"KMK" (space) message & send to 7575

باغ لانگے خان‘ لاہور کی چوبرجی اور کلر کہار کا باغِ صِفا

مجھے بار بار ایک ہی بات لکھتے ہوئے بعض اوقات جھجک سی محسوس ہوتی ہے کہ قارئین بھی کیا کہیں گے کہ یہ بندہ ایک ہی بات بار بار لکھ رہا ہے‘ لیکن پھر مجھے حوصلہ ہوتا ہے کہ اگر ایک چیز مسلسل وقوع پذیر ہو سکتی ہے تو آخر ہم اس پر مسلسل لکھ کیوں نہیں سکتے۔ اگر ہمارے لکھے کا ارباب ِاقتدار پر اثر نہیں ہو رہا تو ہمیں دوبارہ سہ بارہ لکھنے میں کیا امر مانع ہے؟ یہ بات طے ہے کہ ہم من حیث القوم سبزے‘ درختوں‘ جنگلوں اور باغوں کے دشمن ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ سموگ نے ہر طرف بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ حتیٰ کہ ملتان اور بہاولپور جیسے شہر بھی اس مصیبت کی لپیٹ میں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے شہروں کے ارد گرد سے سارے درخت کاٹ کے ہاؤسنگ سکیمیں بنا لیں۔ اب سر سبز کھیتوں اور باغات کی جگہ سریے اور کنکریٹ کے جنگل اُگ آئے ہیں۔ ہم نے سارا قدرتی توازن تباہ کردیا تو یہی کچھ ہونا تھا۔
جب تک میں نے لندن نہیں دیکھا تھا میرا خیال تھا کہ یہ محض سنگ و خشت کا ایک جنگل ہوگا لیکن ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے سے قبل لندن کی پہلی فضائی جھلک اتنی حیران کن تھی کہ میں اپنی کم علمی اور غلط فہمی پر باقاعدہ شرمند ہو گیا۔ نیچے لندن جیسے مہنگے اور کمرشل شہر میں درختوں‘ پارکوں اور باغات کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا۔ اور پارک بھی کیسے؟ یہ ملتان والے باغ لانگے خان یا عام خاص باغ جیسے کنالوں پر مشتمل پارک نہیں جن کا رقبہ قبضہ گروپوں اور کمرشلائزیشن کے طفیل مزید کم ہو گیا ہو بلکہ یہ سینکڑوں ایکڑوں پر مشتمل پارک ہیں۔ ہائیڈ پارک‘ کینسنگٹن گارڈن‘ بیٹر سی پارک‘ سینٹ جیمز پارک‘ گرین پارک‘ ریجنٹ پارک‘ دی ہل گارڈن‘ ہائی گیٹ ووڈ‘ واٹر لُوپارک‘ کلپہم کامن‘ ومبلڈن پارک‘ رچمنڈ پارک‘ بشی پارک‘ ہیمپٹن کورٹ پارک‘ وکٹوریہ پارک‘ کوئین الزبتھ پارک‘ کوئینز پارک‘ ہیمپسٹڈ ہیتھ‘ الیگزینڈرا پارک اور ان کے علاوہ درجنوں اور چھوٹے بڑے پارک جو اس شہر کے قلب میں درختوں اور سبزے کا قالین بچھائے بیٹھے ہیں۔ ہائیڈ پارک دنیا کے مہنگے ترین علاقے میں ہے اور پورے 1350ایکڑ پر مشتمل ہے۔ مجال ہے جو کوئی سیاستدان اسے غتربود کرنے کا سوچے‘ کوئی پراپرٹی مافیا کا نمائندہ ادھر ہاؤسنگ سکیم بنانے کا خیال دل میں لائے‘ سٹی گورنمنٹ اس میں دکانیں بنا کر اپنی آمدنی بڑھانے کا منصوبہ بنائے یا کوئی اعلیٰ عدالت کا جج اس میں جوڈیشل کمپلیکس جیسا نادر روزگار منصوبہ پیش کرے اور پارک کی زمین الاٹ کرنے کا حکم جاری کرے۔ ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔
لندن شہر کے جنوب مغرب میں واقع رچمنڈ پارک اس شہر کا سب سے بڑا پارک ہے۔ سترہویں صدی عیسوی میں برطانیہ کے بادشاہ چارلس اول کا قائم کردہ یہ پارک 2360 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ اس پر ایک بہت خوبصورت اور وسیع و عریض ہاؤسنگ کالونی قائم کی جا سکتی تھی مگر انگریز کم بختوں کو اس قسم کا کوئی خیال ہی نہیں آتا۔حتیٰ کہ نالائقی اور نااہلی کا یہ عالم ہے کہ 2360 ایکڑ پر مشتمل اس پارک کی اوپر والی 60 ایکڑ زمین بھی کسی نے نہیں ہتھائی‘ حالانکہ اس سے پارک کا رقبہ 2300 ایکڑ رہ جاتا جو زیادہ مناسب دکھائی دیتا۔
ملتان میں لے دے کر دو قدیم باغات تھے‘ ایک عام خاص باغ اور دوسرا باغ لانگے خان۔ عام خاص باغ دو سڑکوں کے سنگھم پر تکونا باغ ہے۔ میرے سامنے ان دونوں سڑکوں پر کارپوریشن نے بے ہنگم سی درجنوں دکانیں بنا دیں۔ اس سے باغ کا رقبہ بھی کم ہو گیا اور ساری خوبصورتی بھی برباد ہو گئی۔ حیرت ہے کہ ایسی فضول حرکتوں کے باوجود ہمارے سرکاری اداروں کا نہ تو خسارہ کم ہوتا ہے اور نہ ہی سرکاری افسروں کا پیٹ ہی بھرتا ہے۔ باغ لانگے خان کے کافی سارے حصے پر تو قبضہ گیروں نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ دس بارہ کنال چناب کلب نے گھیر رکھے ہیں۔ اسی طرح آٹھ نو کنال پر ایک ایسا ویمن کلب ہے جس پر شہر کی ایلیٹ بیبیوں نے پنجے گاڑ رکھے ہیں لیکن نہ یہ کلب چلتا ہے اور نہ کھلتا ہے۔ بچے کھچے باغ میں نہ پھل ہیں اور نہ ہی پھول ہیں۔ البتہ نشئی حضرات وافر تعداد میں میسر ہیں۔
ہمارے ہاں کسی باغ یاپارک کو دیکھ کر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ ''خالی جگہ‘‘ دراصل ہمارے دور اندیش بزرگوں نے ہماری مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے چھوڑ رکھی تھی اور اب ہم پر واجب ہے کہ ان کی اس پیش بندی کو درست ثابت کرتے ہوئے اس پر سرکاری دفتر‘ ڈسپوزل پمپ‘ ڈسپنسری‘ دکانیں‘ سرکاری رہائش گاہیں وغیرہ تعمیر کریں اور کچھ نہ ہو سکے تو اس جگہ کو کسی ملٹی نیشنل فوڈ چین کو لیز یا کرائے پر دے دیں۔ کسی باغ یا پارک کی ہمارے نزدیک اس کے علاوہ اور کوئی اہمیت نہیں کہ اس جگہ کو کسی نہ کسی صورت کمرشل مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے۔ خالی خولی پارک یا باغ کا ہونا ہمارے نزدیک اس زمین کے ضائع ہو جانے کے مترادف ہے۔
نیویارک کا قلب مین ہٹن ہے جہاں زمین کی قیمت گزوں یا فٹوں میں نہیں بلکہ انچوں کے حساب سے لگائی جاتی ہے۔ اسی مین ہٹن کے عین درمیان میں سنٹرل پارک ہے۔1857ء میں جب یہ پارک قائم ہوا تو اس کا رقبہ 778 ایکڑ تھا۔ آج ایک سو چھیاسٹھ سال بعد اس کا رقبہ کم ہونے کے بجائے 65 ایکڑ اضافے کے بعد 843 ایکڑ ہے۔ اس پارک کو سالانہ ساڑھے چار کروڑ کے لگ بھگ لوگ دیکھنے آتے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ان 166برسوں میں کسی کو بھی اتنے وسیع و عریض پارک جو دنیا کی مہنگی ترین زمین پر بنا ہوا تھا ‘قبضہ کرنے کا خیال نہ آیا حالانکہ یہ کہہ کر اس قیمتی زمین کو کسی بھی کمرشل سرگرمی کیلئے استعمال لایا جا سکتا تھا کہ اس پارک کو بیچ کر جو رقم حاصل ہو گی اس کے بیس فیصد سے اس سے کہیں بڑا پارک شہر کے باہر بنایا جا سکتا ہے۔
میں سوچتا ہوں اگر برصغیر میں مغل اور بعد ازاں انگریز حکمران نہ ہوتے تو بھلا اس خطے میں باغ کہاں ہوتے؟ ہم نے تو مغلوں اور انگریزوں کے بنائے ہوئے باغات کو بھی سلامت نہ رہنے دیا۔ لاہور کی چوبرجی دراصل ایک ناپید ہو جانے والے باغ کا داخلی دروازہ ہے جو مغل بادشاہ شاہجہان نے 1646ء میں مغل شہزادی زیب النساکے نام پر بنوایا۔ آج اس باغ کا صرف دروازہ سلامت ہے اور یہ بھی غنیمت ہے۔
کلر کہار کی جھیل کے کنارے پر ایک مغلیہ باغ ہے۔1519ء میں جب ظہیر الدین بابر پنجاب میں داخل ہوا اور کلر کہار پہنچا تو یہاں کے حسن سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اس علاقے کی خوبصورتی کا ذکر اپنی خود نوشت''تزک بابری‘‘ میں بھی کیا۔ یہیں اس نے اپنی فوج سے خطاب کیا۔ چٹان کے اوپر تراشیدہ پتھر''تخت بابری‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ بابر نے یہاں ایک باغ لگوایا۔ یہ باغ صفا ہے۔کسی زمانے کے وسیع و عریض باغ کی اب صرف باقیات موجود ہیں۔ دو عدد ریسٹ ہاؤس اس باغ کی زمین نگل چکے ہیں۔ سینکڑوں کنال پر مشتمل اس تاریخی باغ میں لگے ہوئے تعارفی کتبے کے مطابق یہ باغ اب ایک سو گیارہ کنال پر مشتمل ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس کا موجودہ رقبہ محض 68.3 کنال کے لگ بھگ باقی بچا تھا۔ اب اس بچے کھچے باغ میں سے 16.4 کنال رقبہ لاہور ہائیکورٹ نے جوڈیشل کمپلیکس کیلئے الاٹ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ یعنی باغ مزید سکڑ کر باقی 52 کنال رہ جائے گا۔ کلر کہارجھیل کی دوسری طرف جوڈیشل کمپلیکس کیلئے مختص اسی کنال رقبہ 2015ء سے بے کار پڑا ہے اور اب اس سر سبز باغ میں عدل و انصاف کی پنیری کاشت کرنے کا منصوبہ ہے۔ نئے باغ تو ہماری قسمت میں نہیں‘ خدارا پرانے باغ تو سلامت رہنے دیے جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں