"KMK" (space) message & send to 7575

ہیوسٹن‘ وائلن اور استاد رئیس احمد خاں

ہیوسٹن میں پہلے ایک دو دوست تھے پھر یہ تعداد دوگنی ہو گئی۔ تعداد دوگنی ہو جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں نے نئے دوست بنا لیے ہیں بلکہ اس کی وجوہات مختلف ہیں۔ پہلے اس شہر میں ایک دوست ڈاکٹر آصف ریاض قدیر ہوتا تھا‘ پھر رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے عنایت اشرف سے راہ و رسم ہوئی۔ سرائیکی زبان نے اس راہ و رسم کو اگلی منزل تک پہنچا دیا۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارا عزیز دوست اور شاندار شاعر و کالم نویس غضنفر ہاشمی اسلام آباد سے ادھر امریکہ آ گیا اور ہیوسٹن ڈیرہ لگا لیا۔ اسکے طفیل ہیوسٹن میں دوستوں کی تعداد مزید بڑھ گئی۔ پھر عاکف ذیشان میری لینڈ سے ہیوسٹن آ گیا۔ یہ بھی اچھا ہوا دوست ایک ہی شہر میں اکٹھے ہو گئے۔ وگرنہ فاصلوں کے باعث امریکہ میں دوستوں سے ملناناممکن نہ سہی‘ تاہم مشکل ضرور ہے۔
ہیوسٹن سے تھوڑے ہی فاصلے پر (ادھر امریکہ میں تھوڑے فاصلے کا معاملہ ہم سے بہت مختلف ہے) یعنی تقریباً 140 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک شہر بومانٹ (Beaumont) ہے۔ یہاں ہمارے خانیوال کے جوانی کے دوست طاہر کے بڑے بھائی سرور جاوید رہتے ہیں۔ جب میں پہلی بار ہیوسٹن آیا تو مجھے علم نہیں تھا کہ بومانٹ ادھر سے اتنے فاصلے پر ہوگا۔ میرا خیال تھا کہ دس پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر کوئی نواحی شہر ہوگا جو گریٹر ہیوسٹن کا حصہ ہو گا مگر یہ خیال بعد میں غلط ثابت ہوا۔ سرور بھائی کو میرے ہیوسٹن آنے کا علم خانیوال سے طاہر کے فون سے ہوا‘ وہ ہیوسٹن میں میرے ہوٹل آ دھمکے اور مجھے گاڑی میں ڈال کر بومانٹ لے گئے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ پاکستان کی سیاست میں مولانا فضل الرحمن کی وساطت سے ''لیٹرل انٹری‘‘ ڈالنے والے اعظم سواتی کا تعلق بھی بومانٹ سے تھا۔ ادھرلوگ ان کے بارے میں دبے دبے لفظوں سے کچھ نہ کچھ کہتے رہتے تھے مگر کھل کر کوئی نہیں بتاتا تھا۔ طاہر جاوید سے بھی پہلی ملاقات سرور بھائی نے اسی پہلے وزٹ کے دوران کروائی۔ بعد میں طاہر جاوید پاکستانی سیاست کے حوالے سے خبروں میں آنا شروع ہوئے لیکن جب میں ان سے پہلی بار ملا تو تب انکی امریکہ میں شہرت ایک کامیاب بزنس مین کے علاوہ ڈیمو کریٹ پارٹی کے ایک سرگرم اور فعال رکن کے حوالے سے تھی۔ تب طاہر جاوید کو پاکستان میں شاید چند لوگ ہی جانتے ہوں گے۔ اس پہلی ملاقات میں ہماری گفتگو کا موضوع پاکستانی نہیں بلکہ امریکی سیاست تھی اور طاہر جاوید کا اصل میدان تب امریکی سیاست ہی تھا۔ طاہر جاویدکا تذکرہ تو میں بعد میں کروں گا۔ فی الحال تو ہیوسٹن کا مزہ لیتے ہیں۔
عاکف ذیشان کو ہیوسٹن شفٹ ہوئے تین سال کے لگ بھگ ہو گئے ہیں۔ پچھلی مرتبہ بھی اس سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی اور اس دوران زیادہ تر گفتگو مشترکہ دوستوں کے حوالے سے ہوتی رہی۔ جب میں ہیوسٹن ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو عاکف بمعہ فیملی میرا منتظر تھا۔ جب میں گاڑی میں بیٹھا تو اس کے دونوں بیٹے سو رہے تھے۔ سعدیہ نے انہیں جگا کر بتایا کہ ''گرینڈ پا‘‘آ گئے ہیں۔ احمد اور ابراہیم نے آنکھیں ملتے ہوئے السلام علیکم گرینڈ پا کا نعرہ لگایا۔ یہ دونوں بچے مجھے گرینڈپا(دادا) کہتے ہیں۔ عاکف کو علم ہے کہ مجھے سیاسی گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میرا یقین ہے کہ کسی پاکستانی‘ خواہ وہ پاکستان میں ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو‘ سے سیاسی اور مذہبی بحث نہ صرف لاحاصل ہے بلکہ اس کا نتیجہ عملاً بدمزگی کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتا۔ میں نے اپنی ساری زندگی میں کسی بھی سیاسی بحث کے نتیجے میں خواہ وہ کتنے ہی زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان ہی کیوں نہ ہو رہی ہو‘ نہ تو کبھی کوئی نتیجہ نکلتے دیکھا ہے اور نہ ہی کسی کو اپنے سیاسی نظریات میں رتی برابر تبدیلی لاتے دیکھا ہے۔
اس بار ہیوسٹن آنے کا بنیادی مقصد تو ڈاکٹر آصف قدیر کا جناح لائبریری والا پراجیکٹ دیکھنا تھا۔ ڈاکٹر آصف ریاض قدیر نے ہیوسٹن کے بارونق علاقے میں واقع ایک پلازہ میں تین کمروں پر مشتمل ایک حصہ کرائے پر لیا ہے اور اس میں ایک عدد لائبریری قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ لائبریری اور کتابیں میری کمزوری ہیں اور ان سے محبت مجھے ورثے میں ملی ہے۔ اس لیے جیسے ہی یہ سنا کہ آصف ریاض قدیر ایک لائبریری قائم کرنے جا رہا ہے تو میں نے سوچا اس لائبریری کے بہانے دوستوں سے ملاقات کر لی جائے اور دوستوں کے بہانے اس مجوزہ لائبریری کی جگہ دیکھ لی جائے۔ ڈاکٹر آصف کا ارادہ ہے کہ سب سے چھوٹے کمرے کو دوستوں کیلئے بیٹھنے کی ایسی جگہ بنایا جائے جہاں بیٹھ کر گپ شپ بھی ہو اور چائے کافی بھی چلتی رہے۔دوسرا کمرہ جو نسبتاً بڑا ہے اسے لائبریری بنایا جائے اور تیسرا کمرہ جو کافی بڑا اور کھلا ہے اسے ایک چھوٹے سے آڈیٹوریم میں بدل دیا جائے جہاں چالیس پچاس لوگوں کے بیٹھنے کا اہتمام ہو اور ساؤنڈ سسٹم وغیرہ کا بندوبست ہو تاکہ پاکستان اور اردو زبان کے حوالے سے پاکستانی کمیونٹی کو ہیوسٹن میں مختلف قومی تہواروں اور شخصیات کیساتھ تقریبات اور مل بیٹھنے کیلئے ایک ایسا مقام میسر ہو جس میں بلامعاوضہ تقریبات کی سہولت اور ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے منتخب کتابیں موجود ہوں۔
میرے دونوں نواسوں کی یہ عادت ہے کہ وہ سونے سے پہلے جیسے ہی اپنے بستر پر جاتے ہیں اپنی اپنی کتاب اٹھاتے ہیں اور پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی یہ روٹین میرے آنے پر بھی برقرار رہتی ہے۔ میں جب امریکہ ان کے پاس جاتا ہوں تو سیفان اور ضوریز اپنا کمرہ چھوڑ کر میرے کمرے میں آ جاتے ہیں جہاں ایک بڑا بیڈ لگا ہوا ہے۔ پہلے دونوں میرے دائیں بائیں سوتے تھے لیکن مجھے رات کو بستر سے اٹھنے کی ضرورت پڑ جاتی تھی تو درمیان میں دھنسے ہونے کی وجہ سے نکلتے ہوئے بڑی مشکل ہوتی تھی۔ پھر یہ طے پایا کہ میں درمیان میں سونے کی بجائے ایک طرف سوؤں گا اور وہ دونوں باری باری ہر رات اپنی جگہ آپس میں تبدیل کرتے ہوئے ایک رات درمیان میں اور دوسری رات پلنگ کے دوسرے سرے پر سوئیں گے۔ اب جب ہم رات کو بستر پر لیٹتے ہیں تو وہ اپنی اپنی کتاب اٹھا لیتے ہیں۔ ضوریز تو سونے سے پہلے اپنی کتاب اور عینک مجھے پکڑا دیتا ہے مگر سیفان مجھے کہتا ہے کہ بڑے بابا تھوڑی سی اور پڑھ لوں پھر آپ کو اپنی کتاب اور عینک پکڑا دوں گا مگر وہ اس دوران چند لمحوں میں سو جاتا ہے اور میں اس کی کتاب اور عینک اٹھا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھتا ہوں اور لائٹ بند کر دیتا ہوں۔
عاکف کے گھر اس کے دونوں بیٹے مجھے اپنی اپنی دلچسپی کی چیزیں دکھا رہے تھے۔ چھوٹا بیٹا ابراہیم اپنے سکول میں وائلن (سارنگی) سیکھ رہا ہے۔ اس نے مجھے اپنا وائلن دکھایا اور پھر مجھے اس پر ایک معلوماتی لیکچر دیا۔ سچ پوچھیں تو علم حاصل کرنے کی نہ کوئی عمر ہے اور نہ ہی کوئی حد ہے۔ مجھے اس عمر میں جا کر علم ہوا کہ وائلن کی چار اقسام ہیں۔ سب سے چھوٹا وائلن کہلاتا ہے‘ اس سے بڑا وائیلا(Viola)کہلاتا ہے‘ اس سے بڑا سیلو (Cello)کہلاتا ہے۔ یہ بتاتے ہوئے ابراہیم کھڑا ہو کر کہنے لگا۔ سیلو مجھ سے بڑا ہوتا ہے اور سب سے بڑا باس(Bass)کہلاتا ہے جو بہت بڑا ہوتا ہے۔ اسی نے مجھے بتایا کہ جس گز سے وائلن بجایا جاتا ہے‘ اسے Bowکہتے ہیں اور اس کے ایک طرف لکڑی کی باریک چھڑی ہوتی ہے تاہم وائلن اس لکڑی کے دوسری طرف تنے ہوئے گھوڑے کی دم کے بالوں سے بجایا جاتا ہے۔ جب وہ وائلن کی تفصیلات بتا رہا تھا مجھے ہیوسٹن میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے بے مثل سارنگی نواز استاد رئیس احمد خاں کی یاد آ گئی۔ مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ صرف دو دن بعد میں فلاڈیلفیا کے نواح میں خالد منیر کے ساتھ استاد رئیس احمد کو بنفسِ نفیس بیٹھ کر سُن رہا ہوں گا۔ استاد رئیس نے جو سماں باندھا‘ وہ صرف محسوس کرنے کی چیز ہے بیان کرنے کی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں