"KMK" (space) message & send to 7575

تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے؟

ٹاٹا سٹیل کا چیئرمین جمشید پور میں اپنے سٹیل یونٹ کے سٹاف کے ساتھ ہفتہ وار میٹنگ میں تھا‘ جب اس کے ایک ملازم نے اس کی توجہ ایک سنجیدہ امر کی طرف مبذول کرواتے ہوئے اسے بتایا کہ ورکرز کے ٹوائیلٹس میں صفائی اور حفظانِ صحت کا معیار بہت خراب ہے‘ مزید اس نے یہ کہا کہ دوسری طرف افسران کیلئے مختص ٹوائیلٹس میں صفائی ستھرائی کا معیار بہت ہی اعلیٰ ہے۔ ایگزیکٹوز کے ٹوائیلٹس ہمیشہ ہی صاف ستھرے جبکہ ورکرز کے ٹوائیلٹس کے حالات بہت ہی خراب ہیں۔ چیئرمین نتارا جن چندرا سیکرن نے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ایک اعلیٰ درجے کے ایگزیکٹو سے پوچھا کہ اس شکایت کے ازالے اور معاملات کی درستی کیلئے کتنا وقت درکار ہے؟ اس افسر نے جواب دیا کہ اس کام کیلئے ایک ماہ کافی ہے، چیئرمین نے کہا کہ میرا خیال ہے یہ کام صرف ایک دن میں ہو سکتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے کہا کہ کل اس کے پاس ایک کارپینٹر بھیجا جائے۔ اگلے روز کارپینٹر آ گیا۔ چیئرمین نے اسے صرف اتنا کہا کہ وہ جائے اور جا کر فوراً افسروں اور ورکروں کے ٹوائیلٹس کے باہر لگی ہوئی تختیوں کو آپس میں بدل دے۔ یعنی افسران کے ٹوائیلٹس کے باہر ورکرز والی تختیاں لگا دے اور ورکرز والے ٹوائیلٹس کے باہر افسروں والی تختیاں لگا دے۔ اسی روز یہ کام مکمل کر دیا گیا۔اب ورکرز کے ٹوائیلٹس کے باہر''ایگزیکٹوز‘‘ کی تختی لگ گئی اور ایگزیکٹوز کے ٹوائیلٹس کے باہر ''ورکرز‘‘ کی تختی لگ گئی۔ جب یہ کام مکمل ہو گیا تو چیئرمین نتاراجن چندراسیکرن نے کہا کہ یہ تختیاں ہر پندرہ روز بعد آپس میں تبدیل کر دی جائیں۔ تمام ٹوائیلٹس کی صفائی، حفظانِ صحت اور دیگر سہولیات کا معیار تین دن میں ایک دوسرے کے عین برابر آ گیا۔ لیڈر شپ ایسی شے ہے جو ایگزیکٹو ہونے سے قدرے مختلف اور بلند تر ہے۔
مجھے یہ واقعہ ایک دوست نے پوسٹ کیا ہے۔ اس پوسٹ کے نیچے درج ہے کہ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی واقعہ ہے۔ ویسے ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اب ذاتی طور پر ایسے آنے والے پیغامات اور پوسٹوں پر اعتبار نہیں ہے۔ اس کے نیچے تو صرف یہ عام سا نوٹ لکھا ہوا ہے اگر بیان حلفی بھی ہو تو اس پر اعتبار نہیں رہا کہ لوگوں نے قصے کہانیاں بنا کر پوسٹ کرنا اور پھر ایسی پوسٹوں کو فارورڈ کرنا وتیرہ بنا لیا ہے اور اب سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق بالکل ختم ہو کر رہ گیا ہے‘ لیکن اس کی حقیقت سے قطع نظر اس سارے واقعہ سے معاملات کو فوری اور خوب تر طریقے سے حل کرنے کا سبق ضرورملتا ہے۔ میں نے شاہ جی کو یہ واقعہ سنایا اور ان سے کہا کہ واقعہ ہوا یا نہیں ہوا لیکن اس میں پوشیدہ سبق سے لیڈر اور محض افسر میں فرق ضرور سمجھ میں آتا ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: بندۂ خدا ہر بات کو حساب کتاب کے حوالے سے نہیں پرکھتے اور ہر چیز پر منطق نہیں جھاڑتے۔ اس واقعے میں دانائی کا پہلو دکھائی دیتا ہے اور بس یہی کافی ہے۔ اب بھلا حکایاتِ سعدی کی ہر حکایت کی کس نے تصدیق کی ہے؟ ہزار سال سے یہ حکایات محض اس لیے زندہ ہیں کہ ہر حکایت میں ایک سبق اور دانائی پوشیدہ ہے۔ یہ چیزیں تمثیل کے طور پر آپ پر اثرانداز ہوتی ہیں اور اس سے آپ کچھ ایسا حاصل کرتے ہیں جسے ہم ''لوک حکمت‘‘ (Folk wisdom ) کہہ سکتے ہیں۔ ایسی باتوں سے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھولی اور روشن کی جاتی ہیں نہ کہ ان کے تاریخی وجود پر تحقیق شروع کر دی جائے کہ شیخ سعدی کی کون سی حکایت واقعتاً وقوع پذیر ہوئی تھی اور کون سی محض افسانہ ہے۔
میں نے عرض کی: شاہ جی میری غلطی کو معاف فرما دیں اور اب یہ بتائیں کہ اس حکایت سے ایسا کون سا اخلاقی نتیجہ یادانائی کا پہلو نکلتا ہے جو موجودہ صورتحال میں ہمارے لیے کوئی سبق لے کر آئے؟ شاہ جی کہنے لگے: اگر ہمارے ہاں نظام ِانصاف پر لگی ہوئی طاقتوروں اور کمزوروں کی تختی ہر پندرہ روز بعد بدل دی جائے جیسے ٹاٹا سٹیل کے دفتر کے ٹوائیلٹس کی ایگزیکٹوز اور ورکرز کی تختیاں ہر پندرہ روز بعد تبدیل کرنے سے ٹوائیلٹس کا نظام درست ہو گیا اور کمپنی کے ایگزیکٹوز اور ورکرز کو ایک ہی معیار کی صفائی اور لوازمات والے یکساں قسم کے ٹوائیلٹس کی سہولت میسر آ گئی تھی۔ ہمارے ہاں ہر پندرہ روز بعد زور آوروں اور محکوموں کے مابین عدل و انصاف کے پیمانے Swap ہونے چاہئیں۔ جو انصاف ادھر امیروں‘ طاقتوروں اور زور آوروں کو مل رہا ہے وہ اگلے پندرہ روز کیلئے اس ملک کے غریب‘ لاچار‘ مقہوراور مجبورعوام کو فراہم کیا جائے۔ پی ایل ڈی میں درج امیروں اور زور آوروں کو ملنے والے انصاف پر مبنی فیصلوں کا من و عن اطلاق غریبوں اور بے کسوں کے مقدموں پر بھی کیا جائے۔
میں نے کہا: شاہ جی آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟شاہ جی کہنے لگے: میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح میاں نوازشریف کو ان کے پلیٹ لیٹس کم ہونے پر دس سالہ سزا کے دوران بیرونِ ملک علاج کیلئے جانے کی سہولت دی گئی ہے اسی طرح جیل میں قید ہر بے کس اور مجبور اس سزا یافتہ ملزم کو جو کسی بھی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہے علاج کی سہولیات ملنی چاہئیں۔ ملک سے باہر تو چھوڑیں، کم از کم ملک کے اندر اسے اس کی مرضی کے ہسپتال میں علاج کروانے کی سہولت ملنی چاہئے۔ وہ قیدی نوازشریف ہو، الطاف کمہار ہو یا نورا موچی ہو‘ سب کو ایک جیسی سہولت ملنی چاہئے۔ اگر سندھ کے سپیکر آغا سراج درانی کے گھر کو سب جیل قرار دے کر انہیں اس میں رکھا جا سکتا ہے تو یہ سہولت چند ہزار روپے کی رشوت میں پکڑے جانے والے کسی افتخار کلرک کو بھی ملنی چاہئے اور بکری چوری کرنے والے جاوید میراثی کو بھی اس سے مستفید ہونے کا حق دیا جائے۔ ہر مفرور اور اشتہاری کو واپسی پر جلسہ کرنے اور جلوس نکالنے کی اجازت ملنی چاہئے۔
آئینِ پاکستان اپنے ہر شہری کو قطع نظر اس کی سماجی حیثیت، اس کے سیاسی مقام، اس کی معاشی درجہ بندی اور اس کے معاشرتی مرتبے کے‘ برابر کی حیثیت کی ضمانت دیتا ہے لیکن یہ ضمانت صرف لکھے ہونے کی حد تک ہے، اس ملک میں بے کس اور مجبور کی اپیل کی تاریخ مہینوں بلکہ سالوں تک نہیں آتی جبکہ زور آوروں کیلئے چھٹی والے دن عدالتیں کھل جاتی ہیں اور آدھی رات کو انصاف کے بِگل بجنے لگ جاتے ہیں۔ کسی کو بعد از گرفتاری مہینوں ضمانت نہیں ملتی اور کسی کو پیشگی حفاظتی ضمانت عطا کر دی جاتی ہے۔ کسی کو گنہگار ہونے کے ناقابلِ تردید شواہد کے باوجود بریت کے منصب پر سرفراز کیا جاتا ہے اور کسی کی بے گناہی کا حکم تب جاری ہوتا ہے جب اسے پھانسی پر چڑھے کئی مہینے گزر گئے ہوتے ہیں۔ چوک میں باوردی سرکاری پولیس اہلکار کو کچلنے والے باعزت بری ہو جاتے ہیں اور بکری چور کی ضمانت نہیں ہوتی۔
اللہ مجھے بلند مرتبت لوگوں کی توہین کے جرم سے محفوظ فرمائے لیکن سچائی یہی ہے کہ انصاف کے اونچے دروازے پر لگی ہوئی گھنٹی بجانے کیلئے جتنے اونچے قد کی ضرورت ہے ہمارے بے آسرا، کمزور، مجبور مقہور اور لاچار لوگ اس سے محروم ہیں۔ یہ سب لوگ اتنے پست قد اور بونے ہیں کہ ان کا ہاتھ اس زنجیرِ عدل تک پہنچتا ہی نہیں جسے کھینچ کر وہ منصف ِاعلیٰ کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں اور عدل و انصاف سے مستفید ہو سکیں۔ چلیں ہر پندرہ روز بعد نہ سہی، چار چھ ماہ بعد ہی پندرہ روز کیلئے امیروں اور غریبوں کو ملنے والے انصاف کے پیمانے آپس میں تبدیل کر دیے جائیں۔ ٹاٹا سٹیل کے ٹوائیلٹس کی طرح ان کا معیار بھی یکساں ہو جائے گا۔ خدا نخواستہ میرا مطلب نظام انصاف اور ٹوائیلٹس کا باہمی موازنہ نہیں ہے۔ میں تو مثال دے رہا ہوں۔ آخر کوئی تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں