"KMK" (space) message & send to 7575

دورِ جدید کے نظام سقہ …(1)

اردو میں بچہ سقہ کی تلمیح یا مثال عموماً تب استعمال کی جاتی ہے جب کوئی شخص اپنی مختصر سی فرمانروائی‘ اقتدار‘ حکومت یا افسری کی قلیل مدت سے قطع نظر اپنے اختیارات سے کہیں بڑھ کر بے دریغ‘ اندھا دھند اور افراتفری میں استعمال کرتے ہوئے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوٹنے اور سمیٹنے کی کوشش کرے۔ ایسے میں اس حرکت کو بچہ سقہ کی حکومت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
ہم عموماً بچہ سقہ اور نظام سقہ کو ایک ہی کردار سمجھتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ بچہ سقہ یا بچہ سقاؤ افغانستان سے تعلق رکھتا تھا جبکہ نظام سقہ ہندوستان کے بادشاہ ہمایوں کی فرمانروائی کے دوران ملنے والی ایک روزہ حکومت کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ دونوں کرداروں میں ایک مماثلت تو ان کا مختصر دورِ حکمرانی ہے اور دوسرا اس قلیل مدتِ بادشاہت میں ان کے عجیب وغریب احکامات اور حرص ہے۔ تاہم دونوں کا طریقۂ واردات ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔
حبیب اللہ کلکانی عرف بچہ سقہ جنوری1891ء میں کلکان افغانستان میں پیدا ہوا۔ افغان بادشاہ امان اللہ خان اپنے خلاف چلنے والی بغاوت اور شورش سے تنگ آکر اپنا تاج و تخت اپنے بھائی عنایت اللہ کے حوالے کر کے افغانستان سے فرار ہوگیا۔ عنایت اللہ نے چند روز بعد اقتدار اس بغاوت کے سربراہ حبیب اللہ کلکانی عرف بچہ سقہ یا بچہ سقاؤ کے حوالے کر دیا جو17 جنوری 1929ء سے13 اکتوبر1929ء تک تقریباً نو ماہ تک حکمران رہا۔ حبیب اللہ کلکانی کو بچہ سقہ کا لقب اس کے والد کے پیشے کے باعث دیا گیا جو ماشکی (پانی بھرنے والا) تھا۔ اس کا دورِ حکومت افغان تاریخ میں من مانی کرنے اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں جس سقہ کا تذکرہ ہوتا ہے وہ نظام سقہ تھا اور محض ایک دن کیلئے ہندوستان کا حکمران رہا اور اس نے اپنی ایک دن کی حکمرانی میں چمڑے کے سکے چلا کر اپنا نام تاریخ میں اَمر کر لیا۔ ہوا یوں کہ جب ہمایوں اور شیر شاہ سوری کے درمیان ہندوستان کی بادشاہت کے حصول کیلئے جنگ جاری تھی ایک مقام پر ایسا ہوا کہ ہمایوں کی فوج تھک کر لمبی تان کر سو رہی تھی کہ اسے غنیمت جان کر شیر شاہ سوری کی فوج نے رات دو بجے کے لگ بھگ اس پر حملہ کردیا۔ اس اچانک حملے سے گھبرا کر نیند سے بیدار ہونے والا ہمایوں اُٹھ کر گھوڑے پر سوار ہوا اور لڑتا بھڑتا اپنی جان بچا کر دریا کے کنارے جا پہنچا۔ زخمی ہمایوں نے کوئی راہِ فرار نہ پا کر دریا میں چھلانگ لگا دی۔ قریب تھا کہ وہ ڈوب جاتا تاہم عین اسی وقت ایک سقہ اپنی مشک میں ہوا بھرے اس کی مدد سے دریا پار کر رہا تھا‘ اُس نے اپنی اسی مشک کی مدد سے ڈوبنے کے قریب ہمایوں کو بچا لیا۔ ہمایوں اس ماشکی کا بہت احسان مند ہوا اور اس کے صلے میں اس نے اس سقے کو جس کا نام نظام محمد تھا‘ ایک دن کیلئے ہندوستان کے شاہی تخت پر بٹھا دیا۔ نظام سقہ نے اس ایک دن کی بادشاہت کو غنیمت جانا اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی۔ سب سے پہلے تو اس نے اپنے سارے دوستوں اور رشتہ داروں کو انعام و اکرام سے نوازا اور اسی دوران اس مختصر سی مدت کیلئے حاصل حکومتی اختیارات سے زیادہ سے زیادہ مالی مفاد حاصل کرنے کی غرض سے اپنی واحد ملکیتی مشک کو کاٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کئے اور ان چمڑے کے ٹکڑوں پر اپنی شاہی مہر ثبت کر کے ان کو اشرفی کے برابر قیمت کا حامل قرار دینے کا شاہی فرمان جاری کردیا۔ اس نے ان چمڑے کے سکوں کو شاہی خزانے میں جمع کروا کر ہر سکے کے عوض سونے کی اشرفی نکلوالی۔ اپنی ایک دن کی حکومت کے خاتمے سے پہلے پہلے اس نے اپنی چالاکی سے نہ صرف یہ کہ سونے کی بہت سی اشرفیاں سمیٹ لیں بلکہ اس تخلیقی حرکت کے طفیل اپنا نام بھی تاریخ میں لکھوا لیا۔
26جون 1539ء کو ہونے والی جنگِ چوسا کے نتیجے میں ایک دن کی بادشاہت کرنے والے نظام سقہ کو رخصت ہوئے بھی کم و بیش پونے پانچ سو سال ہو گئے ہیں اور افغانستان والے بچہ سقہ نجات ملی لگ بھگ سو سال ہونے لگے ہیں مگر مملکتِ خداداد پاکستان میں بچہ سقہ اور نظام سقہ کے کردار پوری آب و تاب کے ساتھ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اس ملک کی اشرافیہ کے ہر رکن کے اندر کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ نظام سقہ کے روحانی وارث اس ملک میں گزشتہ پچھتر سال سے چمڑے کے سکے بھی چلا رہے ہیں اور موج میلہ بھی کر رہے ہیں۔ ہمایوں والے نظام سقہ اور آج کے دور کے نظام سقہ ٹائپ حکمرانوں‘ وزیروں‘ مشیروں‘ زور آوروں اور اس نظام کو یرغمال بنانے والوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ اب چمڑے کے سکوں کی جگہ ان کے کاغذی اور زبانی احکامات چلتے ہیں اور قاعدہ‘ قانون‘ ضابطہ اور اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کا قیام سترہ جولائی 1976ء کو عمل میں آیا۔ اس کے بانی ارکان میں اشتیاق حسین قریشی‘ اے کے بروہی ‘ ڈاکٹر سید عبداللہ‘ احسان دانش‘ احمد ندیم قاسمی‘ شریف کنجاہی‘ نبی بخش خان بلوچ‘ سردار خان گشکوری اور بہت سے دیگر نامور ادیب شامل تھے۔ ادارے کی انتظامی حکمت عملی بنانے اور نافذ کرنے کا تمام تر اختیار اس کے بورڈ آف گورنرز کو تفویض کیا گیا۔ اس کا پہلا بورڈ آف گورنرز 1978ء میں بنایا گیا جس کے چیئرمین اشتیاق حسین قریشی تھے جبکہ ان کے ساتھ دیگر ارکان میں اشفاق احمد‘ ابوالخیر کشفی‘ پری شان خٹک اور مجتبیٰ حسن کے علاوہ دیگر پاکستانی زبانوں اورمحکموں کے نمائندے شامل تھے۔ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کا آخری (فی الحال) بورڈ آف گورنرز مورخہ 16 جون 2020ء کو تشکیل دیا گیا۔ اس بورڈ کی مدت تین سال کیلئے تھی اور یہ عاجز اس بورڈ آف گورنرز میں صوبہ پنجاب کے نمائندے کے طور پر شامل تھا۔اس ادارے کا انتظامی سربراہ چیئرمین ہوتا ہے معروف ادیب اور مزاحیہ ادب کے روشن ستارے جنرل شفیق الرحمان کے علاوہ جناب پری شان خٹک‘ احمد فراز‘ مسیح الدین صدیقی‘ فخر زمان‘ افتخار عارف‘ ڈاکٹر قاسم بگھیو اِس علمی اور ادبی ادارے کے چیئرمین کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز وزارت اطلاعات و نشریات و قومی ثقافتی ورثہ کے زیرانتظام چلنے والے کئی اداروں میں سے ایک ہے۔ اس ادارے کے آخری سربراہ مشہور سندھی دانشور‘ محقق‘ ادیب اور ماہرِ تعلیم‘ سندھ یونیورسٹی کے سابقہ پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک تھے۔ وہ مورخہ چار مارچ 2020ء کو تین سال کیلئے اس ادارے کے چیئرمین مقرر ہوئے مورخہ تین مارچ 2023ء کو تین سالہ مدتِ ملازمت پوری کرکے اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔
اب اس ادارے کی سربراہی ایک سرکاری افسر کے پاس ہے جس کا ادب سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ تاہم یہ پہلی بار نہیں ہوا اپنے قیام کے بعد گزشتہ سینتالیس سال میں اس ادارے نے کم و بیش دس بارہ سال بیوروکریسی کے مسلط کردہ چیئرمینوں کے زیر سایہ گزار دیے ہیں۔ اس ادارے کے باقاعدہ چیئرمین کو رخصت ہوئے ساڑھے چار ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اس کا بورڈ آف گورنر مورخہ15 جون 2023ء سے تحلیل ہو چکا ہے۔ اب یہ ادارہ حسبِ معمول مکمل طور پر بیورو کریسی اور سیاستدانوں کے کنٹرول میں ہے اور ہر بندہ اس اعلیٰ علمی و ادبی ادارے کو اپنی مرضی سے ہانکنے کی کوشش کر رہا ہے‘ تاہم قومی ثقافتی ورثہ و ادب کے وفاقی مشیر امیر مقام اپنے عہدۂ مشاورت کو نظام سقہ کا ایک روزہ دورِ اقتدار سمجھ کر چمڑے کے سکے چلانے میں مصروف ہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں