"KMK" (space) message & send to 7575

ڈار صاحب کا پلان اے‘ بی اور اچھی بُری خبریں

ملک کا سالانہ بجٹ اور آئی ایم ایف کا قرض‘ دونوں ایسے معاملے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے بیانات کے گھڑمس میں کسی شریف آدمی کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا ہو رہا ہے‘ سوائے اس بات کہ ہر دو واقعات کے بعد عام آدمی کی جیب کٹ جاتی ہے۔ ہر بجٹ اور آئی ایم ایف کے منی بجٹ پر سرکاری بیان ہوتا ہے کہ ان تمام ٹیکسوں کا عام آدمی پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ اگر پٹرول‘ بجلی‘ گیس‘ گھی‘ آٹا‘ چینی‘ سبزی‘ دال اور صابن‘ تیل وغیرہ عام آدمی استعمال نہیں کرتا تو پھر حکومتی دعویٰ واقعی ٹھیک ہے کہ ملکی بجٹ اور آئی ایم ایف کی طرف سے مسلط کردہ ضمنی بجٹ میں لگائے گئے ٹیکسز سے عام آدمی واقعتاً متاثر نہیں ہوتا۔
ابھی جون میں پیش کردہ بجٹ اور عائد کردہ ٹیکسوں کا ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''راہ بھی میلا نہیں ہوا تھا‘‘ کہ آئی ایم ایف کا فرمائشی بجٹ آ گیا۔ اس ضمنی بجٹ کے بھی حسبِ معمول عام آدمی پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ ویسے اس فرمائشی بجٹ کے بعد پٹرول پر لیوی میں پانچ روپے اضافہ کردیا گیا ہے۔ روس سے سستے تیل کی آمد کی خوشی میں ڈیزل کی قیمت میں بھی سات روپے فی لٹر کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ بجلی کی قیمت میں تین سے چار روپے فی یونٹ کا اضافہ جلد متوقع ہے اور گیس کی قیمتیں 50فیصد کے لگ بھگ بڑھانے کی یقین دہانی کروا دی گئی ہے۔ تاہم اطلاعاً عرض ہے کہ اس سب کچھ کا غریب اور تمام سفید پوش طبقے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
جب سے سوشل میڈیا کا چلن ہوا ہے افواہوں کا بازار گرم ہے اور یہ معلوم کرنا بذاتِ خود ایک مہم جُوئی سے کم مشکل نہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔ ایسی ایسی بُری افواہیں پھیل رہی ہیں کہ اگر صرف 50فیصد بھی سچ نکل آئے تو کم از کم عام آدمی کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ لیکن عام آدمی کے دیوالیہ پن سے قطع نظر شکر الحمدللہ کہ پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا بلکہ یہ ہمارے پیارے وزیراعظم میاں شہبازشریف نے آئی ایم ایف کے سٹاف لیول اقرار کے بعد خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے قوم کو بتائی ہے۔ ایک طرف معاشی جادوگر(ناکام) اسحاق ڈار کا فرمانا تھا کہ ملک دیوالیہ نہیں ہو رہا اور ان کے پاس آئی ایم ایف سے قرض نہ ملنے کی صورت میں پلان بی بھی موجود ہے جبکہ وزیراعظم کا فرمانا ہے کہ اگر یہ قرض نہ ملتا تو ملک دیوالیہ ہو جاتا اور ہم اس متوقع دیوالیہ پن سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ اللہ جانے وزیراعظم کا فرمانا سچ ہے یا اسحاق ڈار قوم کو درست بتا رہے تھے۔ خیر سے دونوں بڑے آدمی ہیں۔ ان میں سے کون جھوٹا ہے اور کون سچا‘ اس کا فیصلہ ہم جیسے عام آدمی کا مرتبہ نہیں۔ مناسب ہے دونوں خود ہی مل کر فیصلہ کر لیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ ہم نے فیصلہ کر دیا تو کہیں کل کلاں پریس کانفرنس نہ کرنی پڑ جائے کہ میرا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں اور میں بھی نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔
اسحاق ڈار سے یاد آیا کہ ان کے پاس آئی ایم ایف سے قرض نہ ملنے کی صورت میں متبادل پلان بی بھی موجود تھا۔ اسحاق ڈار کے پلان اے اور بی کا سُن کر مجھے اچھی اور بُری خبر والا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے۔ ایک ارب پتی اور مشہور آرٹ ڈیلر کا وکیل اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس کے پاس اس کیلئے دو خبریں ہیں۔ ایک خبر بُری ہے جبکہ دوسری خبر اچھی۔ پھر اس نے آرٹ ڈیلر سے پوچھا کہ وہ اسے کون سی خبر پہلے سنائے؟ آرٹ ڈیلر نے ایک لمحہ توقف کے بعد اسے کہا کہ پہلے وہ اسے اچھی خبر سنائے تاکہ اس کے دن کا آغاز ہی خراب نہ ہو اور اس اچھی خبر کے طفیل اس میں بُری خبر سننے اور سہارنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو جائے گا۔ وکیل نے آرٹ ڈیلر کو بتایا کہ اس کی بیوی نے صرف ڈیڑھ لاکھ ڈالر میں تین تصاویر خریدی ہیں جو مارکیٹ میں پانچ ملین ڈالر سے زائد میں فوری طور پر فروخت ہو جائیں گی۔ آرٹ ڈیلر محض تین تصاویر کی خریدو فروخت میں ہونے والے ناقابلِ یقین منافع پر حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ اس کی بیوی بہت سمجھدار ہے اور نہ صرف یہ کہ وہ بہت تیز بزنس وومن ہے بلکہ وہ آرٹ کے اسرار و رموز سے بھی پوری طرح واقف ہے۔ کس آرٹ پیس کو کتنے میں خریدنا ہے کہ اس میں مناسب نفع ہو سکے‘ اسے بخوبی معلوم ہے؛ تاہم اتنی شاندار اور منافع بخش ڈیل تو اس کے وہم و گمان سے باہر تھی۔ خوشی سے دانت نکوستے ہوئے آرٹ ڈیلر نے اپنے وکیل سے کہا کہ اب وہ اسے بری خبر سنائے۔ ویسے بھی اتنی اچھی اور خوش کن خبر کے بعد بھلا کوئی خبر کتنی ہی بری ہو سکتی ہے؟ وکیل تھوڑا سا آگے جھکا اور دبی ہوئی آواز میں کہنے لگا: سر! بری خبر یہ ہے کہ یہ تین تصاویر آپ کی اپنی سیکرٹری کے ساتھ ہیں اور مارکیٹ میں فی الوقت ایک ٹی وی چینل ان تین تصاویر کیلئے پانچ ملین ڈالر کی آفر لگا چکا ہے۔ اور ہاں! آپ کی بیوی نے طلاق کے کاغذات بھی بھجوائے ہیں جن پر آپ کے دستخط درکار ہیں۔
سو عزیزانِ گرامی! آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا ہے جو اسحاق ڈار صاحب کا پلان اے تھا‘ اگر یہ پلان کامیاب نہ ہوتا تو ہمارے اسحاق ڈار صاحب کے پاس ایک عدد پلان بی بھی موجود تھا جو ظاہر ہے پلان اے کی ناکامی کی صورت میں انہوں نے بنا رکھا تھا۔ یہ پلان بی بھی آرٹ ڈیلر اور اس کے وکیل کے درمیان ہونے والی گفتگو میں بری خبر جیسا تھا۔ سننے میں آیا ہے کہ اسحاق ڈار صاحب کے پاس جو پلان بی تھا وہ آرٹ ڈیلر والی بری خبر سے بھی زیادہ ''بدخبرا‘‘ تھا۔ اگر اسحاق ڈار کا پلان اے ناکام ہو جاتا یعنی آئی ایم ایف قرضہ دینے سے صاف انکار کر دیتا تو ہمارے ناکام معاشی جادوگر کے پاس جو پلان بی تھا‘ وہ کچھ اس طرح سے تھا کہ انہوں اس ملک کے سارے ایئرپورٹس بیچ دینے تھے‘ ساری بندرگاہیں فروخت کر دینی تھیں‘ ساری موٹرویز کو لیز پر دے دینا تھا‘ سٹیل ملز کو اونے پونے بیچ دینا تھا۔ یہ فروخت بقول اسحاق ڈار دراصل اثاثوں کو بیچنا یا لیز پر دینا نہیں بلکہ آؤٹ سورس کرنا کہلاتا ہے۔ ظاہر ہے اس خریدو فروخت میں معاف کیجئے گا! اس فروخت و فروخت میں کمیشن کے امکانات بھی بہت روشن تھے اور یہ کمیشن باہر سے باہر ہی چلا جانا تھا۔ بقول ہمارے ایک دوست کے کہ آخر اس قوم کو کمیشن سے کیا مسئلہ ہے؟ آخر پراپرٹی ڈیلر‘ کمیشن ایجنٹ اور بروکر وغیرہ بھی اپنے سودوں پر دو طرفہ کمیشن کھرا کرتے ہیں۔ اگر ہمارے حکمران اور مقتدر حلقوں سے تعلق رکھنے والے زور آور یکطرفہ کمیشن لے لیتے ہیں تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ اضافی کام اور اضافی محنت پر اگر وہ اپنا عوضانہ اور محنتانہ خود کما کر گھر لے جاتے ہیں تو اس میں کسی کو کیا تکلیف ہے؟ آخر ہمارے سرکاری ملازمین جیسے ایف بی آر یا اسمبلی سیکرٹریٹ والوں کو‘ سارا سال مزے اڑانے کے بعد اگر بجٹ والے دنوں میں تھوڑی اضافی محنت کے عوض اضافی تنخواہیں مل سکتی ہیں تو ہمارے حکمران بھی اضافی محنت پر کمیشن وصول کر لیں تو آپ کو کیا تکلیف ہے؟
شاہ جی کا خیال ہے کہ اسحاق ڈار ایک نہایت سمجھدار ماہرِ معاشیات ہیں اور وہ پلان اے اور بی پر بیک وقت کام کر رہے ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ متحدہ عرب امارات کو‘ ایئرپورٹ ایک اور عرب ملک کو‘ موٹرویز کسی اور ملک کو اور سٹیل ملز کسی اور کو دی جا رہی ہے۔ اس محنت کے عوض ملنے والا کمیشن تو نقد ہوگا جبکہ آئی ایم ایف کا قرض اور بیچے جانے والے اثاثوں کی ادائیگی ہم‘ آپ اور ہماری نسلیں کریں گی۔ ڈار صاحب اس سے بہت پہلے انگلینڈ براستہ دبئی جا چکے ہوں گے۔ ان کا پلان اے اور پلان بی بھی اس قوم کیلئے اچھی خبر اور بری خبر جیسا معاملہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں