"KMK" (space) message & send to 7575

سنجیاں ہوجان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے

موجودہ سیاسی حالات دیکھتا ہوں تو مجھے ایک بچگانہ سا جملہ یاد آ جاتا ہے کہ ''ہمارا کتا کتا‘ تمہارا کتا ٹومی‘‘ آپ حیران ہوں گے کہ مجھے آخر یہ بچوں والی بات آج کل کے سیاسی حالات اور ماحول کے باعث کیوں یاد آئی ہے اور اس بات کی ان حالات سے کیا مطابقت ہے۔ تو عرض ہے کہ میاں نوازشریف کی ملک عزیز میں ‘‘باعزت'' واپسی پر ایک طبقہ پھر وہی پرانی باتیں کر رہا ہے کہ کیونکہ میاں صاحب کی ہر مقدمے میں ضمانت ہو رہی ہے‘ ہر سزا معطل ہو رہی ہے اور ہر اپیل منظور ہو رہی ہے اسلئے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ میاں صاحب پر قائم سارے مقدمے جھوٹے‘ ہر سزا غلط اور سارے الزامات بے بنیاد تھے‘ جبکہ حال ہی میں عمران خان اینڈ کمپنی پر درج ہونیوالے سارے مقدمات درست‘ ان کیساتھ ہونیوالا سلوک قانون کے عین مطابق اور انکا اندر ہو جانا ملک میں قانون کی بالادستی کا مظہر ہے۔
یہ بیانیہ ہر تیسرے چوتھے سال اسی طرح دہرایا جاتا ہے‘ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ بیان کرنیوالے بدل جاتے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی والے عدالتوں کے چکر لگا رہے تھے اور جیلیں بھگت رہے تھے تب میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کا بیانیہ تھا کہ ان سب کو کرپشن پر سزائیں مل رہی ہیں اور ان کے خلاف سارے مقدمات ان کے اعمال کا نتیجہ ہیں اور کسی کے ساتھ انتقامی کارروائی نہیں کی جا رہی‘ جبکہ ہمارے خلاف پرویز مشرف دور میں سارے مقدمات انتقامی بنیادوں پر قائم کیے گئے تھے اور ہماری بریت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تمام مقدمات غلط اور جھوٹے تھے۔ جب عمران خان کے دور میں نیب سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ کر رہا تھا تب عمران خان اور ان کے حواریوں کا کہنا تھا کہ کرپٹ لوگ اپنے اعمال کی سزا بھگت رہے ہیں اور حکومت کا ان مقدمات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ سب کو ان کے کیے کی سزا مل رہی ہے اور قانون اپنا راستہ خود بنا رہا ہے۔
اب میاں نوازشریف لاڈلے ہیں اور ان کی ہر مصیبت خود کار نظام کے تحت حل ہوتی جا رہی ہے۔ ان کی ہر سزا اور ہر مقدمہ بریت کے راستے پر گامزن ہے اور وہ چوتھی دفعہ وزیراعظم کیلئے صرف الیکشن نامی حجت کے منتظر ہیں کہ یہ فارمیلٹی پوری ہو اور وہ وزیراعظم کا حلف اٹھالیں۔ اب جبکہ میاں صاحب عین اسی قسم کے لاڈلے بن چکے ہیں جس قسم کی تہمت 2018ء میں عمران خان پر تھی تو اگلا مرحلہ بھی وہی ہوگا جو 2018ء کے الیکشن میں جیتنے والے کو سلیکٹڈ کی عرفیت سے حاصل ہوا تھا۔
آخر یہ کس قسم کے سزائیں اور مقدمات ہیں جو نہ صرف ہر دور میں بس اپوزیشن کا مقدر بنتے ہیں بلکہ ان کو تقریباً ہر مقدمے میں سزا بھی ہو جاتی ہے مگر جیسے ہی ان کی باری آتی ہے اور وہ اقتدار کے سنگھا سن پر براجمان ہوتے ہیں ان کی ہر مقدمے میں ضمانت بھی ہو جاتی ہے اور وہ باعزت بری بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا حسین اتفاق ہے جسے عقلی طور پر سمجھنے کیلئے عقل کسی سے ادھار مانگی جائے تو شاید بات بن جائے۔ جو ناقص سی عقل مالکِ کائنات نے عطا کر رکھی ہے اس سے تو یہ مسئلہ فیثا غورث حل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہمیشہ ایک جیسے بننے والے مقدمے اور سزائیں آخر ایک جیسے انجام سے ہی کیونکر دوچار ہوتی ہیں اور ہر دو چار سال بعد ایک ہی طرح کے پِٹے ہوئے سکرپٹ پر بننے والا ڈرامہ دوچار سال پرانی تھکی ہوئی کاسٹ کے ساتھ دوبارہ کیسے چل جاتا ہے؟
میں نے یہ سوال ایک دوست سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ آخر آپ کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ یہ سارے مقدمات نہ حکومت بنواتی ہے اور نہ ہی سزا دلواتی ہے۔ سیاستدان تو صرف اقتدار کے لالچ کے ہاتھوں مجبور ہیں اور ہر دو چار سال بعد دوبارہ منت ترلے کرکے آلہ کار بننے کی یقین دہانی کروا کر بلکہ گارنٹیاں دے کر آتے ہیں اور ہاتھ میں پکڑائے گئے سکرپٹ کے مطابق عمل شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں ابھی تک اس بات کا ادراک نہیں ہوا کہ یہ گیم محض چند سال کی ہے اور پھر وہ لاڈلے سے معتوب کے درجے پر پہنچ جائیں گے اور ان کیساتھ یہی کچھ دہرایا جائے گا۔ لیکن تاریخ کا بدترین سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کسی نے سبق حاصل نہیں کیا۔ ہر بار سیاستدان اقتدار کے لالچ میں سودے بازی کرتے ہوئے یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اب بہت سمجھدار اور سمارٹ ہو چکے ہیں اور وہ اب دوبارہ اسی دام ہمرنگ میں نہیں پھنسیں گے‘ مگر انکے تجربے میں تو ہر دو چار سال کا وقفہ آ جاتا ہے جبکہ ہدایت کار کی ہدایات بلا تعطل جاری و ساری رہتی ہیں۔
لاڈلا بھی وقت کیساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اگر ایک سے زائد لوگ تابعداروں کی قطار میں لگے ہوں تو ان میں سے زیادہ تابعداری کا وعدہ کرنے اور اس کا یقین دلانے والا اس درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ یہ عجب سلسلہ ہے کہ جو لوگ کل تک کسی کو لاڈلے کا طعنہ دیتے ہوئے اپنا حلق پھاڑ رہے ہوتے ہیں‘ موقع ملنے پر خود لاڈلا بننے کیلئے حتی المقدور تگ و دو کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اس ملک کی سیاست کا یہی المیہ ہے کہ تقریباً سارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں انتخابی معرکے میں اترتے وقت کسی نظریے‘ کسی منشور یا آئندہ کے لائحہ عمل پر زور دینے کے بجائے اقتدار کی پرچی جاری کرنیوالوں کے در پر سجدہ ریز ہونے کو ترجیح دیتے ہیں اور عوام کی طاقت پر بھروسا کرنے کے بجائے مقتدرہ کی خوشنودی کے حصول پر زور دیتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی اسی صلاحیت کے زور پر من کی مراد پاتے ہیں۔متوقع الیکشن بھی کیا خوب الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ بقول شخصے عالم یہ ہے کہ الیکشن کمیشن سے لیکر صدرِ مملکت تک اور سیاسی جماعتوں سے لے کر عدالتوں تک کسی کو یہ پتا نہیں کہ الیکشن کب ہوں گے لیکن بچے بچے کو علم ہے کہ اگلا وزیراعظم کون بنے گا۔ کل شاہ جی سے ملاقات ہوئی تو خاصے جلے بھنے بیٹھے تھے۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ اگر معاملہ اس حد تک واضح ہو چکا ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کا ہما کس کے سر پر بٹھایا جا رہا ہے تو پھر اس الیکشن کے ڈھونگ کی کیا ضرورت ہے؟ ملک کی اقتصادی حالت اتنی خراب ہے کہ سرکار اپنی ایئر لائن کے جہازوں میں تیل بھروانے سے قاصر ہے ایسے میں صندوقڑی میں ووٹ بھروانے کا خرچہ کرنا نہایت ہی فضول خرچی اور اسراف کے زمرے میں آتا ہے‘ خاص طور پر جبکہ یہ علم ہے کہ نتیجہ کیا آنا ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ شاہ جی! آپ کی اس سے کیا مراد ہے؟ شاہ جی کہنے لگے :زیادہ ''مچلا‘‘ بننے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں بخوبی علم ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ نظام چلانے والے اس کوشش میں ہیں کہ وہ کسی طرح ایسا الیکشن کروانے میں کامیاب ہو جائیں جس میں ایک طرف ان کا امیدوار ہو اور دوسری طرف بھی انہی کا امیدوار ہو۔ کہیں پر (ن) لیگ کے مقابلے میں استحکام پاکستان پارٹی کا امیدوار ہو تو کہیں پرویز خٹک کی پارٹی کا امیدوار ہو۔ کسی جگہ ان کے آزاد گروپ کے مقابلے میں انہی کا اشیر باد یافتہ آزاد امیدوار کھڑا ہو۔ صورتحال ایسی ہو کہ حافظ برخوردار کی مرزا صاحباں جیسا منظر نامہ ہو۔
حجرہ شاہ مقیم تے اک جٹی عرض کرے
میں بکرا دیواں پیرا دا جے سر دا سائیں مرے
ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نِت بلے
کتی مرے فقیر دی جہڑی چوں چوں نِت کرے
پنج ست مرن گوانڈھناں‘ رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے
انتخابی گلیاں سنجیاں کرنے کی کوششیں جاری ہے؛ تاہم نئے لاڈلوں کو علم ہونا چاہئے کہ لاڈلے سے معتوب اور راندۂ درگاہ ہونے میں اور سلیکٹیڈ سے ریجیکٹیڈ ہونے میں محض دو چار سال ہی لگتے ہیں۔ کاش ہمارے سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ آ جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں