لوگ بیماری میں چڑچڑے‘ زود رنج اور زیادہ حساس ہوجاتے ہیں‘ چھوٹی سی بات پر ناراض یا رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایسے عالم میں جبکہ اسے اس بات کا اندازہ تھا کہ حالات زیادہ اچھے اور امیدافزا نہیں ہیں‘ وہ پہلے سے کہیں زیادہ پُرسکون‘ خوش اور متحمل مزاج ہو گئی تھی۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ اسے بہادر ہونے کا نہ تو دعویٰ تھا اور نہ ہی وہ بہادرتھی۔ وہ تو بڑی ہی ڈرپوک سی تھی مگر جب وقت پڑا تو اس نے ہمیں حیران ہی کر دیا۔ ایسا نہیں کہ ہمارے درمیان کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ ایک بار میرے دوست پروفیسر توصیف نے‘ جو اُس کا یونیورسٹی میں استاد رہ چکا تھا‘ اُس سے پوچھا کہ تمہارا خالد سے کبھی جھگڑا ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگی: سر! آپ انہیں جانتے نہیں؟ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے یہ مجھے قتل ہی کر دیں گے۔ توصیف کہنے لگا: چلیں اللہ کا شکر ہے کہ آپ دونوں نارمل میاں بیوی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
آخری دو سال تو اُس نے ایسے شاندار گزارے کہ میاں بیوی کے درمیان پہلے دوسال بھی کب ایسے گزرے ہوں گے۔میری بہت سی ایسی باتیں جن پر پہلے وہ ناراض ہوتی تھی‘ بحث یا اختلاف کرتی تھی‘ اُس نے ایسی باتوں کو درخورِاعتنا سمجھنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ویسے تو اُسکے ساتھ گزرے 26 سال چھ ماہ اور 17دن ہی پل جھپکتے گزر گئے تھے مگر یہ آخری والے دوسال! یہ تو کمال کے تھے۔ میں نے ایک دن اُس سے پوچھا کہ خیر ہے ؟ تم اس درویش پر اتنی مہربان کب سے ہوگئی ہو؟ ہنس کر کہنے لگی: مزا تو تب آئے گا جب میرے جانے کے بعد آپ کسی سے میرا موازنہ کریں گے اور پھر مجھے یاد کریں گے۔ آپ کا شرط لگانے اور جیتنے کا ریکارڈ اپنی جگہ لیکن اس بات پر تو میں آپ سے شرط لگانے کو تیار ہوں۔ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم اُداس ہوگئی۔ میں بھلا اس کی اس بات کا کیا جواب دیتا؟ اُس کی اداس شکل دیکھ کر مجھے تو اس کی بات کی تردید کا حوصلہ بھی نہ پڑا۔ نیک بخت ! میں نے تمہارا موازنہ بھلا کس سے کرنا ہے ؟ یہاں ہے ہی کون ؟ کبھی کبھار دل میں ایسے ہی یہ خیال آتا ہے کہ اگر اُس نے آخری دوسال اس طرح نہ گزارے ہوتے تو شاید زیادہ بہتر ہوتا۔ دل کی بے چینی میں ممکن ہے کچھ قرار آجاتا‘ مگر اس بے لطف قرار کا بھی کیا کرتے ؟
ان دوسال کے دوران شاید ہی اُس نے کبھی اپنی تکلیف یا کسی ذاتی پریشانی کا ذکر کیا ہو گا۔ اُسے میری مشکلات کی فکر تھی‘ کومل اور سارہ کو جلد رخصت کرنے کی فکر تھی‘ انعم کی پسند ناپسند کا خیال رکھنے کی فکرمندی تھی اور اسد کے بہت چھوٹے ہونے کا خیال تھا۔ پہلے پہل تو اس نے میرے ساتھ بازار جانا بند کر دیا کہ اب آپ خود خریداری کی عادت ڈالیں مگر ایک آدھ ماہ کے بعد اُس نے دوبارہ مجھے اپنے ساتھ بازار لے جانا شروع کر دیا۔ کہنے لگی: ابھی تو میرے ساتھ ہی خریداری کریں بعد میں تو آپ نے ساری عمر یہ کام اور دوسرے بہت سے کام اکیلے ہی کرنا ہیں۔
جب انجکشن کے شدید ری ایکشن کے بعد آغا خان کے ڈاکٹر نے اس کا علاج بند کرنے اور مزید کسی علاج سے معذوری کا اظہار کیا تو اُس نے ہسپتال کی راہداری میں کھڑے ہوکر بڑی حسرت سے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے۔ شاید یہ دوسری بار تھی جب اس کی آنکھیں نمناک ہوئیں۔ کراچی سے واپس آئے تو سوچا کہ اب کیا کریں ؟ کسی نے ساہیوال میں ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر کا بتایا۔ اس پر یقین تو شاید کسی کو بھی نہیں تھا مگر صرف اس لیے چل پڑے کہ اب ہاتھ چھوڑ کر بھی کیا بیٹھیں ؟ یہ تو خالی بیٹھ کر مایوسی میں دن گننے والا معاملہ ہو گا۔ ساہیوال سے واپسی پر وہ چپ سی تھی۔ ہم ہمیشہ کی طرح میاں چنوں میں ماسٹر سی این جی کی کافی شاپ پر کافی پینے رک گئے۔ کافی پیتے ہوئے عجب انداز میں مسکرا کر کہنے لگی :تو اب نوبت ہومیوپیتھک تک پہنچ گئی ہے۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ مجھے جزبز دیکھ کر ایکدم پریشان سی ہوئی۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اللہ جانے اُس کے دل میں کیا آئی کہ کہنے لگی: چلیں چھوڑیں‘ آج اس کافی کو انجوائے کریں۔ اس کے بعد آپ کو میرے ساتھ اپنی اس پسندیدہ جگہ پر بیٹھ کر کافی پینے کا موقع کہاں ملے گا۔ تب میرے دماغ میں دور دور تک ایسا کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔ اُس روز تو گمان بھی نہیں تھا کہ اگلے ہفتے آج ہی کے دن وہ ہمیں چھوڑ جائے گی۔
گزشتہ گیارہ سال کے دوران آہستہ آہستہ سب کچھ بکھرتا جا رہا ہے۔ کومل امریکہ‘ سارہ آسٹریلیا‘ اسد برطانیہ اور انعم ملتان میں ہے۔ وہ ہوتی تب بھی شاید یہی صورتحال ہوتی۔ بقول برادرِ عزیز معین نظامی:
کہ یہ گردش کی وہ مولائی سنت ہے
کہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی
لیکن یہ بات طے ہے کہ اُس کی تربیت اور یاد سے کہیں بڑھ کر شاید یہ اس کے جین (Gene) کا کرشمہ ہے جس نے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ان چاروں بہن بھائیوں کو آپس میں اس مضبوطی سے باندھ رکھا ہے کہ مجھے رشک آتا ہے۔ وہ برسوں سے بلا ناغہ روزانہ دو بار گھنٹوں آپس میں گروپ کال کرتے ہیں۔ مجھے بعض اوقات حیرانی ہوتی ہے کہ آخر ان کے پاس چوبیس گھنٹوں کے دوران ایسی کیا باتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں جو گھنٹوں ختم ہونے میں نہیں آتیں۔ بلا وجہ دیر تک ہنستے ہیں تو اُن دنوں کی یاد تازہ کرتے ہیں جب وہ بھی ایسی معمولی باتوں پر دیر تک ہنستی تھی جن پر میں شاید مسکراتا بھی نہیں تھا۔ تب بعض اوقات تو مجھے باقاعدہ الجھن ہوتی تھی کہ اس طرح بلا وجہ اور پھر اس بری طرح ہنسنے کا بھلا کیا تُک بنتا ہے۔ دو چار بار میں نے اس بات پر خفگی کا اظہار کیا تو بجائے اس کے کہ وہ اس بات کو سنجیدگی سے لیتی وہ آگے سے ہنسنا شروع کر دیتی کہ اگر آپ کو خود کھل کر ہنسنے کی توفیق نہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے ۔ اب میں ان کی ہنسی سنتا ہوں تو اپنے معبود کا بارہا شکر ادا کرتا ہوں کہ بچے مجھ پر نہیں‘ اُس پر چلے گئے ہیں۔ ان کے دم سے گھر میں ہنسی سننے کو ملتی ہے۔ہر گزرتے سال زندگی کا ایک سال کٹ جانے پر خوشی نہ سہی‘ اطمینان ضرور ہوتا ہے کہ چلیں ملاقات میں حائل فاصلے کی ایک ساعت مزید کم ہوئی۔ایسا ممکن نہیں کہ افتخار عارف اس عاجز کی موجودگی میں کلام سنائیں اور میں ان سے اس نظم کی فرمائش نہ کروں۔ اللہ انہیں خوش رکھے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ میری فرمائش رد کر دیں۔
ابھی کچھ دن لگیں گے
دل ایسے شہر کے پامال ہوجانے کا منظر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
جہانِ رنگ کے سارے خس و خاشاک
سب سرو و صنوبر بھولنے میں/ابھی کچھ دن لگیں گے
تھکے ہارے ہوئے خوابوں کے ساحل پر
کہیں امید کا چھوٹا سا اک گھربنتے بنتے رہ گیا ہے
وہ اک گھر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
مگر اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں
کسی دن دل کی لوحِ منتظر پر اچانک رات اترے گی
میری بے نور آنکھوں کے خزانے میں چھپے
ہر خواب کی تکمیل کر دے گی
مجھے بھی خواب میں تبدیل کر دے گی
اک ایسا خواب جس کا دیکھنا ممکن نہیں تھا
اک ایسا خواب جس کے دامنِ صد چاک میں کوئی مبارک
کوئی روشن دن نہیں تھا
ابھی کچھ دن لگیں گے...!