"KMK" (space) message & send to 7575

نسیم جاگو کمر کو باندھو اٹھاؤ بستر کہ رات کم ہے

قریباً چوبیس سال پہلے جب میں پہلی بار سکردو ایئرپورٹ پر اُترا تب اسلام آباد سے سکردو کیلئے مرحوم فوکر جہاز چلا کرتے تھے اور شمالی علاقہ جات کیلئے چلنے والی فلائٹس پر رعایتی کرائے وصول کئے جاتے تھے‘ تاہم دس میں سے چھ پروازیں منسوخ ہوا کرتی تھیں۔ اُس زمانے میں اسلام آباد سے مظفر آباد اور راولاکوٹ کیلئے چھوٹے ٹوئن اوٹر جہاز چلتے تھے جن میں اٹھارہ مسافروں کی گنجائش ہوتی تھی۔ جہاز میں پانی اور پیسٹریاں ہوتی تھیں جو سیلف سروس کے اصول پر خود ہی اٹھانی پڑتی تھیں۔ سکردو ایئرپورٹ کی عمارت اور رن وے کے درمیان فاصلہ ہے‘ جب میں پہلی بار جہاز سے اُتر کر بس پر سوار ہو کر ایئرپورٹ ٹرمینل کی طرف جا رہا تھا تو مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ سڑک کے دونوں کناروں پر ریت کے چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے اور کئی جگہوں پر ریت نے آدھی سڑک گھیر رکھی تھی۔ کسی زمانے میں ایسا منظر مظفر گڑھ سے ڈیرہ غازی خان جاتے ہوئے بصیرہ قلندرانی کے قریب دکھائی دیتا تھا۔ اتنی بلندی پر سرد صحرا دیکھ کر حیران ہونا قدرتی امر تھا۔
سکردو کے نزدیک دو عدد صحراہیں ایک کٹپانا اور دوسرا سرفرنگا۔ کٹپانا سکردو شہر سے بمشکل اٹھارہ انیس کلو میٹر کے فاصلے پر سطح سمندر سے تقریباً 7300فٹ کی بلندی پر دنیا کا شاید سب سے اونچا صحرا ہے اور کولڈ ڈیزرٹ (ٹھنڈا صحرا) کہلاتا ہے جو سخت سردیوں میں برف سے ڈھک جاتا ہے۔ کٹپانا ڈیزرٹ میں ایک جھیل بھی ہے جسے میں نے کئی سال قبل دیکھا تو اُس میں نیلے رنگ کا پانی اپنی چھب دکھا رہا تھا مگر اب یہ جھیل خشک ہو چکی تھی۔ کٹپانا سے شگر کی طرف جائیں تو 30 کلو میٹر دور دوسرا کولڈ ڈیزرٹ سرفرنگا ہے۔ یہ صحرا رقبے میں کٹپانا سے بڑا ہے اور اس پر کچھ عرصے سے ڈیزرٹ جیپ ریلی بھی ہو رہی ہے جو یقینادنیا کی سب سے بلند صحرائی جیپ ریلی ہے۔ اگر دونوں برفانی صحراؤں کو ہماری قومی بے ترتیبی سے مزین فضول اور ناقابلِ برداشت قسم کے ترقیاتی کاموں کے بجائے بین الاقوامی معیار کے مطابق ترقی دی جائے تو یہاں ٹورازم کے بے پناہ امکانات ہیں۔
کبھی سکردو ایئرپورٹ پر دن بھر میں بمشکل ایک فوکر فلائٹ آیا کرتی تھی جبکہ گزشتہ ماہ سکردو ایئرپورٹ نے ایک نئی تاریخ رقم کی اور غالباً انیس جولائی کو اس دور افتادہ ایئرپورٹ نے ایئربس A-320کی بارہ پروازیں آپریٹ کیں۔ چھ پروازیں ایک دن میں سکردو ایئرپورٹ پر اُتریں اور چھ نے یہاں سے پرواز بھری اور اب ایک اور سنگ میل سکردوایئرپورٹ کا منتظر ہے۔ چودہ اگست یعنی یوم پاکستان والے دن یہاں پہلی بین الاقوامی پرواز آئے گی۔ اس سے پہلے اس ایئرپورٹ پر بین الاقوامی پروازیں محض اس لئے نہیں آتی تھیں کہ یہاں جہاز کی ری فیولنگ کی سہولت میسر نہیں تھی۔ اب حکومتِ گلگت بلتستان ‘ بلکہ زیادہ صاف لفظوں میں جی بی کے چیف سیکرٹری محی الدین احمد وانی کی کاوشوں سے یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا ہے۔ محی الدین وانی کے عرصۂ ملازمت کے دوران جی بی میں بہت سے نئے کام بھی ہوئے ہیں اور بہت سے معاملات میں حیران کن بہتری بھی آئی ہے مگر اس پر کبھی پھر سہی۔ فی الحال تو سکردو کا ذکر کرتے ہیں۔
گلگت بلتستان پاکستان کا ایسا خطہ ہے جس میں مختلف رنگ دکھائی دیتے ہیں اور ان رنگوں میں ایسا تنوع ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔چلاس جائیں تو پتھر جیسی طبیعت والے لوگ ملتے ہیں اور نگر چلے جائیں تو ایسے سلجھے ہوئے اور نرم خُو لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے کہ بندہ حیران ہو جاتا ہے کہ یہ ایک ہی خطے سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے سے اتنے مختلف کیسے ہو سکتے ہیں؟ فیری میڈوز جانے کیلئے جب آپ رائیکوٹ پُل سے جیپ لیتے ہیں تو دراصل آپ جیپ نہیں لیتے بلکہ جیپ ڈرائیور آپ کو لیتا ہے۔ آپ سے بغیر پوچھے اور بغیر طے کئے آپ کا سامان جیپ والا اُٹھا کر اپنی جیپ میں رکھ لے گا اور آپ کو لے کر چل پڑے گا۔ آپ کوکس جیپ والے نے اٹھانا ہے یہ جیپ والے باہم رضامندی سے طے کئے گئے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے غیر تحریری آئین کے قوانین کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ رائیکوٹ پل سے تاتو گاؤں تک جیپ والا آپ کو اپنے ہی نافذ کردہ کرائے کے حساب سے لے کر جائے گا۔ تاتو سے فیری میڈوز تک آپ کا سامان اٹھانے والے پورٹر بھی جیپ والوں کے بھائی بند ہیں اور آپ کے جیپ سے اُترتے ہی آپ کا سامان خود ہی وزن کریں گے اور اس سامان کو وزن کے مطابق خود ہی آپس میں بانٹ کر اور کمر پر لاد کر چل پڑیں گے۔ آپ کو بولنے کی‘ بھاؤ تاؤ کرنے کی‘ اپنی مرضی کے جیپ والے یا پورٹر کا انتخاب کرنے کی قطعاً کوئی اجازت نہیں۔ سب کے سب ایسے تند خُو اور غصیلے کہ بندہ چپ میں ہی عافیت خیال کرتا ہے۔ یہ سب لوگ چلاس کی نمائندگی کرتے ہیں۔تعلیم‘ صحت اور صفائی دیکھنی ہے تو پھر آپ کو تھوڑا تردد کرنا پڑے گا اور چلاس سے آگے گلگت سے ہو کر ہنزہ جانا پڑے گا۔ اگر ہنزہ میں مزید کوئی جگہ ہے جہاں آپ کو بالکل ہی نئی طرز زندگی دکھائی دے گی تو وہ نگر ہے۔ یہاں آغا خان فاؤنڈیشن نے صحت اور تعلیم کے شعبے میں ایسی کارکردگی دکھائی ہے اور اس سے بڑھ کر یہاں کے لوگوں نے جس طرح ان دونوں شعبوں میں دلچسپی لی ہے اور اس کو اپنایا ہے اس کے اثرات ان کی پوری طرزِ زندگی سے دکھائی دیتے ہیں۔ تعلیم کی شرح پورے پاکستان میں اگر کہیں بلند ترین ہے تو وہ ہنزہ میں نگر کے علاقے میں ہے۔یہ سب کچھ مجھے شگر کے قدیمی قلعے میں کھڑے ہو کر یاد آیا جسے آغا خان کلچرل سروس نے تقریباً چودہ لاکھ ڈالر کے خرچے سے مکمل تزئین و آرائش اور مرمت کے بعد ایک بار پھر اس کا اصل رنگ و روپ لوٹایا ہے۔ سترہویں صدی کا تعمیر کردہ اماچا خاندان کا یہ قلعہ بلتت اور آلتت قلعوں کا چھوٹا بھائی ہے اور تقریباً اسی طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے جو گلگت بلتستان کے دیگر قلعوں میں دکھائی دیتی ہے۔ بلتت‘ آلتت‘ خپلو اور شگر کے قلعے دراصل قلعے سے زیادہ مقامی حکمران خاندان کی محفوظ رہائش گاہیں ہیں۔ چاروں قلعوں کو آغا خان کلچرل سروس پاکستان نے خطیر رقم لگا کر اس طرح مرمت کیا ہے کہ ان کی اصل شکل و صورت اور طرزِ تعمیر متاثر نہیں ہوا تاہم یہ مرمت سے زیادہ ان کی تعمیرِ نو کے مترادف ہے۔ بلتت اور آلتت فورٹ تو ابھی قلعوں کی شکل میں موجود ہیں تاہم شگر اور خپلو فورٹ کو آغا خان ٹرسٹ فارکلچر نے مرمت کے ساتھ ساتھ کچھ تبدیلیوں اور اضافوں کے بعد شاندار ہوٹلوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ تاہم اس تبدیلی کے باوجود بادی النظر میں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ تعمیرات نئی ہیں۔
شگر فورٹ میں کئی گھنٹے گزارنے کے بعد قلعے کے پچھواڑے میں لگے ہوئے باغ میں گھومتے ہوئے کومل نے اس کے آخری سرے پر پہنچ کر زور سے چیخ ماری اور کہا کہ ادھر تو پنک چیری لگی ہوئی ہے۔ سکردو میں پنک چیری ختم ہو چکی تھی مگر شگر کے قلعے کے باغ میں چند درختوں پر ابھی یہ موجود تھی۔ باغ کے محافظ نے کہا‘ ہم اس باغ سے عموماً کسی کو پھل توڑنے نہیں دیتے مگر چیری کا موسم ختم ہو رہا ہے‘ یہ آخری چیری ہے جو ان درختوں پر لگی ہوئی ہے‘ آپ تھوڑی سی توڑ لیں۔ رات سکردو واپس آکرکچورا کے کنارے ریسٹ ہاؤس کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر چیری کھاتے ہوئے اُس رب مہربان کی نعمتوں پر شکر ادا کیا۔ سکردو گرمیوں میں خاصا گرم ہوتا ہے مگر اس بار تو ماہ جون کے وسط تک ملتان وہ ملتان نہیں لگ رہا تھا جو ہوتا ہے اور یہ تو سکردو ہے۔ موسم ایسا خوشگوار اور شاندار کہ ملتان واپس جانے کو دل نہ کرے مگر کیا کریں‘ ہم لوگ تو مجبور محض ہیں اور زندگی ہمیں ہانکتی پھرتی ہے۔ ایسے میں نسیم دہلوی کی غزل کا ایک مصرع یاد آیا جو اس غزل میں دو بار استعمال ہوا ہے۔
نسیم جاگو کمر کو باندھو‘ اٹھاؤ بستر کہ رات کم ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں