"KMK" (space) message & send to 7575

ایک غلام کا گورے آقا کو خط اور ہمارے کالے حاکم

ایک دوست نے پوچھا کہ آپ کالم لکھتے ہیں‘ کیا اس کا کسی پر اثر بھی ہوتا ہے یا بس یونہی ہوا میں تیر چلانے والا معاملہ ہے؟ میں نے اس دوست کو کہا کہ آپ کے سوال کا ایک سطری جواب تو یہ ہے کہ ہمارا کام بس لکھنا ہی ہے۔ ہمیں اس سے کیا کہ کسی پر اثر ہوتا ہے یا نہیں۔ وہ دوست کٹھ حجتی پر اُتر آیا اور کہنے لگا کہ آپ کا کام اپنے کالم کی اثر پذیری کو یقینی بنانا بھی ہے۔ میں ہنس پڑا۔ وہ میرے ہنسنے پر کہنے لگا کہ جب بندے کے پاس کسی بات کا مناسب جواب نہ ہو تو وہ آگے سے ہنسنے لگ جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کی بات ممکن ہے درست ہو‘ تاہم میں فی الحال آپ کے سوال پر لاجواب ہونے کی وجہ سے نہیں ہنس رہا بلکہ آپ کی بات میں منطق‘ دلیل اور عقل کی مکمل غیر موجودگی کی وجہ سے ہنسا ہوں۔ گفتگو‘ بات یا تحریر کی اثر پذیری کی گارنٹی تو اس مالکِ کائنات نے اشرف اور کامل ترین بندوں یعنی اپنے پیغمبروں کو بھی نہیں دی جو اپنے اپنے وقت میں روئے ارض پر سب سے بہتر گفتگو کرنے والے اور سب سے اعلیٰ علم الکلام کے حامل تھے۔ بھلا ہم جیسے گناہگار اور ان کی خاکِ پا کے ذروں سے بھی کمتر لوگ اپنی بات یا تحریر کی اثر پذیری کے بارے میں کوئی دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟
ویسے بھی ہر شخص کا اپنا دائرہ کار ہے اور میرا مالک اپنے بندے سے اس کے Domainکے اندر والے معاملات کی پڑتال کرے گا۔ وہ منصف کسی سے بھی آؤٹ آف کورس سوال نہیں کرے گا۔ ہم تو دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سے ہمارے دائرہ کار کے اندر والے سوالات میں بھی ہمارے جوابات پر نہ جائے بلکہ رحم کا معاملہ کرے کہ اس کے کرم کے بغیر کون ہے جو روزِ حساب اپنے اعمال اور میرٹ کی بنیاد پر سرخرو ہو سکے؟ جن پیغمبروں کی برسوں کی کاوش اور تبلیغ کے باوجود ان کی اُمت سے ایک فرد بھی نہیں اٹھے گا تو بھلا ایسے میں ہم بے حیثیت حرف لکھنے والے کس شمار قطار میں ہوں گے؟ ہاں! دعا اور کوشش ہے کہ لکھتے ہوئے اس مالکِ کائنات کی دی گئی عقل کے مطابق اپنے تئیں ممکنہ حد تک درست اور بلا کم و کاست لکھنے کی کوشش کریں اور بس۔ ہمارا کام یہیں تک ہے۔
یادش بخیر! کبھی واقعتاً لکھنے کا اثر بھی ہوتا تھا اور اربابِ اختیار ایک اُردو جملے کے مطابق ''تھوڑے لکھے کو بہت سمجھتے تھے اور خط کو تار کی اہمیت دیتے تھے‘‘ مگر اب ہر دو فریقین نے اپنا اپنا راستہ منتخب کر لیا ہے۔ لکھنے والے لکھ رہے ہیں اور اس لکھے پر ہاتھ پاؤں ہلانے والوں نے اول تو پڑھنا ہی بند کر دیا ہے اور اگر بغرضِ محال پڑھ بھی لیں تو فیض احمد فیض کی غزل کے ایک مصرعے کے مطابق ''جو کہا تو سُن کے اڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا‘‘ والا معاملہ ہے۔ ایک زمانہ تھا لکھنے پر کارِ سرکار کی طرف سے صفائی‘ وضاحت‘ ردِعمل یا پراگریس دیکھنے میں آتی تھی مگر پھر اربابِ اختیار نے آنکھیں اور کان بند کر لیے‘ مگر کیا ہم لکھنا چھوڑ دیں؟ بے حسی‘ نااہلی اور احساسِ ذمہ داری کی رخصتی نے ایک ایسا ماحول تشکیل دیا ہے کہ یہ کالے حکمران اور دیسی افسر ہندوستان پر قابض گورے آقاؤں اور افسروں سے کہیں زیادہ کٹھور‘ بے حس اور ظالم لگتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ تب غلام ہندوستانیوں کی آواز کبھی کبھار سفید فام آقاؤں کے کانوں تک پہنچ جاتی تھی مگر اب یہ عالم ہے کہ ہم بظاہر ایک آزاد مملکت کے ایسے شہری ہیں جسے آئین کی کتاب میں حرفوں اور لفظوں کی حد تک برابری کے سلوک اور بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ملتان میں درجن بھر سڑکوں کا جو حال ہے‘ اس پر تو آئندہ کالم میں ملتان کی انتظامیہ کو جگانے کی کوشش کروں مگر فی الوقت تو مجھے نیشنل ریل میوزیم دہلی میں پڑا ہوا 1909ء میں لکھا گیا ایک مسافر اوکھل چندرا سین کا خط یاد آ جاتا ہے۔ اس خط کا تذکرہ فضل الرحمن قاضی نے اپنی کتاب ''رو دادریل کی‘‘ میں بیان کیا ہے۔
اس خط کی انگریزی میری انگریزی سے بھی کہیں گئی گزری ہے اور یہ خط‘ جو اُس نے تب کے گورے ڈویژنل ریلوے آفیسر کو بڑے دلچسپ پیرائے میں لکھا ہے‘ کی نقل حسبِ ذیل ہے:
Dear Sir,
I am arrive by passenger train Ahmedpur station and my belly is too much swelling with jackfruit. I am therefore went to privy. Just I doing the nuisance that guard making whistle blow or train to go off and I am running with lotaah in one hand and dhoti in the next when I am fall over and expose all my shocking to man and female women on platform. I am got leaved at Ahmedpur station.
This too much bad, if passenger go to make dung that dam guard not wait train five minutes for him. I am therefore pray your honour to make big fine on that guard for public sake. Otherwise I am making big report to papers.
Your faithful Servant,
Okhil Chandra Sen
اب اسی تحریر کا ایک کیا جانے والا ترجمہ بھی پڑھ لیں جو کسی صاحبِ ذوق کے قلم کا شاہکار ہے۔
جناب ڈویژنل ریلوے آفیسر!
میں ریل پر سفر کر رہا تھا۔ بسیار خوری کے سبب میرے پیٹ میں شدید مروڑ اٹھنے لگے۔ ریل احمد پور سٹیشن پر رُکی تو میں حاجت کے لیے اُتر گیا۔ ابھی حاجت روائی جاری تھی کہ ناس پیٹے گارڈ نے سیٹی بجا دی۔ سیٹی سُن کر میں سٹپٹا گیا اور اس عالم میں دوڑ لگائی کہ ایک ہاتھ میں لوٹا اور دوسرے ہاتھ میں لنگوٹ پکڑا ہوا تھا۔ ریل کو جا لینے کی تگ و دو میں دھڑام سے گر پڑا۔ سٹیشن پر موجود کیا خواتین اور کیا حضرات‘ سبھی نے میرے نظارے کیے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھ سے عزت بھی گئی اور ریل بھی چھوٹ گئی۔
محترم!
میرے اس ہمہ جہت نقصان کا ذمہ دار وہ ناہنجار گارڈ ہے جس نے بے وقت سیٹی بجائی۔ میری درخواست ہے کہ اس گارڈ پر تگڑا جرمانہ عائد کریں۔ اگر نہیں تو پھر میں اخبارات کو اس واقعہ سے متعلق خبریں دینے والا ہوں۔
آپ کا تابعدار نوکر۔ اوکھل چندرا سین
قارئین! مجھے گمان ہے کہ آپ میں سے کئی اصحاب سوچ رہے ہوں گے کہ آخر اوکھل چندرا سین کا اس کالم سے کیا تعلق ہے؟ لیکن اس سے پہلے یہ کہ اگر یہ خط غلام چندرا سین کے بجائے آزاد دیس کا شہری خالد مسعود خان سفید فام آقا کے بجائے اپنے کالے بھائی بند افسر کو لکھتا تو کیا ہوتا؟ افسر اس خط کی فوٹو کاپیاں دیگر افسروں میں تقسیم کرتا۔ اسے سوشل میڈیا پر ڈال کر انگریزی کا مذاق اڑاتا اور شکایت کنندہ کے خلاف سرکاری افسر کو اخبار میں خبر لگانے کی دھمکی پر بلیک میل کرنے کے جرم میں پرچہ کٹوا دیتا لیکن گورے آقا نے کالے غلام کے خط کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا۔ اس خط نے ہندوستان کی مسافر ٹرین کو نئی جہت بخشی اور گوکھل چندا سین کے خط کی روشنی میں گورے افسران نے انڈین ریلوے کے تھرڈ کلاس کے مسافروں کی بوگی میں لیٹرین بنانے کا فیصلہ کیا۔ میں سوچتا ہوں کہ اس آزاد ملک میں کسی عام آدمی کے خط کو کوئی کالا حکمران یا بابو اتنی اہمیت کا حامل کب سمجھتا ہے جس طرح گورے آقا نے غلام شہری کے خط پر ایکشن لیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں