"KMK" (space) message & send to 7575

اگلے گند کو صاف کرنے کی فکر کریں

ہر آنے والی حکومت کے پاس کام نہ کرنے کا سب سے بڑا جواز تو یہ ہوتا ہے کہ گزشتہ حکومت اتنا گند ڈال گئی کہ اسے صاف کرنے کی مصروفیت میں اتنے مصروف ہو گئے کہ ہم سے اور کوئی کام نہیں ہو پایا۔ پیپلز پارٹی اپنے پہلے دور میں ضیاء الحق کے بارہ برس کارونا ڈال کر بیٹھی رہی۔ پھر مسلم لیگ (ن) آئی تو اس کی ساری صلاحیتیں پیپلز پارٹی کا پھیلایا ہوا گند صاف کرنے میں لگ گئیں۔ یہی دو پارٹیاں مل کر تقریباً تین عشرے مزے بھی کرتی رہیں اور شور بھی مچاتی رہیں‘ پھر ایک تیسری پارٹی آ گئی جو پونے چار سال گزشتہ تیس سال کے گند میں پھنسی رہی۔ اس کے بعد ایک سولہ ماہی حکومت آئی جو گزشتہ پونے چار سال کی بارودی سرنگیں اور معاشی تباہی کو ٹھیک کرتے کرتے رہا سہا معاشی ڈھانچہ اور ملک کی اقتصادی حالت برباد کرکے رخصت ہو گئی۔ اب نگران آ گئے ہیں اور ان کے سامنے گزشتہ پچھتر سال کا گند ہے جو ظاہر ہے نوے دن میں (کم از کم آئین میں تو یہی لکھا ہوا ہے) تو کسی صورت صاف نہیں ہو سکتا۔ تو اب اس ملک کا مستقبل کیا ہے؟
کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ ہم گزشتہ گند پر لعنت بھیجیں اور آئندہ کیلئے گند مچانے کا راستہ بند کریں؟ کرپشن کی بات کریں تو اس ملک میں صرف اور صرف اپوزیشن کرپٹ ہوتی ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ حکومتِ وقت ہمیشہ نیک نام اور پارسا لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ عدالتوں میں بھی وہی ملزم بنا کر پیش کیے جاتے ہیں جن پر کسی کو غصہ یا تاؤ آیا ہو۔ پرویز مشرف کے دورِ نیب میں صرف انہی لوگوں کے کیس چلے تھے جن سے حکومتِ وقت کو تنگ کرنے یا آمرِ وقت کی بات سے اختلاف کرنے کا جرم سرزد ہوا تھا۔ جونہی وقت بدلا وہ سب لوگ بے گناہ قرار پائے اور بَری ہو گئے۔ پھر خان صاحب آ گئے۔ ان کے نزدیک کرپشن کا ہر کُھرا نواز شریف اور زرداری کی طرف ہی جاتا تھا۔ عثمان بزدار‘ بیگم و احسن جمیل گجر‘ خسرو بختیار‘ شہزاد اکبر‘ زلفی بخاری‘ ظفر مرزا اور چودھری پرویز الٰہی پر ان کے دورِ اقتدار میں کرپشن کی کہانیاں پھیلیں مگر خان صاحب کو صرف سیاسی مخالفین کی کرپشن سے غرض تھی نہ کہ اپنے حواریوں کی کرپشن سے۔ لہٰذا خان صاحب جو احتساب کے نام پر ووٹ لے کر آئے تھے انہوں نے اپنے نئے پاکستان میں بھی احتساب کا مطلب وہی لیا جو پرانے پاکستان میں لیا جاتا تھا‘ یعنی کرپشن صرف اپوزیشن اور سیاسی مخالفین کرتے ہیں۔ حکومتی اتحادی‘ حواری اور اپنے یار دوست احتساب سے مبرا ہوتے ہیں۔ لہٰذا خان صاحب کا احتساب بھی انگریزی کے محاورے کے مطابق Across the board والا احتساب نہیں تھا بلکہ یہ Selected Accountability کے نظام کے تحت چلایا گیا‘ لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کسی دور میں بھی احتساب کے جال میں کوئی بڑا مگر مچھ پھنستے نہیں دیکھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آج تک کے اس سلیکٹڈ احتساب میں بھی کسی کو سزا نہیں ہوئی تو اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا ہم اس کا یہ مطلب لیں کہ جتنے لوگ بھی احتساب کے نام پر پھنسے وہ سب کے سب بے گناہ تھے؟ یا اس کا مطلب یہ لیں کہ ہمارا نظامِ احتساب ہی بالکل فارغ اور ناکام ثابت ہوا ہے؟ ظاہر ہے تیسری تو اور کوئی صورت نہیں۔ ملک میں ہر طرف کرپشن ہے اور نہ صرف ہے بلکہ ہر اندھے کو بھی دکھائی دیتی ہے۔ ہر محکمے میں اوپر سے نیچے تک کرپشن عام بھی ہے اور دستورِ زمانہ کے طور پر قبول بھی کی جا چکی ہے۔ کسی سرکاری محکمے میں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ افسروں کی تو بات چھوڑیں‘ کلرکوں کا طرزِ زندگی دیکھیں تو رشک و حسد سے بندہ بے حال ہو جاتا ہے۔ لیکن نظامِ احتساب اور نظامِ انصاف میں اتنے بڑے بڑے سوراخ ہیں کہ اس میں سے ہر قسم کا ملزم اگر بے وقوف یا غریب نہیں تو بہ آسانی نکل جاتا ہے۔ ایسے میں دلاور فگار کا ایک شعر بڑی شدت سے یاد آتا ہے
لے کے رشوت پھنس گیا ہے
دے کے رشوت چھوٹ جا
نیب نے بڑے بڑے تیر چلائے ہیں‘کسی ڈرپوک اور کمزور دل کرپٹ نے پلی بارگین کرکے کچھ رقم خیرات میں نیب کو دے دی ہو تو اور بات ہے لیکن نیب نے کسی بھی ہائی پروفائل کیس میں کسی کو سزا نہیں دلوائی۔ لوگوں کے گھروں کی تجوریوں سے اربوں روپے برآمد ہوئے مگر عدم ثبوت کی بنیاد پر بری ہو گئے۔ کم از کم اس عاجز کی یاد میں ایسا کوئی کیس نہیں جس میں کسی سیاستدان یا بیورو کریٹ کو سزا ہوئی ہو۔ بلکہ یہاں تو ایسا بھی ہوا کہ غیر ملک میں کسی توپ قسم کے بندے کو سزا ہوئی تو اسے قیدیوں کے تبادلے کی آڑ میں واپس پاکستان لایا گیا اور یہاں اسے ایسے آرام اور آسائش سے رکھا گیا کہ فائیو سٹار ہوٹل کی مہمانداری ماند پڑ جائے۔
کسی پیپلز پارٹی والے سے پوچھیں تو اس کی ساری قیادت مع آصف زرداری انتہائی نیک پاک اور ایماندار ہے۔ کسی مسلم لیگی سے پوچھیں تو میاں نواز شریف انتہائی پارسا اور نیکو کار شخص ہیں جن کے دامن پر کرپشن کی ایک بھی چھینٹ نہیں؛ تاہم ان کے پاس لندن کی جائیداد کی منی ٹریل بھی نہیں اور وہ جائیداد ان کی حلال کی کمائی کی ہے جو اُن کے چھوٹے چھوٹے نابالغ بیٹوں نے برطانیہ میں کاروبار کرکے بنائی ہے۔ عمران خان کے ساتھ حکومت میں موج میلہ کرنے اور پیسے بنانے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو خان صاحب کی ناک تلے مبینہ طور پر ان کی اہلیہ کی ہلا شیری کے طفیل مال بناتی رہی مگر خان صاحب اپنے دیوانوں کے نزدیک دنیا کی معلوم تاریخ کے سب سے ایماندار‘ بے داغ اور بے عیب سیاستدان ہیں۔ یہی حال چودھری پرویز الٰہی اینڈ کمپنی کا ہے تو پھر اس ملک میں کرپٹ کون ہے؟ اس حساب سے تو لگتا ہے کہ کوئی مریخ سے آ کر ادھر کرپشن کرتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ سب بے گناہ ہیں‘ سب ایماندار ہیں‘ جن پر بھی کیس بنتا ہے وہ سیاسی انتقام کا جواز پیش کرتا ہے تو پھر اس ملک کو لوٹ کون رہا ہے؟
مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے عبدالحئی دستی 2018ء کے الیکشن میں آزاد حیثیت سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور بعد ازاں پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے اور بزدار دور میں صوبائی مشیر زراعت بھی رہے۔ جب پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے لوٹوں کی مدد سے چودھری پرویز الٰہی کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو عبدالحئی دستی نے حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیا؛ تاہم بعد ازاں دوسری بار ووٹنگ میں لوٹوں کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا اور چودھری پرویز الٰہی دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ فروری 2023ء میں عبدالحئی دستی کے گھر سرچ وارنٹ کے ساتھ چھاپہ مارا گیا تو ان کے گھر سے بارہ کروڑ روپے سے زیادہ کی ملکی و غیر ملکی کرنسی برآمد ہوئی۔ چھاپہ اینٹی کرپشن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پنجاب وقاص حسن کی سربراہی میں مارا گیا۔ بعد ازاں عبدالحئی دستی نے بیان دیا کہ یہ ساری رقم دراصل مونس الٰہی اور پرویز الٰہی کی تھی۔
مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ رقم دستی کے ذاتی کمیشن کی تھی یا کسی اور کی امانت تھی؛ تاہم اتنا علم ہے کہ کچھ عرصہ بعد میں مظفر گڑھ کسی کام سے گیا تو ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں بیٹھا ہوا ایک بندہ بڑے دھڑلے سے ڈپٹی کمشنر کو دو تین کام بتاتے ہوئے تقریباً حکم دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اپنے ساتھ جانے والے بندے سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو اس نے بتایا کہ یہ عبدالحئی دستی ہے اور موجودہ حکومت میں اسے شہر کے معزز کا درجہ حاصل ہے۔ اب آپ بتائیں پچھلا گند بھلا کیسے صاف ہو سکتا ہے؟
لہٰذا میری التجا ہے کہ گزشتہ پچھتر سالہ گند پر لعنت بھیجیں اور ملک کو اگلے گند سے بچا لیں تو غنیمت ہے۔ اس ملک کو مزید بربادی سے بچانے کا یہی ایک راستہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں