس نے ہاتھ میں قلم پکڑا ہوا تھا‘ کبھی لاہور ہائی کورٹ کے سامنے لگا ہوا تھا‘ قیام پاکستان کے بعد یہاں سے شمالی آئرلینڈ لے جایا گیا اور اب وہاں لگا ہوا ہے۔ خدا جانے ایڈورڈ ہفتم کے گھوڑے پر سوار کانسی کے مجسمے کا کیا بنا۔ کم از کم اس عاجز کو تو اس کی کوئی خبر نہیں کہ وہ کدھر چلا گیا۔
تب میرا دل اچانک پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کو دیکھنے کیلئے مچل پڑا۔ الفرڈ وولنر کے مجسمے سے آگے دوسرے دروازے کے ساتھ والا چھوٹا دروازہ کھلا تھا اور وہاں ایک خاتون رجسٹر لیے بیٹھی تھیں۔ میں نے گمان کیا کہ اس دروازے پر میرا شناختی کارڈ نمبر لکھا جائے گا یا زیادہ سے زیادہ اسے اپنے پاس رکھ لیں گے اور مجھے اندر جانے کی اجازت مل جائے؛ تاہم اس صورت میں مجھے اپنا سابقہ پلان چوپٹ ہوتا دکھائی دیا کہ میں نے سوچا تھا کہ ادھر سے گزر کر اپنے پرانے شعبہ فائن آرٹس سے ہوتا ہوا سینیٹ ہال سے پیچھے کچہری روڈ پر نکلوں گا اور سڑک پار کرکے اورینٹل کالج جاؤں گا جہاں ابھی کچھ مہربان چہرے ایسے ہیں جو مجھے دیکھ کر کھل اٹھیں گے۔
خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کہاں جانا ہے؟ میں نے اسے کہا کہ میں اس دروازے پر ہوں تو ظاہر ہے اولڈ کیمپس میں داخلے کا امیدوار ہوں کہ یہ دروازہ کہیں اور تو نہیں کھلتا۔ خاتون نے پوچھا کہ مجھے کس سے ملنا ہے؟ میں نے کہا ویسے تو مجھے ان در و دیوار میں خود سے ہی ملنا ہے لیکن آپ یوں سمجھ لیں کہ مجھے ان در و دیوار سے‘ برآمدوں سے‘ راہداریوں سے‘ روشوں اور کیاریوں سے ملنا ہے۔ اس خاتون نے اپنے سینئر سکیورٹی آفیسر کو یہی بات بتائی تو سکیورٹی آفیسر نے بڑی رُکھائی سے کہا کہ آپ اندر نہیں جا سکتے‘ کسی کو عمارت دیکھنے‘ سیرکرنے یا بلاوجہ گھومنے کی اجازت نہیں۔ میں نے اسے کہا کہ میں ادھر کبھی کتاب و قلم اٹھا کر گھوما کرتا تھا‘ اب صرف اسی یاد کو وسیلہ بنا کر اپنے ماضی میں چند لمحے گزارنے کا خواہشمند ہوں۔ بھلا میں ان در و دیوار کو کونسا اٹھا کر لے جاؤں گا۔ وہ کہنے لگا: اس عمارت میں داخلے کیلئے آپ کو نیو کیمپس سے تحریری اجازت نامہ لانا پڑے گا۔ میں نے پوچھا‘ اس کیلئے مجھے نیو کیمپس پیدل جانا پڑے گا یا سواری کرکے جا سکتا ہوں؟ وہ ہونقوں کی طرح مجھے دیکھنے لگ گیا۔ پھر کہنے لگا: آپ اپنا اور میرا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ کسی صورت اس عمارت کے اندر نہیں جا سکتے جب تک کہ آپ کے پاس اس میں داخلے کا اجازت نامہ نہیں ہوگا۔ میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور واپس چل پڑا۔ دو قدم چل کر میں رُکا اور اسے کہا کہ تمہیں مبارک ہو! تم نے آج اس تاریخی عمارت کو میرے ہاتھوں چوری ہونے سے بچا لیا ہے۔
اوپر سے گھوم کر میں انارکلی سے ہوتا ہوا کچہری روڈ سے اورینٹل کالج چلا گیا جہاں مجھے ڈاکٹر معین نظامی سے ملنا تھا۔ فارسی کے بے مثل استاد‘ محقق‘ عالم اور نظم کے بے مثل شاعر کے ساتھ وقت تو جیسے پَر لگا کر اُڑ گیا۔ وہیں ڈاکٹر شعیب آ گیا۔ یہ دو گھنٹے ایسے شاندار گزرے کہ مہینوں کی کلفت دور ہو گئی۔ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کی دید سے محرومی کا غم ہوا ہو گیا۔ انار کلی میں پرانے مندر پر کپڑے والوں کے قبضے کا ملال مٹ گیا اور کلاسیک جیسی کتابوں کی دکان سے شیلف میں بدل جانے کا ملال وقتی طور پر اڑن چھو ہو گیا۔ سوچتا ہوں اس تاسف بھرے ماحول میں ڈاکٹر معین نظامی جیسے لوگ‘ اچھی کتاب اور دل کی تاروں کو چھونے والے اشعار نہ ہوتے تو ہمارا کیا بنتا‘ کہ دل کی خوشی کیلئے اب یہاں باقی بچا ہی کیا ہے۔ چند چیزوں کا دم غنیمت ہے وگرنہ حال یہ ہے کہ
کسی فراق میں رکھے ہوئے وصال کے دن
ہیں مدتوں سے کہیں لاپتہ کمال کے دن
(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں