"KMK" (space) message & send to 7575

چوبیس کروڑ رہائشیوں کا جناح ہاؤس

سرفراز بگٹی کو نگران وفاقی وزیر داخلہ بننے کے کامل ڈیڑھ ماہ بعد یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ ملک میں سمگلنگ کروانے والوں میں کون کون شامل ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں سمگلنگ میں معاونت کرنے والے سرکاری افسروں کے خلاف سخت ترین کاروائی کی بات کرکے اس دیرینہ راز سے بھی پردہ اٹھا دیا ہے۔ تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ جو باتیں سمگلنگ کے گڑھ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ کو تین‘ چار دن قبل معلوم ہوئی ہیں وہ مخلوقِ خدا کو گزشتہ کئی عشروں سے معلوم تھیں۔
ملک میں گندم کی قلت ہو جاتی تھی تو شور مچتا تھا کہ گندم فلاں ملک میں سمگل ہو رہی ہے۔ سوال اٹھتا تھا کہ کیا گندم ایئرپورٹ سے بیرونِ ملک جانے والے لوگ جیب میں‘ بیگ میں یا صندوق میں ڈال کر لے جا رہے ہیں جو کسی کو دکھائی نہیں دے رہی؟ لاکھوں ٹن گندم کو کسی شاپر یا پڑیا میں ڈال کر لے جانا تو رہا ایک طرف اسے تو گدھوں پر لاد کر بھی افغانستان نہیں لے جایا جا سکتا۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ ٹرکوں ٹرالروں پر ہوتا تھا اور ٹرک پہاڑوں کی پگڈنڈیوں اور دشوار گزار راستوں سے نہیں بلکہ باقاعدہ سڑکوں کے ذریعے جاتے ہوں گے اور ان سڑکوں پر چیک پوسٹیں بھی ہوتی ہوں گی اور ان پر محافظ بھی ہوں گے‘ کسٹم کے افسران بھی ہوں گے۔ ایف سی کے اہلکار بھی ہوں گے۔ مختلف ایجنسیوں کے نمائندے اور سرحدوں کی حفاظت پر مامور اداروں کے لوگ بھی ہوں گے تو بھلا ان سب کی موجودگی میں سب کچھ کیسے ہوتا رہا۔
ملک میں یوریا کی شارٹیج ہوئی تو معلوم ہوا کہ یوریا کھاد کا پاکستان میں ریٹ اگر ساڑھے تین ہزار روپے فی بوری ہے تو وسط ایشیائی ریاستوں میں اس کی قیمت دس ہزار روپے فی بوری تھا۔ بس پھر کیا ہونا تھا۔ پردیسی تھیلوں میں نوٹ لے کر آئے اور کھاد فیکٹریوں سے ٹرالر لوڈ کر چلتے بنے اور ماچھی گوٹھ اور میر پور ماتھیلو سے یہ ٹرالر سیدھے چمن اور طورخم بارڈر سے ہوتے ہوئے تاجکستان‘ ازبکستان‘کرغزستان اور ترکمانستان تک پہنچ گئے۔ لیکن ملک ِعزیز کی سرحدوں پہ بیٹھے ہوئے درجن بھر اداروں کے ذمہ داروں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ظاہر ہے اگر یہ سب کچھ عشروں تک چلتا رہا ہے تو بہت سے لوگ اس سارے نظام کے بینی فشری بھی ہوں گے اور یہ کون تھے‘ سب کو معلوم ہے لیکن اگر کسی کو معلوم نہیں تو انہیں ہی معلوم نہیں جنہیں نہ صرف یہ کہ سب کچھ معلوم ہونا چاہئے تھا بلکہ ان کو ہر بات معلوم ہونے کا دعویٰ بھی سب سے بڑھ کر ہے۔
ایران سے پٹرول و ڈیزل کی سمگلنگ کا علم تو بچے بچے کو ہے اور ہر چوتھے بندے کو یہ بھی خبر ہے کہ یہ سمگل شدہ ڈیزل شہر کے کس کس پٹرول پمپ پر اور نواحی علاقوں کی کس کس پٹرول ایجنسی پر کھلے عام فروخت ہو رہا ہے۔ یہ سمگل ہونے والا تیل ملک کے آخری شہر تک پہنچ جاتا ہے اور انسدادِ سمگلنگ کے ذمہ داران کو اس سارے معاملے کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔اگر خبر نہیں تو ان کی نالائقی اور نااہلی پر عشروں تک کسی نے خبر کیوں نہیں لی؟ اور اگر انہیں خبر تھی اورسب کچھ ہو رہا تھا تو کسی نے ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟ بقول شخصے یہ کروڑوں روپے روزانہ اور اربوں روپے ماہانہ کی گیم تھی اور اس میں ہر افسرطے شدہ اصولوں اور طریقہ کار کے مطابق باقاعدہ حصہ دار تھا۔ اس گیم میں لوگوں نے کروڑوں نہیں اربوں روپے بنائے اور اس کے عوض ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا گیا۔ صرف ایک بوٹی کھانے کے عوض پورا بکرا ذبح کرکے رکھ دیا گیا۔ اس سارے سسٹم کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ سب کو علم تھا مگر کسی میں روکنے کی جرأت نہیں تھی کہ اس میں ایسے بڑے بڑے لوگ حصہ دار تھے کہ بندہ نام لینے لگے تو ہوا ڈھیلی ہو جائے۔
ایک دو سال سے تو معاملہ باقاعدہ طے شدہ منصوبہ بندی کے ذریعے جاری تھا۔ ڈالروں کی قلت اور زرِ مبادلہ میں کمی کا یہ حل نکالا گیا کہ ملکی امپورٹ بل جو پچاس ارب ڈالر سے بھی بڑھ گیا تھا اسے کنٹرول کرنے کی خاطر ایران سے پٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ کو باقاعدہ غیر تحریری قسم کی اجازت کے طور پر لاگو کر دیا گیا اور جو کام تھوڑے سے پردے میں تھا اسے بالکل ہی دن دہاڑے کرنے کی اجازت دے دی گئی‘ تاہم یہ اجازت صلائے عام بہرحال نہیں تھی۔ اس سے فائدہ اٹھانے والے بالکل وہی تھے جو عشروں سے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے لیکن اب یہ ہوا کہ وہ نوٹ کمانے کے ساتھ ساتھ ملک کے معاشی محسن بھی بن گئے لیکن اچانک ایک دن علم ہوا کہ جو ایرانی تیل بذریعہ سمگلنگ ملک میں آ رہا ہے اس کی ادائیگی پاکستان روپوں میں نہیں‘ ڈالروں میں ہو رہی ہے۔ یعنی زرِ مبادلہ تو ڈالروں میں ہی خرچ ہو رہا ہے مگر سرکار کو ٹکے کی بھی کسٹم ڈیوٹی یا ایکسائز ڈیوٹی وغیرہ نہیں مل رہی۔ ڈالروں کو بچانے کا جو فلسفہ گھڑا گیا تھا وہ تو سرے سے فلاپ ہو گیا اور ریاست کو جو پیسہ ٹیکس اور ڈیوٹی کی مد میں ملتا تھا‘ وہ اس سے بھی محروم ہو گئی۔ ہاں! البتہ اس نظام سے عشروں سے موج میلہ کرنے والوں نے مزید موج میلہ کیا اور اس کے عوض ریاست کے ساتھ وہی ہوا جو سو جوتے اور سو پیاز کھانے والے محاورے میں بتایا گیا ہے۔
ایک طرف تو یہ ہوا کہ سمگل شدہ تیل کی ساری قیمت ڈالروں میں وصول کی گئی اور دوسری طرف یہ ہوا کہ منڈیوں سے گندم اور فیکٹریوں سے کھاد پاکستانی روپوں میں خریدی گئی اور اس سمگلنگ سے ہونے والے نفع سے پشاور سے ڈالر خرید کر افغانستان لے جائے گئے اور ان ڈالروں سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں وہ مال امپورٹ کیا گیا جس کی افغانستان میں ضرورت ہی نہیں ہوتی اور پھر وہ سارا سامان واپس پاکستان لا کر بیچا گیا۔ اس سمگل شدہ سامان کی فروخت سے جہاں ایک طرف پاکستان کو کسی قسم کا ٹیکس اور ڈیوٹی نہ مل سکی وہیں دوسری طرف ملکی انڈسٹری کو اس سے جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا وہ الگ ہے۔
اس سارے چکر کو دیکھیں تو علم ہوتا ہے کہ اس سارے رولے میں صرف اور صرف سمگلروں اور ان کے معاونین نے کمائی کی اور پاکستان کو ہر طرح سے صرف اور صرف نقصان اور گھاٹا برداشت کرنا پڑا۔ جب مسئلہ آن پڑے تو کاغذوں کے ڈالر بھی باہر نہیں جا سکتے اور جب آنکھیں بند ہوں تو ٹرالر اور ٹینکر بھی کسی کو دکھائی نہیں دیتے۔ چلیں یہ تو درست ہوا کہ اب سمگلنگ کی معاونت کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی لیکن جو لوگ اب تک اس بہتی گنگا میں اشنان کرتے رہے ہیں ان کا بھی کوئی کھاتہ کھلے گا یا سارا زور صرف سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے پر لگا رہے گا؟
کاش کوئی سمجھے کہ یہ مملکت خدا داد پاکستان بھی جناح ہاؤس ہے اور اس کو لوٹنے کھسوٹنے والوں کے ساتھ بھی بالکل وہی سلوک ہونا چاہئے جو جناح ہاؤس کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اللہ مجھے فتوؤں سے محفوظ رکھے لیکن میرے خیال میں یہ ملک کسی طرح بھی جناح ہاؤس سے کم نہیں بلکہ یہ تو ایک ایسا جناح ہاؤس ہے جس نے چوبیس کروڑ لوگوں کو اپنے اندر سمیٹ رکھا ہے اور پناہ دی ہوئی ہے۔بھلا اس کی حرمت اور حفاظت سے کس طرح کوتاہی کی جا سکتی ہے؟ گزشتہ کئی عشروں سے اس ملک کو کھل کر لوٹا گیا اور اوپر سے لے کر نیچے تک ہر شخص اورادارے نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اب معاشی کڑاکے نکلے ہیں تو سب کو ہوش آ گیا ہے۔
چلیں مان لیا کہ ہمیں اس جناح ہاؤس کی فکر کرنی چاہیے جس کی ادائیگی جناح صاحب کے ورثاکو کر دی گئی تھی تو کیا ہمیں اس جناح ہاؤس کی فکر نہیں کرنی چاہیے جس کے مقروضوں کی تعداد چوبیس کروڑ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں