"KMK" (space) message & send to 7575

ادارے ایسے برباد نہیں ہوتے… (2)

یہ بات درست ہے کہ پی آئی اے کے پاس بہت سے سیکٹرز ایسے ہیں جو سدا سے غیرمنافع بخش ہیں اور غیر منافع بخش ہی رہیں گے مگر جن سیکٹرز پر دوسری ایئر لائنز کم کرایے پر نفع کما رہی ہیں انہی سیکٹرز پر پی آئی اے خسارہ کر رہی ہے تو اس کی وجوہات انتظامی ہیں۔ یونین بازی‘ ضرورت سے زیادہ سٹاف جس کی اکثریت سیاسی بنیاد پر بھرتی ہوئی اور اس پر طُرہ یہ کہ ان کی غالب تعداد نااہل اور کام چور ہے۔ دنیا بھر کی فضائی کمپنیوں میں جو کام ایک یا دو آدمی بہ احسن سرانجام دیتے ہیں ہمارے ہاں چھ آدمی اسے نہایت ہی بھونڈے اور برے طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا کہ دوسری ایئر لائنز میں نہ صرف عملہ بہت کم ہے بلکہ وہ انتہائی مستعد اور اپنے کام کا ماہر بھی ہے مزید یہ کہ کام کرتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ اور مسافروں سے خوش اطواری سے پیش آتا ہے جبکہ ہمارے ہاں کا عملہ شکل سے بیزار اور ہمہ وقت لڑنے مرنے پر تُلا ہوتا ہے۔ بات کرتے ہوئے لہجہ انتہائی رعونت بھرا اور کام کرتے ہوئے ایسے لگتا ہے جیسے ڈیوٹی نہیں بیگار بھگتا رہے ہوں۔ رہ گئے یونینز والے تو وہ سوائے ہڑتال کے اور کوئی کام کرنا جانتے ہی نہیں۔
عرصہ ہوا میں کراچی میں ایک اخبار کے گروپ ایڈیٹر کے پاس بیٹھا تھا اور مختلف موضوعات پر گفتگو چل رہی تھی۔ اس دوران وہ بتانے لگے کہ بینظیر بھٹو کے دور میں ان کا بیٹا اور بھی کئی اخبار نویسوں کے بیٹوں کی ساتھ پی آئی اے میں افسر بھرتی ہو گیا۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم ہو گئی اور میاں نواز شریف آ گئے۔ انہوں نے آتے ہی بینظیر بھٹو کے دور میں بھرتی کیے گئے افسروں کی چھٹی کروا دی۔ ان فارغ ہونے والوں میں ان کا بیٹا بھی تھا۔ پھر مسکرائے اور اپنے ہی اخبار کے ایک کالم نگار کا نام لے کر کہنے لگے۔ خالد صاحب! کاریگری یہ ہوتی ہے کہ اخبار کے گروپ ایڈیٹر کا بیٹا تو فارغ ہو گیا اور اس کے اخبار کے ایک کالم نویس کا بیٹا واحد بندہ تھا جو اپنی افسری پر برقرار رہا۔
بٹالہ انجینئرنگ کمپنی (BECO) جو سی ایم لطیف کے زرخیز ذہن اور محنت کا نتیجہ تھی جب تک پرائیویٹ سیکٹر میں چلتی رہی‘ بلندیوں کی طرف پرواز کرتی رہی مگر جب بھٹو صاحب نے اسے قومی تحویل میں لیا‘ اس کی ترقی ٔ معکوس کا سفر شروع ہو گیا۔ ایک زمانے میں حکومتِ چین نے بیکو سے آٹو میٹک لُومیں خرید کر چین میں لگائی تھیں پھر چرخِ گردوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ افسروں کی فوج سے بھری ہوئی پیکو کا آخری پرزہ تک نیلام ہو گیا اور ملک کی سب سے شاندار انجینئرنگ کمپنی صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔ اگر یہ ادارہ سرکاری بابوؤں اور سیاسی بھرتیوں سے پاک رہتا تو آج یہ اپنی کارکردگی کے دھاک بٹھا رہا ہوتا مگر اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو ہمارے ان تمام سرکاری اداروں کے ساتھ ہو رہا ہے جو افسر شاہی اور سیاسی بھرتیوں کے شکنجے میں ہیں۔
پرائیویٹ ایئر لائنز کو لائسنس دیتے وقت اس بات کا پابند کرنا چاہیے تھا کہ وہ دو چار منافع بخش روٹس کے ساتھ ایک آدھ خسارے والے روٹ پر بھی سروس مہیا کریں‘ مگر ہمارے ہاں افسر شاہی میں اول تو اس قسم کا ویژن ہی نہیں اور اگر ہے تو بدعنوانی کی وجہ سے وہ اس میں اونچ نیچ کرکے فریقِ ثانی کا کام اور اپنا اُلو سیدھا کر لیتے ہیں۔ یہی حال ریلوے کا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ریل اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام سرکاری سرپرستی میں سرکار کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی کے ساتھ چلتا ہے مگر یہ وہاں ممکن ہے جہاں سرکار کے پاس فالتو پیسے ہوتے ہیں‘ تاہم میں ذاتی طور پر اس بات کا شاہد ہوں کہ یورپ کے بیشتر ممالک اور برطانیہ میں پبلک ٹرانسپورٹ اور ریلوے کا نظام سبسڈی کے بغیر چلایا جا رہا ہے۔ ریلوے کا سفر خاصا مہنگا ہے اور انڈر گراؤنڈ ٹرین اور بسوں کی ٹکٹیں بھی کم نہیں ہیں۔ مثلاً لندن انڈر گراؤنڈ میں زون نمبر ایک سے زون نمبر چھ کے درمیان یکطرفہ کرایہ 6.70پاؤنڈ یعنی پاکستان کے حساب سے تقریباً دو ہزار چار سو روپے بنتا ہے۔ کسی کو بتائیں تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ 6.70پاؤنڈ کا مطلب یہ ہوا کہ کرایہ ساڑھے چھ روپے سے تھوڑا زیادہ ہے۔ اب بندہ کیا بتائے کہ وہاں کا پاؤنڈ بہرحال روپیہ ہرگز نہیں ہے کہ برطانیہ میں مزدور کی کم از کم تنخواہ بتیس ہزار پاؤنڈ ماہانہ نہیں ہے۔ عام آدمی کے اوسط تنخواہ اڑھائی ہزار پاؤنڈ ماہانہ کے لگ بھگ بنتی ہے۔
ایک ٹی وی شو پر میں نے میاں شہباز شریف کے اورنج ٹرین اور میٹرو کے عشق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ غریب ملک میں لوگوں کو باعزت اور معقول ٹرانسپورٹ کی فراہمی یقینا قابلِ تعریف بات ہے لیکن جس قیمت پر یہ سہولت دی جا رہی ہے وہ کسی طرح بھی قابلِ تعریف نہیں کہ یہ مسلسل خسارے کا سودا ہے اور پاکستان جیسے ملک میں‘ جہاں پہلے سے بے شمار سفید ہاتھی ٹائپ سرکاری ادارے موجود ہیں‘ ان کو کم کرنے کے بجائے مزید دو چار سفید ہاتھیوں کے اضافے کے کیا نتائج ہوں گے‘ اس کے بارے میں کسی نے شاید سوچا ہی نہیں۔ مسلسل خسارے پر چلنے والی دکان کا انجام بند ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ حکومت ٹرانسپورٹ کا نظام اپنی سرپرستی میں سبسڈی کی بنیاد پر چلانے کے لیے پچیس‘ تیس ارب کی بنیادی سرمایہ کاری اور بعد ازاں مستقل بنیادوں پر ہر سال اربوں روپے کی سبسڈی کے بجائے ان پیسوں سے شہروں کے اندر سڑکوں کا معیار بہتر کر دیتی تو یہاں پرائیویٹ سیکٹر خود معیاری بسیں چلا دیتا۔ اس طرح شہر کا کوئی ایک طویل روٹ ہی مستفید نہ ہوتا بلکہ شہر کے اکثر علاقے اس سہولت سے بہرہ مند ہو جاتے۔ ٹی وی کے اسی شو میں ڈیرہ غازی خان کا ایک سیاستدان جس کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا‘ میری اس بات پر بڑا جز بز ہوا اور کہنے لگا کہ امریکہ میں نیو یارک میں جہاں مرضی جائیں وہاں ٹرین کا کرایہ ایک ڈالر ہے۔ میں بھی چند روز پہلے ہی نیویارک کی اس ٹرین پر مبلغ اڑھائی ڈالر بھر کر سفر کر چکا تھا۔ مجھے اس جھوٹ اور غلط بیانی پر بڑا تاؤ آیا۔ میں نے اسے طنزاً کہا کہ آپ یہ بھی زیادہ بتا رہے ہیں۔ بھلا آپ کو کیا پتا کہ کرایہ کتنا ہے؟ کسی پارٹی ورکر یا چاہنے والے نے آپ کی ٹکٹ خریدی ہو گی۔ آپ کو تو مفت میں سفر پڑا ہو گا۔ جیب سے ادا کیا ہوتا تو معلوم بھی ہوتا کہ نیو یارک میں ٹرین کا بنیادی کرایہ اڑھائی ڈالر سے شروع ہوتا ہے۔ تب امریکہ میں تیل کی قیمت سوا تین ڈالر فی گیلن (3.785لٹر) تھی۔
ریلوے کی کہانی ہم سب کے سامنے ہے۔ نہ صرف یہ کہ مسلسل خسارے میں جا رہی ہے بلکہ ہر آنے والے سال اس کا خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ نااہلی اور نالائقی کا یہ عالم ہے کہ اسلام آباد میں ریلوے کیرج فیکٹری موجود ہے مگر بوگیاں چین سے بن کر آ رہی ہیں۔ پاکستان ریلوے نے گزشتہ سال جولائی سے دسمبر تک کی ششماہی میں 28.26ارب روپے کمائے جبکہ اس دوران اس کا خرچہ 52.99ارب روپے رہا۔ یعنی چھ ماہ میں 24.73ارب روپے کا نقصان کیا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ریلوے خسارے کا سودا ہے لیکن ہمارے ہمسایہ ملک میں یہ کیسے منافع کا سودا ہے؟ انڈین ریلوے نے سال 2022-23ء میں مبلغ پچیس ارب سترہ کروڑ روپے کا منافع کمایا۔ آخر وہ بھی تو ٹرین ہی چلا رہے ہیں۔مگر وہاں کا وزیر ریلوے ہمارے سیاستدانوں کی طرح اپنے محکمے کو ذاتی چراہ گاہ سمجھ کر ہزاروں بندے بھرتی کر کے اپنے ووٹ پکے نہیں کرتا۔ ہمارے سیاستدان وزیر بنتے ہی محکمے کو فالتو ملازمین سے اور اپنی جیب کو نوٹوں سے بھر لیتے ہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں