"KMK" (space) message & send to 7575

ہم اور ہمارے ہمسائے

اب تو ہمسائے سے تقابل کرتے ہوئے بھی شرم سی آنے لگی ہے‘ بلکہ ہمسایوں سے بھی کہہ لیں تو بات غلط نہیں ہے ہمارے ہمسائیوں میں بھارت‘ چین‘ افغانستان اور ایران ہیں۔ چین کو تو خیر بھول ہی جائیں کہ اس سے کبھی مقابلے یا موازنے کی نوبت آئے کہ معاملہ اب اتنا بے جوڑ ہو چکا ہے کہ یہ سوچ کر حیرانی ہوتی ہے کہ کبھی چین نے اپنی ویونگ انڈسٹری یعنی کپڑا بننے کی صنعت کو بہتر بنانے اور جدید رُخ دینے کی غرض سے پاکستان سے کپڑا بننے کی لومیں منگوائی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب بیکو کا ڈنکا بجا کرتا تھا اور پاکستان کی ترقی کرتی ہوئی صنعتوں پر ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے قومی صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لینے کا عظیم الشان فیصلہ مسلط نہیں ہوا تھا۔
چین کا ایک اعلیٰ سرکاری وفد پاکستان آیا اور تب BECO یعنی بٹالہ انجینئرنگ کمپنی اس خطے میں بہترین برقی لومیں تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کو صنعتی صلاحیتوں کے اعتبار سے لیڈر ملک سمجھا جاتا تھا۔ بسیں‘ جیپیں اور اسی نوع کی بہت سی بھاری صنعتیں اس ملک کو خطے کا ممتاز اور نمایاں ملک بناتی تھیں۔ پھر اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی ہمسایوں کی جس میں چین کا ذکر آ گیا۔ اب بھارت سے بھی کوئی مقابلہ نہیں رہا۔ چاند پر جانے والی بات کو ایک طرف رکھیں۔ بھارت آئندہ چند سال میں بھارت میں چلنے والی روایتی کاروں کو بھارتی ساختہ الیکٹرک گاڑیوں سے بدل دے گا۔ اس کا الیکٹرک سکوٹر خلیجی ممالک میں برآمد ہونا شروع ہو گیا ہے۔ بھارتی سکوٹر اور رکشے میں نے خود کموڈیا میں چلتے دیکھے تھے۔ جیگوار‘ لینڈروور اور اسی قسم کی دیگر کئی بین الاقوامی شہرت اور مارکیٹ کی حامل آٹو موبائل کمپنیاں بھارتی کمپنی ٹاٹا نے خرید لی ہیں۔ آئی ٹی انڈسٹری میں ان کی آمدنی ہماری کْل ملکی آمدنی کے برابر آ چکی ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر کی تو بات ہی نہ کریں۔ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر جھوٹ‘ سچ ملا کر کل 9.55ارب ڈالر ہیں جبکہ بھارت کے زر مبادلہ کے ذخائر ماہ اگست میں 7.28 ارب ڈالر کی کمی کے بعد 594.90 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ یعنی بھارت کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے باسٹھ گنا زیادہ ہیں۔ ابھی ہمارے ان نام نہاد9.55 ارب ڈالر کے زر مبادلہ میں چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات والا ادھار بھی شامل ہے‘اگر اسے نکال دیں تو باقی رقم شاید منفی میں نکلے گی۔
افغانستان کی کرنسی اور ملک میں مہنگائی کی شرح کا بھی اب پاکستان سے کوئی مقابلہ اور موازنہ نہیں رہا۔ کبھی ہم افغانستان کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال کو ایک بری ترین مثال کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ جنگ وجدل‘ تباہی‘ بربادی اور غیر ملکی تسلط و لوٹ مار کے بعد بمشکل اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے والے افغانستان کے زر مبادلہ کے ذخائر محض اعشاریہ پانچ ارب کے فرق سے پاکستان کے برابر ہیں۔ اوپر سے گزشتہ دنوں افغانستان کی حکومت نے پاکستان کا سفر کرنے والے افغان شہریوں کیلئے سفری ہدایات جاری کرتے ہوئے انہیں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر پاکستان کا سفر کرنے سے منع کیا ہے۔ اللہ اللہ‘ ہم اس خطے میں کس مقام پر فائز ہیں؟
ادھر ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ ہمیں فی الحال پکڑ دھکڑ‘ مقدمات درج کرنے‘ ضمانتیں منسوخ کرانے اور پریس کانفرنسیں کرانے سے فرصت نہیں مل رہی۔ ملک میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پرویز الٰہی کو کسی نہ کسی طور جیل میں رکھنا ہے۔ اگر چوہدری پرویز الٰہی باہر آ گیا تو اس ملک کی ترقی کرتی ہوئی معیشت دھڑام سے نیچے آ گرے گی‘ ملکی برآمدات میں کمی آ جائے گی‘ سرحدوں پر صورتحال خراب ہو جائے گی اور سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی اور حملوں میں اضافہ ہو جائے گا‘ ملک کی اندرونی امن و امان کی صورت خراب ہو جائے گی اور معیشت کا چلتا ہوا پہیہ رک جائے گا۔
عدم اعتماد کے بعد تو ایسے نابغے تشریف لائے کہ الامان والحفیظ۔ جب بھی اس قسم کا موضوع زیر قلم آتا ہے کہ اسحاق ڈار کی شان میں تبرا کرنے کو دل مچل اٹھتا ہے۔ کیا شان و شوکت اور دھوم دھڑکے سے ملک میں واپس لائے گئے تھے کہ وہ اس ملک کے ایسے معاشی مسیحاہیں جو نہ صرف گزشتہ حکومت کی تباہ کن معاشی پالیسیوں کا نہ صرف سدباب کریں گے بلکہ ملکی معیشت کی ڈولتی کشتی کو کنارے بھی لگائیں گے۔ انہوں نے اس کشتی کو ایسا کنارے لگایا ہے کہ بالکل ہی کنارے لگا دیا ہے۔ ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے لانے کے دعویدار اسے تین سو کے لگ بھگ چھوڑ کر وہیں نکل گئے ہیں جہاں سے آئے تھے۔ انکا مقصد اپنی جائیداد چھڑوانا تھا۔ سو انہوں نے اپنی جائیداد چھڑوالی۔ سکوک بانڈز پر اپنے فرنٹ مینوں کو منافع دلوانا تھا وہ دلوا دیا۔ فقیر کی طرح حلوہ کھانے کیلئے بادشاہت سنبھالی تھی۔ خوب دبا کر حلوہ کھایا اور آخر میں اپنی گدڑی اور کشکول اٹھا کر سڑک کی راہ لی۔ موصوف لندن سے ہماری معیشت کا علاج کرنے کیلئے بصد منت و سماجت بلوائے گئے تھے۔ موصوف اپنی ذاتی معیشت اور معاشی مسائل حل کرکے واپس لندن تشریف لے جا چکے ہیں اور انکے دیگر معاشی فیصلے ابھی آہستہ آہستہ منظر عام پر آ رہے ہیں۔
موصوف نے جاتے جاتے ایک اور چھکا لگایا اور اچھی بھلی ایک سو تیس چالیس روپے فی کلو بکنے والی چینی پر نظر ِکرم ڈالی۔ انہوں نے وہی کیا جو چار سال پہلے اسد عمر اینڈ کمپنی نے کیا تھا۔ ڈار اینڈ کمپنی نے ملکی چینی کے ذخائر کو ملک کی مستقبل کی ضروریات سے فالتو قرار دیتے ہوئے دو لاکھ پندرہ ہزار ٹن چینی مبلغ ایک سو دس روپے فی کلو کے حساب سے برآمد کر دی اور پھر ملکی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر برازیل سے ایک لاکھ ٹن چینی دو سو بیس روپے فی کلو کے حساب سے درآمد کرنے کا آرڈر کر دیا۔ یعنی دو لاکھ ٹن سے زائد چینی آدھے بھاؤ پر باہر بھیج دی اور پھر ایک لاکھ ٹن چینی دو گنے بھاؤ پر درآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ پہلے ایکسپورٹ والوں نے پیسے کھرے کر لیے اور اب امپورٹ والے مال بنائیں گے اس دوران عوام کو 130 روپے فی کلو ملنے والی چینی دو سو روپے سے اوپر چلی گئی ہے اور کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔ کوئی یہ پوچھنے کو تیار نہیں کہ یہ سارا حساب کتاب کس بزرجمہر نے لگایا تھا اور کس حکیم جالینوس نے اس قسم کی درآمد و برآمد کی اجازت دی تھی؟ مگر اس ملک کی موجودہ ترجیحات دراصل یہ ہیں ہی نہیں۔
مہنگائی‘بیروزگاری‘ امن و امان کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال‘ مسلسل زوال پذیر معیشت اور روپے کی بے قدری کو روکنا ہماری ترجیحات میں کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ ہماری ساری توجہ آنے والے الیکشن (جو خدا جانے کب ہونے ہیں) کو اپنی مرضی کے نتائج کے مطابق کرنے پر ہے اور ہینڈلرز صرف اسی ایک پوائنٹ ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ پکڑ دھکڑ کے علاوہ پولیس اور انتظامیہ کو اور کوئی کام نہیں۔ عدالتیں ہیں کہ صرف ضمانتوں میں مصروف ہیں اور انتظامیہ ان ضمانتوں کی ضمانت ضبط کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ ساری کی ساری حکومتی مشینری اس وقت ملک کا سیاسی منظر نامہ اپنی مرضی کے مطابق کرنے میں مصروف ہے۔ آٹے‘ چینی کا بھائو عوام کا مسئلہ ہے لیکن حکومت کے مسائل بالکل مختلف ہیں۔ عوام کے مسائل کی طرف کسی کی نہ توجہ ہے اور نہ ہی انہیں اس کی کوئی فکر ہے۔ فی الحال سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ اس کی ضمانت کینسل کروانی ہے۔ کس کو ضمانت ہوتے ہی دوبارہ گرفتار کرنا ہے‘ کس پر مزید پرچہ کاٹنے ہیں اور عدالتی احکامات کو کس طرح ہوا میں اڑانا ہے۔ صوبے کی آدھی انتظامیہ توہینِ عدالت کے زیر سایہ سانس لے رہی ہے۔ ہمسایہ ملک میں دنیا کے بڑے بڑے کاروباری ادارے اور شخصیات صنعتی اور کاروباری معاہدے کرنے کیلئے بھاگے چلے آ رہے ہیں۔ چائے بیچنے والا وزیراعظم اپنے ملک کو اٹھا کر کہاں سے کہاں لے گیا ہے اور ہمارے متوقع حکمران لندن اور دبئی میں اپنی دکانیں لگائے بیٹھے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں