"KMK" (space) message & send to 7575

کتاب اور لائبریری سے محبت…(4)

اگر آپ رولز رائس گاڑی کو بھی کسی اناڑی ڈرائیور کے حوالے کر دیں تو یہ چند دنوں میں ہی اس کا بیڑہ غرق اور کباڑا کرنے کیلئے کافی ہے‘ جبکہ ایمرسن کالج کی لائبریری تو گزشتہ تیرہ سال سے اناڑی ڈرائیوروں کے ہاتھ لگی ہوئی تھی ‘اس کا بیڑہ غرق ہونا لازمی سی بات تھی۔ سو اس لائبریری کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے اور اس میں کسی حیرانی یا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
میں گزشتہ دس سال کے دوران دو تین بار اس لائبریری میں گیا ہوں اور ہر بار پہلے سے زیادہ بری حالت میں دیکھا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک نوزائیدہ یونیورسٹی کی لائبریری میں ایک لاکھ سے زائد کتب کا ذخیرہ تو موجود ہے لیکن اسے سنبھالنے‘ سنوارنے اور چلانے کے لیے ایک عدد لائبریرین بھی میسر نہیں۔زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس کا وائس چانسلر بذات ِخود کسی زمانے میں نہ صرف لائبریرین رہا ہے بلکہ اس کی پی ایچ ڈی بھی لائبریری سائنس میں ہے اور وہ کسی تعلیمی ادارے میں ایک عدد فعال لائبریری کی موجودگی اور اہمیت سے بھی آگاہ ہے اور لائبریری کے لیے کسی لائبریرین کی ضرورت کے بارے میں کسی بھی عام آدمی سے زیادہ بہتر جانتا ہے‘ لیکن جب آپ کی قومی ترجیحات میں ہی کتاب اور لائبریری کی کوئی خاص اہمیت نہ ہو تو پھر تعلیمی اداروں میں بھی یہی حال ہو جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں میں اس لائبریری میں چلا گیا اور اس کا موازنہ تب سے کیا جب میں اس درسگاہ میں زیرِ تعلیم تھا تو افسوس سے میرا برا حال ہو گیا۔ لائبریری کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کر رہی تھی۔ الماریوں پر گرد اس طرح جمی ہوئی تھی کہ لگتا تھا اس جگہ کی کسی نے مہینوں سے صفائی نہیں کی۔ ابا جی مرحوم کا کمرہ کسی لاوارث سٹور کی مانند تھا۔ ایک عدد نوجوان وہاں موجود تھا۔ معلوم ہوا کہ ڈیلی ویجز پر لائبرین کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد کتب پر مشتمل اس لائبریری کا انتظام و انصرام ایک ڈیلی ویجر کے سپرد ہے۔ کچھ الماریاں بند تھیں اور باقی ماندہ کھلی پڑی تھیں۔ اس کمرے میں کوئی نگران یا ملازم موجود نہیں تھا۔ جس کا جی کرے وہ جوچاہے کتاب اٹھائے اور گھر کی راہ لے۔ خدا جانے جب اس لائبریری کی کتب کی گنتی ہو گی تو اس کی کتنی کتابیں گمشدگی کے کھاتے میں جائیں گی۔ کیسی شاندار لائبریری تھی جواَب بربادی کی داستان سنا رہی ہے۔ تعلیمی ادارے کا سٹیٹس کالج سے بڑھ کر یونیورسٹی ہو گیا ہے‘ فیس پہلے سے تین چار گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ طالب علموں کی تعداد پہلے کی نسبت دوگنی سے بھی زیادہ ہو چکی ہے لیکن عالم یہ ہے کہ لائبریری میں نہ کتابوں کے قاری ہیں اور نہ ہی لائبریرین ہے۔ کامل تیرہ سال سے ایک سو تین سالہ قدیم تعلیمی ادارے کے علمی خزانے کا کوئی منتظم یا محافظ نہیں ہے۔
میں پہلے بھی پبلک لائبریری قلعہ کہنہ قاسم باغ کا ذکر کر چکا ہوں۔ یہ لائبریری بھی گزشتہ بیس پچیس سال سے کسی لائبریرین سے محروم ہے۔ خیر سے لائبریری جس برُے حال میں بھی ہے تاہم موجود تو ہے۔ میں نے اس لائبریری کی برُی حالت دیکھ کر ضلعی انتظامیہ کی توجہ اس طرف دلائی بلکہ بار ہا دلائی۔ ایک بار پنجاب لائبریری فاؤنڈیشن سے اس لائبریری کے لیے مبلغ دس لاکھ کی گرانٹ بھی منظور کروائی اور اس لائبریری نے کئی سال بعد نئی کتابوں کی شکل دیکھی۔ میں نے بھاگ دوڑ کرکے اس لائبریری کے لیے ایک عدد فوٹو کاپی مشین اور سکینر کا بندوبست کروایا اور دو عدد کمپیوٹر دلوائے۔ تاہم بعد میں سب کچھ کھوہ کھاتے چلا گیا اور ایک آفیسر تو اس کا کمپیوٹر لے اڑا جسے بمشکل کمشنر ملتان ڈویژن کی مداخلت سے واپس کروایا۔
اس لائبریری کی حالت میں مسلسل گراوٹ کے پیش نظر میں نے ضلعی انتظامیہ کو تجویز دی کہ اس لائبریری کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا انتظام کسی ایسے ادارے کے سپرد کیا جائے جو لائبریری کو سنبھالنے‘ چلانے اور اس میں بہتری لانے کا تجربہ اور استعداد رکھتا ہو۔ میونسپل کارپوریشن کے لیے اس لائبریری کو چلانا کسی طور بھی ممکن نہیں۔ نہ ان کے پاس اس لائبریری کے لیے پیسے ہیں‘ نہ اسے چلانے کے لیے درکار استعداد موجود ہے۔ نہ ہی وہ اسے چلانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کی ترجیحات میں اس کام کا کوئی مقام و مرتبہ ہے۔ بہتر ہے کہ اس لائبریری کو ان سے واپس لے کر ڈائریکٹوریٹ آف پبلک لائبریریز پنجاب کے حوالے کردیا جائے تاکہ اسے مزید بربادی سے بچایا جا سکے‘ لیکن مجھے جواب ملا کہ اس لائبریری کی تزئین و آرائش اور اسے مستقل بنیادوں پر سنبھال کر چلانے کا جو خرچہ درکار ہے وہ فی الحال حکومت کے پاس نہیں ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اس لائبریری کو بچانے کے لیے کی جانے والی کاوشوں پر سرکار نے اپنی طرف سے کسی قسم کی مدد سے صاف انکار کر دیا۔
چلیں یہاں تک تو پھر بھی برداشت کیا جا سکتا تھا لیکن اب یہ ہوا کہ چند روز قبل میں پھر اس لائبریری کی بہتری کے لیے ایک دروازے پر پہنچا اور اسے کھٹکھٹایا تو مجھے علم ہوا کہ میں جس لائبریری میں بہتری کے لیے کوشاں ہوں اسے تو سرے سے ہی ختم کیا جا رہا ہے۔ پتا چلا کہ ملتان کے قلعہ کہنہ میں موجود سارے سرکاری دفاتر وغیرہ ختم کیے جا رہے ہیں کیونکہ یہ قدیمی قلعہ اپنی اصلی شکل و صورت میں بحال کیا جا رہا ہے اور لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کا دائرہ کار پنجاب کے سارے فصیل والے شہروں تک پھیلا دیا گیا ہے۔ اور اس قلعے کی بحالی کے لیے پانچ ارب روپے سے زائد کا فنڈ بھی منظور ہو چکا ہے۔ یعنی ایک قدیمی لائبریری کی بحالی کے لیے چند کروڑ روپے دینے سے صاف انکار کر دیا گیا اور قلعے کی تزئین و آرائش کے لیے پانچ ارب روپے منظور کر دیے گئے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ لائبریری کا کیا بنے گا؟ جواب ملا کہ ابھی تو ہمیں بالکل بھی علم نہیں کہ اس لائبریری کا کیا بنے گا۔ ابھی تو یہی حکم ہے کہ سارے سرکاری دفاتر یہاں سے ختم کیے جائیں۔ میں نے کہا: لیکن یہ دفتر تو نہیں ہے‘ یہ تو لائبریری ہے اور قلعے کے نیچے ایک سائڈ پر بے ضرر سی جگہ پر ہے۔ یہ بھلا قلعے کو کیا تکلیف دے گی۔ جواب ملا: ہمیں تو جو کہا گیا ہے ہم وہی کریں گے۔ میں نے پوچھا: اس کے لیے کسی متبادل جگہ کا بندوبست کیا گیا ہے؟ جواب ملا :کم از کم ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے کہا: ملتان میں ایک پبلک لائبریری کا منصوبہ بنا تھا جو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ آپ اس لائبریری کو اُس منصوبے میں ضم کر کے ملتان میں ایک اچھی پبلک لائبریری وجود میں لا سکتے ہیں۔ جواب ملا کہ اس کے لیے کوئی مناسب جگہ موجود نہیں۔ میں نے کہا: جگہ میں آپ کو بتاتا ہوں آپ صرف ہمت کریں۔ اس سوال کا کوئی جواب نہ ملا۔ دن گزرتے ہیں کہ یہ لائبریری قلعے کی بیوٹی فکیشن کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔
پانچ ارب روپے کی خطیر رقم کے ساتھ قلعے کی بحالی کے نام پر جو کھلواڑ ہونے جا رہا ہے وہ بذاتِ خود بحالی کے نام پر تہمت ہے کہ اس سارے منصوبے میں کسی بھی قلعے کی بنیادی شے فصیل کی تعمیر کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اس کھاؤ پیو منصوبے کی حقیقت پر کسی اور دن روشنی ڈالوں گا۔ فی الحال تو لائبریری کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں