"KMK" (space) message & send to 7575

ادارے ایسے برباد نہیں ہوتے…(4)

حکایت ہے کہ بچھوؤں کی ایک قطار جا رہی تھی کسی نے پوچھا کہ تمہارا سردار کون سا ہے۔ قطار میں سے ایک بچھو نے کہا کہ تم جس کی کمر پر بھی انگلی رکھو گے وہی سردار ہوگا۔ مطلب کہ تم جس کی کمر کو بھی اپنی انگلی سے چھوؤ گے وہ تمہیں ڈنگ مار کر اپنے سردار ہونے کا ثبوت دے گا۔ ہمارے ہاں بھی یہی حال ہے۔ بچھوؤں کی ایک قطار ہے جو اتنی طویل ہے کہ اس کا شمار ممکن نہیں اور اس میں سے جس کی کمر پر بھی ہاتھ رکھو وہی بتاتا ہے کہ میں سردار ہوں۔ عالم یہ ہے کہ جس بندے کو شریف گردانتے ہیں اس کو بھی موقع ملے تو وہ سردار ہی نکلتا ہے۔اب اپنے رضا ربانی کو دیکھیں‘ قائداعظم کے پہلے اے ڈی سی میاں عطا ربانی کے فرزندِ ارجمند‘ موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ میں نہایت معقول اور معزز گردانے جاتے ہیں۔ اصول پسندی کا یہ عالم ہے کہ اپنی پارٹی کے فیصلے پر اپنے ضمیر کے خلاف سینیٹ میں ووٹ ڈالتے ہیں اور پھر باہر آکر آنسو بہاتے ہیں۔ اب بھلا ان جیسے پڑھے لکھے‘ شریف‘ اصول پسند اور نیک نام سیاستدان میں اور کسی ایسے انگوٹھا ٹیک‘ اَن پڑھ اور جاہل سیاستدان میں کیا فرق ہے جو پارٹی کی گائیڈ لائن اور ہدایت کے مطابق کسی بھی بِل‘ قرارداد یا ترمیم کو بغیر پڑھے ہاتھ اٹھا کر منظور کر لیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میاں رضا ربانی ایسا کرنے کے بعد آبدیدہ ہو جاتے ہیں اور دوسرے والا رکنِ سینیٹ مسکراتا ہوا اپنے پارٹی لیڈر سے شاباش لیتا ہے۔
سینیٹ نے کچھ عرصہ پہلے چیئرمین سینیٹ کیلئے از خود ہی مراعات میں اضافے کا بل منظور کر لیا۔ اس بل کو آپس میں دست و گریبان جماعتوں نے نہایت ہی بھائی چارے اور باہمی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ اس بل کے حق میں ووٹ ڈالنے والوں میں سینیٹ کے دو سابقہ چیئرمین فاروق ایچ نائیک اور میاں رضا ربانی بھی شامل تھے۔ اخلاقیات اور مروجہ قانونی ضوابط کو مد نظر رکھیں تو یہ سیدھا سیدھا conflict of interestکا کیس ہے اور دونوں سابقہ چیئرمینز سینیٹ کو تو کم از کم اس رائے شماری میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا۔ چلیں فاروق نائیک کی تو اور بات ہے میاں رضا ربانی کو تو اس سلسلے میں پارٹی کی طرف سے کوئی ہدایت نہیں ملی تھی۔ ہاں ! البتہ انہیں یہ والا ووٹ ڈالنے کے بعد ضرور آبدیدہ ہونا چاہیے تھا۔
اب ذرا اس بِل کی تفصیل دیکھیں۔ چیئرمین سینیٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد( اسے ہم ریٹائرمنٹ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بنیادی طور پر یہ محض چھ سال کی ایک ٹرم ہے) اس چھ سالہ مدت کے اختتام پر فارغ ہونے والے چیئرمین سینیٹ کو تاحیات بارہ عدد ملازمین کے علاوہ چھ عدد محافظ اور VVIP سکیورٹی دی جائے گی۔ وہ مجاز حکام سے اندرون ملک و بیرون سفر کیلئے ہوائی جہاز طلب کر سکیں گے۔ اس میں چارٹرڈ جہاز کی سہولت بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں مفت ٹیلی فون‘ فرنشڈ رہائش برائے چیئرمین و اہلِ خانہ‘ مفت پٹرول‘ عہدے سے فراغت بعد سفر اور اس کیساتھ ڈیلی الاؤنس کی وصولی اور مزید تین چار ایسے الاؤنس جن کا مناسب ترجمہ بھی دستیاب نہیں‘ سابقہ چیئرمین سینیٹ کیلئے منظور کئے گئے۔ ایک قریب الدیوالیہ ملک میں جو ٹکے ٹکے کیلئے دنیا بھر میں کشکول اٹھا کر خیرات مانگتا پھر رہا ہے اس کے اربابِ اقتدار اپنے لیے تاحیات مراعات مانگ رہے ہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سینیٹ کے ارکان کی اکثریت اپنی پارٹی کو سینیٹ کا ٹکٹ لینے کے عوضانے میں کروڑوں روپے کی ڈونیشن دینے کے علاوہ ووٹ خریدنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے اور ذہنی غربت اور عسرت کا یہ عالم ہے کہ ارب پتی ہونے کے باوجود سرکار کا خون نچوڑنے سے بازنہیں آتی۔ اس بل کی حمایت میں سینیٹ میں حزبِ اختلاف کے لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم‘ مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلزپارٹی‘ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے ارکان کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بھی شامل ہیں۔ یعنی اس بل کی منظوری کیلئے آگ اور پانی اکٹھے تھے۔ صرف جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اس بل کی مخالفت کی۔ سینیٹ کی اس واردات سے موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی یاد آ گئے۔ اور یاد اس لیے آئے کہ مجھے بچھوؤں کی قطار والی حکایت یاد آ گئی ہے۔
موصوف 2008ء سے 2013ء تک وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں وزیراعظم شکایات سیل کے سربراہ تھے۔ اسی دوران انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کے ذریعے اپنے بھائی رازق سنجرانی کو سینڈک میٹلز لمیٹڈکا ایم ڈی بنانے کی سفارش کروائی اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے اس کی منظوری کروالی۔ یہ منظوری اور تعیناتی از خود سینڈک میٹلز لمیٹڈ کے ایگزیکٹو سروس رولز 1992ء کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی۔ چلیں یہاں تک تو پھر بھی قابلِ برداشت ہے (دراصل ہماری قوتِ برداشت ان معاملات میں بہت زیادہ ہو چکی ہے) لیکن غلط بخشی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ جو حساب میں نے لگایا ہے اس کے مطابق رازق سنجرانی کی تاریخ پیدائش 1986ء بنتی ہے۔ یہ حساب بھی اس طرح لگایا ہے کہ اسلام آباد میں موصوف کو گریڈ اکیس اور بائیس کیلئے مخصوص رہائش گاہوں میں سے ایک رہائش گاہ ان کے نام پر 2046ء تک کیلئے الاٹ کردی گئی ہے۔ ظاہر ہے2046ء میں ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ ہو تو ان کی تاریخ پیدائش1986ء بنتی ہے۔ یعنی موصوف کو جب 2008ء میں سینڈک میٹلز لمیٹڈ کا منیجنگ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا تو ان کی عمر محض بائیس سال تھی۔ نہ ان کے پاس کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی متعلقہ کام کی تعلیم‘ مگر وہی بات کہ بچھوؤں کی قطار میں جس کی کمر پر ہاتھ رکھیں وہی سردار ہے۔ اس ملک میں ادارے اسی لیے برباد ہو رہے کہ نہایت ٹیکنیکل اور پروفیشنل اداروں کے سربراہان کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جن کا نہ تو متعلقہ فیلڈ میں کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی تعلیم مگر مقرر ہونے والے سربراہوں کے سابقہ ادارے تگڑے ہیں یا ان کے ورثا زور دار ہیں۔ اس قسم کی تعیناتیوں کے طفیل ادارے برباد ہو رہے ہیں اور اہل افراد مایوسی میں ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان میں زور زبردستی اور سفارش کے سامنے کسی کے میرٹ کا چراغ نہیں جل سکتا۔
سینڈک میٹلز پراجیکٹ سے نکلنے والے سونے‘ چاندی اور تانبے کے Ore یعنی مٹی‘ ریت اور پتھر سمیت خام مال صفائی کی غرض سے کراچی ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔کوئٹہ زاہدان (ایران) سیکشن پر آخری پاکستانی ریلوے سٹیشن تفتان ریلوے سٹیشن سے سینڈک تک تقریباً تیس کلو میٹر لمبا ایک ٹریک تھا جس پر مال گاڑیاں فرنس آئل لاتی تھیں اور خام مال پورٹ قاسم تک لے جاتی تھیں۔ اس ریلوے ٹریک کا بیشتر حصہ خاموشی سے غائب کر دیا گیا اور پھر ٹرکوں اور ٹرالروں نے بار برداری کی ساری ذمہ داری اٹھا لی۔ یہ محض اتفاق ہے کہ سینڈک سے پورٹ قاسم تک ہزاروں ٹن وزنی Oreکی بار برداری کا ٹھیکہ الصادق گڈز ٹرانسپورٹ کو مل گیا جو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے نام پر ہے اور اسے ان کے والد چلایا کرتے تھے۔
اربوں ڈالر کے اس پروجیکٹ کو2008ء میں ایک بائیس سالہ نوجوان کے حوالے کر دیا گیا جس کا اس پروجیکٹ اور کان کنی میں ایک دن کا تجربہ بھی نہیں تھا۔ فیملی کے سیاسی زور پر ملکِ عزیز کے ایک ایسے پروجیکٹ کو جس سے سالانہ چھ ہزار اونس سونا‘ بارہ ہزار اونس چاندی اور سترہ ہزار ٹن تانبا نکلتا ہے ایک ایسے نوجوان کے حوالے کردیا گیا جس کے ابھی تعلیم مکمل کرنے کے دن تھے۔ تاہم یہ کوئی واحد انوکھا معاملہ نہیں ہے۔ مملکت ِخداداد پاکستان اس قسم کی تعیناتیوں سے بھری پڑی ہے اور ہم حیران ہوتے ہیں کہ ادارے کیوں برباد ہو رہے ہیں۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں