"KMK" (space) message & send to 7575

ہائیڈ پارک کے آس پاس

اب اسے عمر کا تقاضا کہہ لیں یا میری ہٹ دھرمی سمجھ لیں‘ لیکن صورتحال یہ ہے کہ اب گھٹنوں کا معاملہ ہتھے سے نکلتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر حیدر قیصرانی ہر بار میرے گھٹنوں کا ایکسرے دیکھنے کے بعد پوچھتا ہے کہ تم ان گھنٹوں سے اتنا چل کیسے لیتے ہو؟ میں جواب دیتا ہوں کہ اس کا بھلا مجھے کیا پتا ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر آپ ہیں اور آپ کو اس بارے میں مجھ سے بہتر علم ہوگا۔ بقول ڈاکٹر قیصرانی کے‘ آرتھرائٹس کے مارے ہوئے ان گھنٹوں کی جو حالت ہے اس سے کہیں بہتر حالت والے گھٹنے چلنے پھرنے سے اوازار ہیں جبکہ تم ان خستہ حال اور کہن سال گھٹنوں سے اب بھی میلوں چل لیتے ہو۔ لیکن میری ایک بات سن لو‘ تم ان غریب گھٹنوں سے جتنا کام لے رہے ہو‘ عنقریب تم چلنے پھرنے سے بالکل ہی رہ جاؤ گے۔ میں ہنس کر کہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب! جتنا چل سکتا ہوں‘ اتنا تو چل لینے دیں۔ جب گھٹنوں نے مکمل جواب دے دیا تب دیکھ لیں گے۔ اب بھلا اگر میں نے چلنا ہی چھوڑ دیا تو ان گھٹنوں کی عمر میں اضافے کا مجھے کیا فائدہ؟ ایسی بچت کا کیا کرنا ہے جسے ہم اپنے استعمال ہی میں نہ لا سکیں؟
دو ماہ پہلے یہ ہوا کہ کمر کے مہروں نے دھوکا دے دیا۔ ڈاکٹر قیصرانی نے ایم آر آئی دیکھ کر تسلی دی کہ کمر کے مہروں کی حالت گھٹنوں سے تو نسبتاً بہتر ہے‘ لیکن ہوا یہ کہ نسیں دبنے سے ٹانگوں کے پٹھوں نے بے وفائی شروع کر دی۔ چلنے پھرنے میں ایسی دشواری کہ چھڑی کے بغیر چلنا مشکل ہو گیا۔ ڈاکٹروں کا ایک جم ِغفیر تھا جو اس صورتحال میں میرے بارے میں فکر مند تھا۔ جب میں ان سب دوستوں کی محبت اور فکر مندی کو دیکھتا تو اللہ کے حضور شکر ادا کرتا کہ اس کے طفیل اس فقیر کو کیسے کیسے دوستوں کا خزانہ میسر ہے۔ لیکن میرے بچوں کا خیال تھا کہ کومل اور عہد آفرین کو چھوڑ کر بقیہ سارے کے سارے آپ کے ڈاکٹر دوست آپ پر اپنی ڈاکٹری نافذ کرنے کے بجائے آپ کو عین وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو آپ کی خواہش ہے‘ میں آگے سے ہنس پڑتا ہوں کہ میری صفائی پر بھلا یقین بھی کس نے کرنا ہے؟اس نئی صورتحال کے پیش نظر جبکہ چلنا ہی مشکل تھا‘ سفر کے لیے بچوں کو کس طرح راضی کیا‘ یہ ایک الگ قصہ ہے تاہم ایک لمبے سفر کے بعد میں برطانیہ میں ہوں۔ ایئرپورٹس کے ٹرمینلز سے لے کر انڈر گراؤنڈز کے سٹیشنز پر اُتر چڑھ رہا ہوں۔ ہوٹلوں میں خوار ہو رہا ہوں اور جی بھر کر پیدل چل رہا ہوں۔ یہ سب وہ کام ہیں جو میں کم از کم ملتان میں نہیں کر سکتا تھا۔
ماربل آرچ کے سامنے سے گزرتے ہوئے میں نے ملک سے پوچھا کہ ٹانگوں کے بعد دوسری وہ کون سی سب سے اہم شے ہے جو کسی شہر میں پیدل چلنے کیلئے درکار ہے؟ ملک کنفیوژ ہو کر کہنے لگا کہ اس کا جواب بھی تم خود ہی دے دو۔ میں نے کہا کسی بھی شہر میں پیدل چلنے کیلئے صحت مند ٹانگوں کے بعد دوسری سب سے اہم شے جو درکار ہے وہ فٹ پاتھ ہے۔ اگر فٹ پاتھ ہی نہیں ہوگا تو تم بھلا کہاں چلو گے؟ ادھر لندن میں کل میں سولہ ہزار قدم اور دو روز پہلے چودہ ہزار قدم چلا ہوں۔ بھلا یہ کام ملتان میں کہاں ہو سکتا ہے؟ دھول‘ مٹی اور بے ہنگم ٹریفک کو تو ایک طرف رکھیں‘ کیا اس شہر میں کسی فٹ پاتھ پر چلنے کیلئے دو فٹ جگہ بھی بچی دکھائی دیتی ہے جسے دکانداروں نے اپنے سامان کے ڈسپلے کے بعد پیدل چلنے والوں کے لیے خالی چھوڑا ہو؟
ابھی میری تقریر دلپذیر جاری تھی کہ ملک نے مجھے ٹوکتے ہوئے ایک بلڈنگ کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ کیا تم اس بلڈنگ کو پہچانتے ہو؟ میں نے لاعلمی سے سر ہلا دیا۔ ملک نے میری کم علمی اور نالائقی پر منہ سے چچ چچ کی آواز نکالی۔ پھر کہنے لگا: تم دراصل سوشل میڈیا کی فراہم کردہ تازہ ترین معلومات سے محروم شخص ہو‘ وگرنہ تمہیں بخوبی علم ہوتا کہ یہ کون سی بلڈنگ ہے۔ برادرم! یہ وہ مشہور و معروف دفتر ہے جس کے قریب سے گزرتے ہوئے پی ٹی آئی کے حامی مرد و خواتین ''چور چور‘‘ کے نعرے لگاتے تھے۔ انہی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے میاں نواز شریف سے پریس کے نمائندے گفتگو کرتے تھے۔ یہ میاں نواز شریف کا یا زیادہ درست کہیں تو ان کے بیٹوں کا دفتر ہے۔ آج کل پاکستان کے مسلم لیگی میاں صاحب کی پاکستان واپسی پر اتنے خوش نہیں جتنے یہاں کے مکین ان کی پاکستان روانگی پر خوش ہیں۔ یہ سڑک سٹین ہوپ پلیس ہے۔ ادھر سامنے وہ کناٹ پلیس ہے جس کے نام پر 1929ء میں دہلی میں کناٹ پلیس کا علاقہ تعمیر کیا گیا۔ یہ دہلی کا اب بھی سب سے مہنگا اور دنیا کا نواں مہنگا ترین علاقہ ہے۔ ادھر دوسری طرف لندن کی مہنگی ترین رہائشی اور کاروباری سڑک پارک لین ہے۔ یہ کہہ کر ملک اس طرف مڑ گیا۔ پھر اوپر اشارہ کرکے کہنے لگا: وہ سامنے ایون فیلڈ ہاؤس ہے۔ اس کے دو فلور میاں صاحب کے پاس ہیں۔ ان دو فلورز کی قیمت کم از کم بھی 30‘ 32ملین پاؤنڈز ہے۔ وہ سامنے سڑک کے پار ہائیڈ پارک ہے۔ میں ملک کے ساتھ ہائیڈ پارک کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا ماربل آرچ تک آیا اور پھر پارک کے ساتھ بائیں طرف مڑ گیا۔ دائیں طرف والی سڑک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ملک کہنے لگا: ہم ادھر ابھی واپس آئیں گے‘ یہ ایجویٹر روڈ ہے لیکن پہلے تمہیں ایک اور تاریخی عمارت دکھاؤں۔ میں اشتیاق سے ادھر چل پڑا۔ چند قدم چل کر ملک نے دائیں طرف ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وَن ہائیڈ پارک پلیس ہے۔ یہ اس علاقے کی مہنگی ترین رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ یہ عمارت میاں نواز شریف نے شاید تیس ملین پاؤنڈز میں خریدی تھی۔ پھر انہوں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران یہ عمارت پاکستان کے ایک پراپرٹی ٹائیکون کو غالباً پچاس ملین پاؤنڈز میں فروخت کر دی۔ یہ لندن میں کسی بھی عمارت پر تیس ملین پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کے عوض اتنے کم ترین عرصے میں مبلغ بیس ملین پاؤنڈز کے منافع سے فروخت ہونے والا ایسا ریکارڈ ہے جو شاید ہماری زندگی میں نہ ٹوٹ سکے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پراپرٹی ٹائیکون نے اتنی زیادہ رقم اس لیے ادا کی تھی کہ وہ اس عمارت کی مستقبل میں متوقع قیمت کا اندازہ لگا چکا تھا اور شاید وہ اس رہائش گاہ کو کسی پلازے یا اپارٹمنٹ بلڈنگ میں تبدیل کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا‘ اس لیے اس نے تیس ملین میں خریدی گئی عمارت کیلئے پچاس ملین پاؤنڈز ادا کر دیے۔ لیکن اس علاقے کے قوانین اور قواعد و ضوابط کی معلومات رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کسی بھی عمارت کی بنیادی حیثیت کو تبدیل کرنا ناممکن نہیں تو بہت ہی مشکل ضرور ہے اور یہ پاکستان نہیں کہ ٹھٹھہ کا علاقے کراچی کی میونسپل حدود میں شامل کروا لیا جائے۔ سمجھداروں کا کہنا ہے کہ پراپرٹی ٹائیکون نے اس عمارت کی خریداری کے لیے پچاس ملین پاؤنڈ ادا کرکے جہاں اپنی ٹیکسوں سے بچائی ہوئی یہ موٹی رقم ہنڈی حوالے سے برطانیہ منتقل کر لی‘وہیں بیس ملین پاؤنڈز کا غیر معمولی نفع ادا کرکے اس وقت کے وزیراعظم کو اپنا مزید زیربار کر لیا۔ اور ہاں ! اگلی بات اس سے زیادہ دلچسپ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں