"KMK" (space) message & send to 7575

لاحاصل موازنہ

یورپ کے تقریباً تمام پرانے شہروں کی بیشتر تاریخی اور پرانی عمارتیں پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ وہاں تقریباً ہر جگہ یا اس کے نزدیک پتھر بہ آسانی دستیاب تھے اور دوسری وجہ یہ کہ پتھر کی عمارت اینٹ گارے وغیرہ سے تعمیر کردہ عمارت سے کہیں زیادہ مضبوط‘ دیرپا اور بارعب ہوتی ہے۔ بادشاہوں کو ان تینوں چیزوں سے ہی غرض تھی کہ ان کی تعمیر کردہ عمارت مضبوط ہو‘ دیرپا ہو تاکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کی حکمرانی کی گواہ ہو اور بارعب ہو جو اُن کے دبدبے کی عکاسی کرتی رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ اور باقی یورپ کی ہزار سال پرانی عمارت بھی اس مضبوطی کے ساتھ جمی کھڑی دکھائی دیتی ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔
جب بھی یہ مسافر اپنے سفر کے دوران دیکھی جانے والی چیزوں کا اپنے ہاں والی چیزوں سے تقابل کرتا ہے تو بعض قارئین اس پر طنز اور طعنوں کے تیر چلانا شروع ہو جاتے ہیں کہ مسافر مغرب اور یورپ سے مرعوب اور احساس ِکمتری کا شکار ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ طعنہ بازی وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے یورپ کی وہ چیزیں سرے سے دیکھی ہی نہیں جنہیں وہ کمتر اور گھٹیا سمجھتے ہیں۔ ویسے تو لاعلمی ہزار نعمت ہے لیکن اس لاعلمی کی بنیاد پر استوار کیا گیا علم بہت ناقص اور نقصان دہ ہوتا ہے۔
یورپ میں قلعے اور محلات ایسے شاندار‘ پائیدار‘ خوبصورت اور اعلیٰ ہیں کہ ان کا موازنہ اپنے یہاں والے قلعوں اور محلات سے کرنا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں۔ تاہم میں یہ بات عمومی حساب سے کر رہا ہوں۔ بعض جگہوں پر اس عمومی رائے کو استثنا حاصل ہے۔ مثلاً شیر شاہ سوری کا پتھر سے تعمیر کردہ روہتاس کا قلعہ۔ لیکن حال یہ ہے کہ یہ عظیم الشان قلعہ لا پروائی اور نااہلی کے سبب شکست و ریخت کا شکار ہو کر آہستہ آہستہ کھنڈر میں بدلتا جا رہا ہے۔ یہی حال صحرائے چولستان کے بے رحم سینے پر صدیوں سے موجود قلعہ دراوڑ کا ہے اور اسی بربادی کا شکار رانی کوٹ کا قلعہ ہے جس کی حفاظتی دیوار بتیس کلو میٹر پر محیط ہے۔ اس چھوٹی سی ''دیوار ِچین‘‘ کو دیکھ کر حسرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے لوگ تھے جنہوں نے اسے تعمیر کیا اور پھر افسوس ہوتا ہے کہ ہم کیسے نااہل اور نالائق ہیں کہ محض اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
یورپ میں قلعے عام طور پر کسی بلند پہاڑی یا چٹان پر ہیں جو دفاعی نقطہ نظر سے درست ہے کہ ان بلند قلعوں سے دشمن کی نقل و حرکت کو دیکھنا آسان اور دشمن کی قلعے تک رسائی مشکل ہوتی تھی۔ پتھر ویسے ہی مضبوط ہوتا ہے لیکن ان قلعوں میں استعمال ہونے والے پتھر ایسے ہیں جن میں بھربھرا پن نام کو نہیں ہے۔ ان قلعوں کے اندر فوجیوں کی بیرکیں تو خیر ہیں ہی تقریباً ہر قلعے میں بادشاہ یا ملکہ کی رہائش گاہ بھی ضرور ہے۔ چھوٹے قلعوں میں محض رہائشی کمرے اور بڑے قلعوں میں پورے رہائشی کمپلیکس موجود ہیں۔ رہائشی معیار ایسا پُرتعیش‘ شاندار اور آرام دہ کہ واقعی کسی حکمران کی رہائش کے قابل لگتا ہے۔ ادھر لاہور کے شاہی قلعے میں شاہ جہان کی تعمیر کردہ مغلیہ رہائشی حصے کا معیار اور حالت دیکھیں تو دونوں کے درمیان کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا۔
محلات کا یہ عالم ہے کہ کم از کم جو علاقہ پاکستان میں ہے ادھر تو کوئی محل بھی اس معیار کو پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جو یورپ کے بادشاہوں نے قائم کیے ہیں۔ پاکستان میں ہنزہ کے حکمرانوں کے اَلتِت اور بَلتِت قلعے کے اندر رہائشی کمرے‘ چترال کے مہتر کا محل‘ خیرپور کے تالپور حکمرانوں کا فیض محل‘ کراچی کا موہٹہ پیلس اور بہاولپور کے عباسی حکمرانوں کے محلات کے علاوہ لاہور کے شاہی قلعے میں مغلیہ شہنشاہ شاہجہاں کی تعمیر کردہ خواب گاہیں اس مسافر نے بذاتِ خود دیکھ رکھی ہیں اور اس کے بعد یورپ کے محلات دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ہمارے بادشاہوں اور خاص طور پر مغلیہ حکمرانوں کے محلات اور رہائش گاہیں اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو یورپ میں دکھائی دیتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے یہ بات شاہ جی کے سامنے کی تو انہوں نے بھی میرے دیگر کئی قارئین کی طرح میری طبیعت صاف کرنی شروع کر دی اور کہنے لگے کہ تم یورپ کی چمک دمک سے متاثر ہو۔ میں نے عرض کی: شاہ جی! میں ان کی موجودہ چمک دمک کی بات نہیں کر رہا بلکہ قدیم عمارتوں کا موازنہ کرتے ہوئے سنگترے کا موازنہ سنگترے اور سیب کا موازنہ سیب سے کر رہا ہوں۔ ایمپائر سٹیٹ کا موازنہ مہتر چترال کے محل سے نہیں کر رہا اور ملتان میں دیسی کشتیوں کے اکھاڑے کا موازنہ روم کے کلوزیم سے نہیں کر رہا۔ ویسے بھی آپ نے کون سا ورسائی محل یا ایڈنبراکے قلعے میں ملکہ میری دی سکاٹ کا وہ کمرہ‘ جہاں اس نے اپنے بیٹے اور مستقبل کے سکاٹ حکمران جیمز ششم کو جنم دیا‘ دیکھے ہوئے ہیں جو آپ میری بات کو رد کر رہے ہیں۔ مانا کہ یہ جملہ میری غلطی تھی لیکن شاہ جی نے بھی دلائل پر لعنت بھیجی اور مجھے خاموش کروانے کیلئے جو پارلیمانی زبان استعمال کی اس کا کالم میں بیان کرنا ملک میں جاری حالیہ سیاسی فسطائیت کو بیان کرنے سے بھی کہیں مشکل ہے۔
میں نے شاہ جی سے بصد ادب اپنی بدتمیزی اور نامناسب طعنے پر کم از کم دس بار معذرت کی تو شاہ جی کا غصہ بمشکل فرو ہوا تو انہوں نے دلیل دی کہ دراصل ہمارے حکمران نہایت ہی جنگجو اور سپاہی قسم کے تھے اور ہمہ وقت جنگ و جدل میں مصروف رہتے تھے اس لیے انہوں نے اپنی رہائش گاہوں اور محلات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ میں نے شاہ جی سے پہلے جان کی امان طلب کی اور پھر عرض کیا کہ شاہ جی! دراصل آپ نے یورپ کی تاریخ بھی نہیں پڑھی۔ یہ جملہ کہہ کر میں نے شاہ جی کے چہرے پر نظر ڈالی۔ وہاں غیظ و غضب کے آثار مفقود پا کر مجھے حوصلہ ہوا اور میں نے پھر گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ شاہ جی! آپ کا یورپ کے بارے میں کلہم علم صرف سنی سنائی پر مبنی ہے اور یہ محض اتفاق ہے آپ کا یہ سارا سنا سنایا علم بھی ان لوگوں سے حاصل کیا ہے جنہوں نے نہ تو یورپ کی تاریخ پڑھی ہے اور نہ ہی یورپ کو از خود کبھی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے تو یورپ کے قلعوں اور محلات کی کبھی ڈاکیو منٹری بھی نہیں دیکھی۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بادشاہ جنگجو تھے اور ہمہ وقت جنگ و جدل میں مصروفیت کے باعث رہائشی معیار اور تعمیرات پر توجہ نہ دے سکے۔ شاہ جی! کیا ان کے لمبے چوڑے حرم مستقبل کے فوجیوں کی پیدائش کی غرض سے قا ئم تھے؟ میں نے ایڈنبرا قلعے میں ملکہ میری دی سکاٹ کے جس کمرے کا ذکر کیا ہے وہ قلعے کے ''کراؤن سکوائر‘‘ میں ہے۔ یہ سارا حصہ بادشاہ جیمز سوم نے بنوایا تھا۔ جیمز سوم گو کہ سکاٹ ہسٹری میں ایک نکمے‘ نالائق‘ غیر مقبول اور آرام طلب بادشاہ کے طو رپر جانا جاتا ہے مگر ان تمام خرابیوں کے باوجود اس نے کم از کم شاہجہاں کی نسبت کئی گنا زیادہ جنگیں لڑیں اور خود 1488ء میں جنگ لڑتے ہوئے مارا گیا۔ شاہ جی کہنے لگے: اگر تم نے پیشگی جان کی امان نہ پائی ہوتی تو تمہاری اس گستاخی پر بھی عزت افزائی بنتی تھی مگر ہمیں اپنی دی ہوئی زبان اپنی اَنا سے بڑھ کر نہیں ہے۔میں نے کہا: شاہ جی اس پورے جنوب مشرقی ایشیا میں اس مسافر نے محض وہ محلات دیکھے ہیں جو پاکستان میں ہیں مگر اس خطے میں سابقہ ریاست راجستھان کے مہاراجوں کے تعمیر کردہ محل واقعتاً خوبصورت اور قابلِ دید ہیں اور اب ان میں سے اکثر محل فائیو اور سِکس سٹار ہوٹلوں میں تبدیل ہو چکے ہیں جبکہ ہمارے ہاں جو تھکے ٹوٹے محل ہیں وہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا اور خاندانی تنازعات کا شکار ہیں۔ اس کی ایک مثال نواب بہاول پور کا صادق گڑھ پیلس ہے۔ تاہم یہ باتیں ایک لاحاصل موازنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں